حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ

   
تاریخ : 
۱۴ جولائی ۱۹۸۵ء

غالباً ستائیسواں روزہ تھا کہ معمول کے مطابق صبح نو بجے کے قریب اخبار ہاتھ میں لیا تو اس کے دوسرے صفحہ پر ایک کالمی ایک سطری سرخی کے ساتھ کسی سیاہ حاشیہ کے بغیر چند سطری خبر تھی کہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ انتقال کر گئے۔ زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا اور دل دوہرے رنج و غم میں ڈوب گیا۔ ایک صدمہ مولانا مرحوم کی وفات پر اور دوسرا قومی پریس کی بے خبری، سطحیت، ظاہر بینی یا بے حسی پر کہ ایک قومی اخبار کے نامہ نگار یا ایڈیٹر کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ جس شخص کی وفات کی خبر کو وہ چند سطروں میں غیر اہم جگہ پر شائع کر رہا ہے وہ ان سینکڑوں شخصیات پر اپنے علم و فضل، تقویٰ و طہارت اور دینی و ملی خدمات کے لحاظ سے بھاری ہے جن کی معمول کی سرگرمیاں بھی روزانہ اخبارات کے صفحۂ اول کی زینت بنتی رہتی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کا تعلق اس قافلۂ عزیمت و استقامت اور کاروانِ عزم و استقلال سے تھا جس نے برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں فرنگی استعمار کی یلغار کے بعد اس کے اقتدار، کروفر، جاہ و جلال اور زرق برق تہذیب و ثقافت سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر اسلامی تعلیمات و احکام اور اسلاف کی روایات کو نہ صرف سینے سے لگائے رکھا بلکہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ معاشرہ میں اس کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی سرگرم عمل رہا۔ اور آج اس قافلۂ حق و صداقت کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اسلامی دنیا کا یہ خطہ اسلامی روایات کے ساتھ وابستگی اور دینی حمیت و جذبہ کے لحاظ سے پورے عالم اسلام میں ممتاز اور مثالی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ ۸ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ میں رشیدیہ رائے پور جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم مولانا مفتی فقیر اللہؒ اپنے وقت کے جید اور مجاہد عالم دین تھے جنہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ جیسے نابغہ روزگار علمی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے علم و فضل کے خزانوں سے اپنا دامن بھرا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ کی تعلیم و تربیت کے بیشتر مراحل مدرسہ رشیدیہ رائے پور جالندھر اور مدرسہ خیر المدارس جالندھر میں طے ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مولانا مفتی فقیر اللہؒ، حضرت مولانا عبد العزیز رائے پوریؒ، اور حضرت مولانا محمد ابراہیمؒ میاں چنوں جیسی علمی شخصیات نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے دورۂ حدیث خیر المدارس جالندھر میں مکمل کر کے حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ سے سندِ اجازت حاصل کی۔ اور ان کے علاوہ حدیث میں آپ کو اپنے وقت کے ممتاز محدثین حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، حضرت مولانا محمد زکریاؒ اور حضرت مولانا فقیر اللہؒ نے بھی سند مرحمت فرمائی۔ فراغت کے بعد کم و بیش بیس سال تک خیر المدارس جالندھر میں ہی تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد خیر المدارس ملتان میں منتقل ہوئے اور مدرسہ رشیدیہ رائے پور جالندھر سے ساہیوال میں منتقل ہوگیا۔ یوں مولانا عبد اللہ رائے پوریؒ کچھ عرصہ بعد جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں منتقل ہوگئے جہاں آپ وفات تک کم و بیش بتیس برس تک علمِ حدیث کا درس دے کر تشنگانِ علوم نبویؐ کو اپنے چشمۂ فیض سے سیراب کرتے رہے۔

حضرت مفتی فقیر اللہؒ کے تینوں فرزند مولانا محمد عبد اللہؒ، مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی اور مولانا قاری لطف اللہؒ قیام پاکستان کے بعد ساہیوال منتقل ہوگئے۔ اس شہر میں جو اس وقت منٹگمری کہلاتا تھا، جامعہ رشیدیہ کے قیام و ترقی میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ تینوں بھائیوں کو اللہ رب العزت نے علم و فضل اور جذبہ و عزم کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور بے باکی کی نعمت سے بھی مالامال فرمایا تھا۔ چنانچہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے جسٹس محمد منیر نے اپنی انکوائری رپورٹ میں تینوں بھائیوں کا نمایاں طور پر ذکر کیا ہے۔ اس تحریک میں تینوں بھائی گرفتار ہوئے اور مولانا محمد عبد اللہؒ ساہیوال اور میانوالی کی جیلوں میں ایک سال تک نظر بند رہے۔ حضرت کو تحریک ختم نبوت کے ساتھ بے حد شغف تھا، آپ کا شمار تحریک ختم نبوت کے ممتاز راہنما حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کے خصوصی رفقاء میں ہوتا تھا اور آپ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے آخر وقت تک نائب امیر رہے۔

حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کا روحانی تعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے تھا اور آپ کو حضرت رائے پوری کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرؒ مدنی سے بھی خلافت و اجازت حاصل تھی۔

شیخ الجامعہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ نے اپنے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط تدریسی دور میں زیادہ تر علمِ حدیث ہی کی خدمت کی۔ آپ کا مشکوٰۃ شریف کا سبق بہت مشہور تھا اور اکثر اہل علم آپ کے املاء کرائے ہوئے اسباق سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ حضرت جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے اور بخاری شریف جیسی جلیل القدر کتاب آخر تک آپ کے درس میں شامل رہی۔ آپ سے ہزاروں علماء اور طلبہ نے استفادہ کیا اور فیض حاصل کرنے والوں میں سے جن علماء نے مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت حاصل کی ان میں سے چند سرکردہ حضرات کے نام گرامی درجِ ذیل ہیں۔ مولانا مفتی زین العابدین، فیصل آباد۔ مولانا عبد الرحمان ، جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مولانا قاضی عبد الکریم، کلاچی۔ مولانا قاضی عبد اللطیف سینیٹر۔ مولانا فیض محمد، مہتمم قاسم العلوم ملتان۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ، سابق مہتمم خیر المدارس۔ مولانا قاری سعید الرحمان، راولپنڈی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مدیر بینات کراچی۔ مولانا محمد ضیاء القاسمی، فیصل آباد۔ شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد، فیصل آباد۔ مولانا گلزار احمد مظاہری۔ مولانا سید ابوذر بخاری۔ مولانا محمد زکریا ایم ایس اے، کراچی۔ مولانا مفتی عبد الستار، ملتان۔ مولانا فاضل حبیب اللہ رشیدی۔ حافظ عبد الرشید ارشد، لاہور۔ مولانا عبد الوحید مکی۔ مولانا مجاہد الحسینی۔ مولانا محمد سلیمان طارق وغیرھم۔

حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کی ذاتی زندگی انتہائی سادگی اور کفایت شعاری سے عبارت تھی۔ جبکہ معاملات میں اس قدر سخت اور بے لچک تھے کہ آپ کے رفقاء کو بسا اوقات وہی بات کہنا پڑتی جو حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرف سے انہیں پرانے کپڑوں میں کفن دینے کی وصیت پر حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے کہی تھی کہ آپؓ نے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مگر مولانا محمد عبد اللہ مرحوم ایسے موقع پر فرماتے تھے کہ میں عزیمت پر عمل کرتا ہوں، تمہارے لیے رخصت ہے تم رخصت پر عمل کرو۔ اب یہ کمال عزیمت ہی کی بات ہے کہ آج کے دور میں

  • وہ جامعہ رشیدیہ سے اپنی تنخواہِ قلیل وصول کرتے وقت مہینہ میں کی ہوئی چھٹیوں کا حساب کر کے اتنے دنوں کی تنخواہ وضع کروا لیتے تھے۔ ان کی ڈائری پر بسا اوقات یہ تفصیل بھی درج ہوتی کہ آج اتنے گھنٹے پڑھایا، اتنے گھنٹے آرام کیا اور اتنا وقت مہمانوں کے پاس رہا، اور مہینہ کے اختتام پر ان تفصیلات کی روشنی میں ان کی تنخواہ کا ہر ماہ حساب ہوتا تھا۔ درسگاہ میں بھی پڑھائی کے وقت کے علاوہ جو وقت گزارتے اس کا حساب کر کے اتنا بجلی کا بل مدرسہ میں جمع کروا دیتے۔
    وہ اتفاقیہ رخصت کے استحقاق کو اپنے لیے نہیں مانتے تھے۔
  • حضرت کے لیے جامعہ رشیدیہ میں ایک کمرہ الگ مخصوص کیا گیا تھا مگر وہ آخر وقت تک جامعہ کو اس کمرہ کا کرایہ ادا کرتے رہے۔
  • حضرت مدرسہ کے شیخ الحدیث ہونے کے باوجود مدرسہ کے لیٹرپیڈ اور قلم دوات کو فتویٰ نویسی کے علاوہ کسی کام کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔
  • وہ مدرسہ کی سالانہ تعطیلات کی تنخواہ بھی وصول نہیں کرتے تھے۔
  • جامعہ کے سالانہ جلسہ اور دیگر تقریبات میں انہیں مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا پڑتا جس کا اہتمام مدرسہ کی طرف سے ہوتا تھا لیکن بعد میں وہ اس کی قیمت مدرسہ کے حساب میں جمع کرواتے تھے۔
  • دوسرے مدارس کے سالانہ اجتماعات اور امتحانات وغیرہ کے لیے جاتے تو ان سے سفر کے اخراجات سے زائد رقم وصول نہ کرتے تھے۔ اور جو رقم ان کی طرف سے خدمت میں پیش کی جاتی اس میں سے سفر کے اخراجات وضع کر کے باقی رقم واپس کر دیتے۔
  • مولانا محمد عبد اللہ رائے پوریؒ کی پہلی بیوی سے دو لڑکے مولانا عبید اللہ اور مولانا مطیع اللہ اور ایک لڑکی صاحب اولاد ہے۔ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دوسری بیوی کی وفات کے بعد فرمایا کہ میں اکیلا ہوں کھانا اپنے لڑکوں کے ہاں کھایا کروں گا، بیوی نہیں ہے اس لیے میرے اور کوئی اخراجات نہیں ہیں۔ یہ کہہ کر مدرسہ سے تنخواہ لینا بند کر دی اور پھر مسلسل آٹھ برس کا عرصہ آخر عمر تک کوئی تنخواہ نہیں لی۔

اس عزیمت و احتیاط کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کوئی بڑے جاگیردار تھے یا ان کا کوئی کارخانہ چلتا تھا بلکہ وہ بے سروسامان قسم کے سفید پوش بزرگ تھے۔ یہ تقویٰ اور دیانت کے اعلیٰ اصولوں اور عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ تھا جس پر وہ تمام عمر اس قدر سختی کے ساتھ قائم رہے کہ فی الواقع وہ اپنے بعد والوں کے لیے ’’مشکلات‘‘ پیدا کر گئے ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہؒ معاملات کے ساتھ ساتھ عبادات کے بارے میں بھی اپنے معمولات کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ حتیٰ کہ سفر کے دوران بھی نماز باجماعت کا اہتمام ہوتا۔ ان کا معمول یہ تھا کہ سفر تھوڑا تھوڑا کر کے کرتے۔ بس کے ذریعے جاتے تو اتنے فاصلہ کا ٹکٹ لیتے جہاں اگلی نماز کا وقت ہو جاتا، وہاں اتر کر نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر آگے سفر کرتے۔

دو سال قبل ان پر فالج کا حملہ ہوا لیکن علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ علم حدیث کے طلبہ اپنی سعادت سمجھ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ دوسرے طلبہ کے علاوہ تبلیغی جماعت کے مرکز رائے ونڈ کے مدرسہ سے بھی طلبہ کو علم حدیث کی تعلیم کے لیے اہتمام کے ساتھ ان کی خدمت میں بھیجا جاتا اس لیے وہ تعلیم و تدریس کے سلسلہ میں حتی الوسع کوشش کرتے اور علالت کے باوجود درس و تدریس کا معمول اکثر و بیشتر قائم رہتا۔ کچھ عرصہ قبل کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے زبان بند ہوگئی مگر اس سے قبل جو آخری گفتگو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کی اس میں غیبت سے بچنے، نماز کی پابندی کی تلقین، بچیوں کو دین کی تعلیم دلانے، اور پردہ کی پابندی کی تاکید فرماتے ہوئے دین کی مسلسل تبلیغ کرنے پر زور دیا۔

۲۶ رمضان المبارک کو غروب آفتاب کے وقت خود بخود آنکھیں کھولیں، اردگرد ماحول پر نظر ڈالی، زبان پر اللہ اللہ کا ذکر جاری ہوا، چہرہ خود بخود قبلہ رخ ڈھلک گیا۔ یوں غروب آفتاب کے ساتھ ہی علم و فضل کا یہ آفتاب بھی نصف صدی تک دنیا کے ایک حصہ کو اپنا علم و فضل اور تقویٰ و کردار کے ساتھ روشن کرتا ہوا موت کی وادیوں میں غروب ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نمازِ جنازہ حضرت کے بہنوئی مولانا ولی محمد فاضل دارالعلوم دیوبند نے پڑھائی جس میں شہر کے ہزاروں افراد کے علاوہ ملک بھر کے جید علمائے کرام، خطباء، راہنمایانِ ملک و ملت نے شرکت فرمائی۔

   
2016ء سے
Flag Counter