حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمات

   
تاریخ: 
۹ جنوری ۲۰۱۷ء

حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم سے گزشتہ روز کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی، محمود کالونی شاہدرہ لاہور میں ان کے قائم کردہ دینی مرکز جامعہ ملیہ کا سالانہ اجتماع تھا۔ مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مفتی محمد سفیان قصوری، حافظ محمد زبیر جمیل اور حافظ شفقت اللہ کے ہمراہ میں بھی اس میں شریک ہوا۔ حضرت علامہ صاحب کے ساتھ مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور یہ دیکھ کر اطمینان اور خوشی کی کیفیت محسوس ہوئی کہ علالت، ضعف اور کبرسنی کے باوجود علامہ صاحب علمی اور عملی دونوں حوالوں سے بحمد اللہ تعالیٰ مستعد و متحرک ہیں۔ یہ حضرت علامہ صاحب کا حسنِ ذوق ہے کہ وہ جامعہ ملیہ کے سالانہ اجتماع کو کسی نہ کسی بزرگ کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس سے آج کے علماء کرام کو اپنے بزرگوں میں سے کسی شخصیت کی خدمات اور جدوجہد سے تعارف کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سال یہ سالانہ اجتماع حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حوالہ سے تھا جس میں متعدد بزرگوں نے حضرت تھانویؒ کی زندگی اور جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کر کے ان کے ساتھ اپنی نسبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ حضرت علامہ صاحب مدظلہ کے حکم پر میں نے بھی کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کسی بھی شخصیت کی خدمات اور جدوجہد کا صحیح طور پر تعارف حاصل کرنے کے لیے ان حالات اور ماحول کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے جس ماحول میں اس بزرگ شخصیت نے جدوجہد کی ہے اور جن حالات میں انہیں کام کرنا پڑا ہے۔ حضرت تھانویؒ کو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی اور برطانوی استعمار کے مکمل تسلط کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس خطہ کے مسلمان اپنا سب کچھ کھو کر نئے سرے سے معاشرتی زندگی کا آغاز کر رہے تھے۔ صدیوں اس خطہ پر حکومت کرنے کے بعد مسلمانوں کا سیاسی نظام ختم ہو چکا تھا، عدالتی اور انتظامی سسٹم ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، عسکری قوت اور شان و شوکت سے وہ محروم ہو چکے تھے، اور ان کا علمی و تہذیبی ڈھانچہ بھی شکست و ریخت سے دوچار تھا۔ حضرت تھانویؒ کا میدانِ کار چونکہ علمی، فکری اور تہذیبی تھا اس لیے ان کی جدوجہد اور خدمات کو اسی دائرے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۱۸۵۷ء سے قبل اس خطہ کے مسلمانوں کے دینی اور معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد چار چیزوں پر تھی (۱) قرآن کریم (۲) حدیث و سنت (۳) فقہ حنفی اور (۴) سلوک و احسان۔ مسلمانوں کے معاملات انہی حوالوں سے طے پاتے تھے اور یہی اصول اس وقت کی اسلامی معاشرت کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر ۱۸۵۷ء کے بعد جب سب کچھ پامال ہوگیا تو مسلم معاشرت کی یہ چاروں بنیادیں بھی خطرات سے دوچار ہوئیں اور نئے معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل میں ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی مہم شروع ہوگئی۔ قرآنِ کریم کا براہِ راست انکار تو ممکن نہیں تھا مگر اس حوالہ سے یہ تبدیلی ضرور سامنے آئی کہ قرآنِ کریم کی جو تعبیر و تشریح صحابہ کرامؓ کے دور سے اب تک اجماعی تعامل و توارث کی صورت میں چلی آرہی تھی اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر قرآنِ کریم کی نئی تعبیر و تشریح کا نعرہ لگا دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ اب قرآنِ کریم اور اس کے احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح ماضی کے مسلمہ اصولوں کی بجائے عقل، سائنس اور کامن سینس کے حوالہ سے ہوگی۔ اس کے ساتھ حدیث و سنت کی ضرورت سے ہی انکار کر دیا گیا، فقہ کو ماضی کے جمود کی علامت قرار دے کر راستے سے ہٹانے کی کوششیں شروع ہوگئیں، اور سلوک و احسان کو قرآن و سنت سے الگ بلکہ اس کے متوازی فلسفہ کے طور پر متعارف کرانے کی باتیں ہونے لگیں۔ جبکہ عمومی معاشرت میں مغربی طور طریقوں کی پیروی کو وقت کی ضرورت قرار دیا جانے لگا، حتٰی کہ ماضی کی علمی و تہذیبی بنیادوں کی نفی یا کم از کم انہیں سابقہ عرف و تعامل کی پٹڑی سے اتار دینے کی اس تگ و دو کے بعد نبوت کا منصب بھی مجوزہ تبدیلیوں کی زد میں آگیا اور نئی نبوت کی ضرورت کا کھڑاگ رچانا ضروری سمجھا گیا۔

اس ماحول میں سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ مسلمانوں کے معاشرتی ماحول کو ماضی کی ان اقدار بلکہ بنیادوں سے کاٹ دینے کی اس مہم کا مقابلہ کیا جائے اور ماضی کے علمی، دینی، معاشرتی، فکری اور روحانی تسلسل کو ہر حالت میں باقی رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے علماء حق کا ایک پورا گروہ اور قافلہ میدان میں اترا جس نے صبر آزما جدوجہد کے ساتھ حال اور مستقبل کو ماضی سے کاٹ دینے کی اس مہم کو ناکام بنا دیا۔ ان میں حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ کی محنت او رتگ و دو ہمیں اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں نظر آتی ہے کہ انہوں نے:

  • احکام القرآن کو مستقل طور پر موضوعِ بحث بنایا اور اپنی نگرانی میں قرآنی احکام کو علمی و فقہی بنیاد پر ازسرِنو مرتب کرا کے امام ابوبکر جصاصؒ اور امام ابن العربیؒ کی یاد پھر سے تازہ کر دی۔
  • حدیث و سنت کی ضرورت و اہمیت کو دلائل کے ساتھ واضح کیا اور اپنے مایۂ ناز شاگرد حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ سے ’’اعلاء السنن‘‘ کے عنوان سے ضروریاتِ زمانہ کے مطابق احادیث نبویہؐ کا وقیع ذخیرہ ازسرِنو مرتب کرا کے علماء کی راہنمائی کی۔
  • اپنی معرکۃ الآراء تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں سلوک و احسان کے مسائل کو قرآنی آیات سے مستنبط کر کے یہ واضح کیا کہ سلوک و احسان کوئی باہر سے آنے والی چیز نہیں بلکہ اس کی علمی جڑیں قرآن کریم میں ہی پیوست ہیں۔
  • عمومی معاشرت کی اصلاح اور مسلمانوں کے خاندانی ماحول کو دینی احکام پر باقی رکھتے ہوئے اسے انگریز اور ہندو تہذیب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ’’بہشتی زیور‘‘ جیسی کتاب لکھی جو مسلمانوں کے گھریلو ماحول میں دین کے ساتھ وابستگی کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوئی اور خاص طور پر خواتین کو دینی احکام سے آگاہ کرنے کے لیے ایک معاشرتی تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔
  • مختلف عقائد کی غلط تعبیر و تشریح اور مروجہ رسوم و بدعات کو مستقل طو رپر موضوع بحث بنا کر سنتِ نبویؐ کی پیروی کا ذوق بیدار کیا۔
  • سلوک و احسان کے ماحول کو خانقاہی حوالہ سے نہ صرف قائم رکھا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی اصلاح کر کے خارجی اثرات سے اسے پاک کیا اور ہزاروں علماء کرام اور مسلمانوں کو اس کی عملی تربیت فراہم کی۔

حضرت تھانویؒ کی جدوجہد کے یہ چند زاویے ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعد کے معاشرتی ماحول کا تسلسل اس سے قبل کے ماضی کے ساتھ قائم رکھنے میں اکابر علماء حق بالخصوص حضرت تھانویؒ کی تگ و تاز کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی مسلسل محنت کی جائے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۱ جنوری ۲۰۱۷ء)
2016ء سے
Flag Counter