حاجی غلام دستگیر مرحوم

   
تاریخ : 
۲۰ جنوری ۲۰۰۶ء

ڈاکٹر حاجی غلام دستگیر مرحوم شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرؒ مدنی کے خلفاء میں سے تھے۔ انارکلی لاہور سے باہر مسلم مسجد کے نیچے ’’لاہور میڈیسن‘‘ کے نام سے ان کی دکان ہوا کرتی تھی جس میں ان کے ساتھی ان کے بھائی حاجی غلام سبحانی صاحب تھے جو کچھ عرصہ قبل حجازِ مقدس منتقل ہوگئے ہیں۔ لوئر مال روڈ پر ایم اے او کالج کے قریب حاجی غلام دستگیر مرحوم کی رہائش تھی جو ایک زمانے میں قومی سیاست کا مرکز رہی ہے۔ حاجی صاحب کا گھر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا مہمان خانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دونوں بزرگ جب بھی لاہور تشریف لاتے اسی گھر میں قیام کرتے۔ حضرت درخواستیؒ کی آمد ہوتی تو جمعیۃ کے کارکنوں اور حضرت کے عقیدتمندوں کا جمگٹھا رہتا اور حضرت مفتی صاحبؒ تشریف لاتے تو سیاسی قائدین، صحافیوں اور کارکنوں کی مسلسل آمد و رفت رہتی۔ حاجی صاحب ان سب کے میزبان ہوتے اور بڑی خوشی کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔

حضرت مولانا مفتی محمودؒ جن دنوں پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ اور اس سے قبل قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد تھے، یہ ڈیرہ ملک بھر کے سیاسی کارکنوں او رقومی پریس کی توجہات کا مرکز تھا۔ شب و روز ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا اور حاجی صاحب مرحوم کا دستر خوان سب کے لیے وسیع تھا۔ حاجی صاحب قومی اور جماعتی سیاست کے بہت سے رازوں کے امین اور بہت سے نازک مراحل کے عینی شاہد تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کے امور کو ریکارڈ میں محفوظ کرنے کا کوئی ذوق اور اہتمام نہیں ہے ورنہ اگر اس حوالے سے حاجی غلام دستگیر صاحب کی یادداشتوں کو مرتب کرنے کا کوئی سلسلہ بن جاتا تو تاریخ کو بہت سی کام کی چیزیں مل جاتیں۔

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد حضرت درخواستیؒ کا لاہور میں یہی ڈیرہ رہا اور جمعیۃ علمائے اسلام میں اختلاف کی جو صورت پیدا ہوئی اس بحران اور تفریق کے دوران بہت سے اجلاس حاجی صاحب کی قیام گاہ پر ہوئے۔ مصالحت کی بہت سی کوششیں اس مکان کی چار دیواری کے اندر وجود میں آئیں اور خود حاجی صاحب مرحوم کا اس سلسلہ میں اہم کردار رہا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرؒ مدنی کی خلافت سے فیض یاب ہونے کے بعد حاجی صاحب مرحوم نے اسی مکان میں اصلاح و ارشاد کا خانقاہی سلسلہ بھی قائم کیا۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے ساتھ ان کا تعلق حضرت درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے حوالے سے تھا اس لیے ان دونوں بزرگوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جماعتی معاملات سے حاجی صاحب کا کوئی عملی واسطہ نہ رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور متوسلین کو صبر جمیل کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter