وطنِ عزیز پاکستان کی خصوصیات اور انہیں درپیش خطرات

   
تاریخ اشاعت: 
جنوری ۲۰۱۷ء

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز بوسنیا کے دورہ کے موقع پر سرائیوو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کئی سالوں سے یکطرفہ عالمی دباؤ کی زد میں ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ ارشاد بجا ہے اور اس بات سے دباؤ کی شدت اور سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں یہ بات غیر ملکی دورے کے موقع پر کہنا پڑی ہے۔پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی عالمی دباؤ کا شکار چلا آرہا ہے مگر ہمارے مقتدر طبقات کو اس کا صحیح طور پر احساس نہیں ہو ا یا وہ اسے معمول کی بات سمجھتے رہے ہیں لیکن جوں جوں معاملات آگے بڑھ رہے ہیں اس دباؤ کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس عالمی دباؤ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر اس کی نوعیت اور سطح کو واضح کیا جائے اور اس دباؤ کا سامنا کرنے کیلئے قوم کو تیار کیا جائے۔

پاکستان جب ۱۹۴۷ء کے دوران دنیا کے نقشے پر ایک نئی ریاست کے طور پر نمودار ہوا تو دنیا میں عام طور پر یہ سمجھا گیا کہ جنوبی ایشیا کے اس خطہ کے مسلمانوں نے جذباتیت کا اظہار کر کے اسلام کے نام پر ایک الگ ملک کے قیام کا مقصد تو حاصل کر لیا ہے مگر اسے ایک مستحکم نظریاتی ریاست بنانے کے مراحل شاید وہ نہیں طے کر پائیں گے اور بھارت کے اردگرد موجود دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح یہ ملک بھی اسی طرز کی ایک ریاست کی صورت اختیار کر جائے گا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد اس نئے ملک کے عوام کی غالب اکثریت نے جس انداز میں اپنی ’’جذباتیت‘‘ کا تسلسل قائم رکھا ہے اس سے ان لوگوں کی توقعات مجروح ہوئی ہیں۔ اس لیے انہیں پاکستان کو اس سمت آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کرنا پڑی ہے اور اسے دباؤ میں رکھنے کے نت نئے حربے اختیار کرنا پڑے ہیں۔

  1. عالمی منصوبہ بندوں کی یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی قرار داد مقاصد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی بات کرے گی اور قرآن و سنت کو ملک کے دستور و قانون کی بنیاد قرار دینے کا حوصلہ کرے گی۔
  2. یہ توقع بھی ان حضرات کو نہیں تھی کہ پاکستان کے بنتے ہی عالمی استعمار کے اس خطہ کے لیے تیار کردہ گروہ کو ۱۹۵۳ء میں شدید عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑے گااور پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں ڈالنے والے وزیر خارجہ کے لیے اپنے مشن کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
  3. عالمی استعماری حلقوں کے لیے یہ بات بھی قطعی طور پر خلاف توقع تھی کہ ۱۹۷۳ء میں تشکیل پانے والے ملکی دستور کی بنیاد قرار داد مقاصد اور دیگر دوٹوک اسلامی نکات پر ہو گی۔ اور وہ بھی مسٹر ذو الفقار علی بھٹو مرحوم کے ہاتھوں ہو گی جن کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ان کا ایجنڈا ہی قوم کو سوشلزم کے نام پر دین سے دور لے جانا ہے۔
  4. اور پھر بھٹو مرحوم کے ذریعہ ہی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ بھی ملک کے دستور و قانون کا حصہ بن جائے گا۔
  5. ان عالمی لابیوں کے خیال میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی کوشش بھی محض ایک خام خیالی تھی مگر ان کی توقعات کے برعکس پاکستانی قوم نے یہ مرحلہ بھی طے کر لیا۔

آج ان تمام حوالوں سے پاکستان کو ’’ریورس گیئر‘‘ کی کیفیت میں لے جانے کی تگ و دو جاری ہے اور اس کے گرد سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں جسے میاں نوازشریف نے ’’عالمی دباؤ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ بلا شبہ میاں محمد نواز شریف کے ذہن میں اس عالمی دباؤ کا بڑا حوالہ ایٹمی پروگرام اور سی پیک کے دو پروگرام ہیں جو ان کے دور میں ہوئے ہیں اور جنہیں ختم کرنے یا کمزور کرنے کے لیے سازشوں کے تانے بانے انہیں اپنے اردگرد دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر پاکستان کا اسلامی تشخص اور نظریاتی بنیادیں بھی اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ اس دباؤ کی زد میں ہیں جس کی تازہ ترین مثال ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وہ حالیہ رپورٹ ہے جو ابھی چند روز قبل سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں دستور پاکستان کی ان تمام دفعات کے خاتمہ یا کم از کم ان میں ایمنسٹی کے نقطۂ نظر کے مطابق رد و بدل کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے جن کا تعلق پاکستان کے اسلامی تشخص سے ہے، مسلم قوم کی تہذیبی اقدار سے ہے، اسلام کے خاندانی اور عدالتی نظام سے ہے اور قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و ابستگی سے ہے۔

عالمی دباؤ کے پیچھے متحرک قوتوں کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح اپنے دستوری و قانونی نظام کو اسلامی تعلیمات و ہدایات سے لاتعلق کر لے، اسلام کے خاندانی نظام وروایات سے دست بردار ہو جائے، حلال و حرام کے دینی دائروں کی پروا کرنا چھوڑ د ے اور مذہبی عقائد و اخلاقیات کو خیر باد کہہ دے۔ ہمارے مقتدر طبقات اور رولنگ کلاس کے بس میں ہوتا تو یہ کام خدانخواستہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا، مگر پاکستان کے عوام اس کے لیے تیار نہیں ہیں جس کا اظہار عام انتخابات کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی سروے رپورٹوں کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔ جیساکہ ابھی گزشتہ سال ایک بین الاقوامی ادارے کی سروے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام کی ۹۸ فی صد اکثریت ملک میں اسلامی احکام و قوانین کا عملی نفاذ چاہتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے دینی حلقے بھی یکسر بے خبر اور بے حس نہیں ہے اور ضرورت کے وقت نہ صرف متحد ہو جاتے ہیں بلکہ اپنے مشترکہ اہداف کے لیے متحرک بھی ہو جاتے ہیں۔

ہم اس موقع پر محترم وزیر اعظم سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ فی الواقع اس عالمی دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں تو اس کا سرسری ذکر کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مؤثر اور مربوط اقدامات کی بھی فوری ضرورت ہے ۔ہمارے خیال میں اس وقت جن مسائل میں عالمی دباؤ کا سامنا ہے ان کی ایک سرسری سی فہرست یہ ہے۔

  • پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کو ختم کر کے اسے دستوری طور پر سیکولر ریاست کی حیثیت دی جائے۔
  • مختلف قوی شعبوں میں جو چند شرعی قوانین برائے نام موجود ہیں انہیں ترمیم و تبدیلی کے ذریعہ غیر مؤثر کر دیا جائے۔
  • مسلمانوں کا خاندانی نظام جو قرآن و سنت کے احکام و قوانین اور مذہبی روایات پر قائم ہے، اسے بتدریج شرعی احکام و قوانین کی پابندی سے آزاد کرا کے مغربی فلسفہ و ثقافت کو نکاح و طلا ق اور دیگر خاندانی ضابطوں کی بنیاد بنا دیا جائے۔
  • پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے سی پیک منصوبہ جس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے اسے جس حد تک ہو سکے کمزور کر دیا جائے۔
  • پاکستان کی فوج دنیا کی مانی ہوئی فوج سمجھی جاتی ہے ، اس کے سائز اور صلاحیت دونوں کو مجروح کیا جائے۔
  • توہین رسالتؐ کی سزا کا قانون ختم کر دیا جائے۔
  • قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا دستوری و قانونی فیصلہ واپس کرایا جائے۔
  • رقص و سرود اور نام نہاد فنون لطیفہ کی آڑ میں اسلامی تہذیب وثقافت کے اثرات کو کم کیا جائے۔
  • عریانی، فحاشی اور مخلوط اجتماعات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔
  • میڈیا ، این جی اوز اور لابیوں کے ذریعہ فکری، اعتقادی اور تہذیبی خلفشار کو مسلسل بڑھایا جائے۔
  • دینی مدارس اور اداروں اور دینی روایات و اقدار کی تضحیک و استہزاء اور حوصلہ شکنی کا کلچر عام کیا جائے۔
  • دینی حلقوں کو مختلف حوالوں سے مسلسل دباؤ میں رکھا جائے اور انہیں کسی سطح پر آزادی کے ساتھ کام نہ کرنے دیا جائے۔
  • پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو جس طرح بھی ممکن ہو ختم یا کمزور کیا جائے، وغیر ذلک۔

یہ صرف چند پہلو ہیں جو ہم نے عرض کیے ہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدہ اربابِ فکر و دانش مشترکہ سوچ بچار کے ذریعہ پاکستان کو درپیش عالمی دباؤ کی نوعیت، دائرہ، سطح اور طریق کار کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ مرتب کریں اور اس کی روشنی میں قوم کو اس کے مقابلہ کے لیے تیار کیا جائے اور اگر بالفرض ریاستی ادارے اس کے لیے آمادہ نہ ہوں تو پرائیویٹ سطح پر سنجیدہ علمی ادارے اس کام کے لیے آگے بڑھیں اورقوم کی صحیح سمت راہ نمائی کا اہتمام کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter