’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کا کھیل

   
تاریخ اشاعت: 
۱۶ اپریل ۲۰۱۷ء

ہمارے بہت سے دانشور کچھ عرصہ سے باقی سارے کام چھوڑ کر ’’بیانیہ بیانیہ‘‘ کھیلنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا کے مختلف شعبوں میں بیانیہ، جوابی بیانیہ، قومی بیانیہ، ریاستی بیانیہ، دینی بیانیہ، متبادل بیانیہ جیسے متنوع عنوانات کے ساتھ بحث و مباحثہ کی گرم بازاری ہے اور ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ہم اس ’’فری اسٹائل کبڈی میچ‘‘ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اس ’’بیانیہ‘‘ کی غرض کیا ہے، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ اب تک جتنی بات ہم سمجھ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے، قتل و قتال اور خروج و بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جس کے لیے زیادہ تر مذہب کا نام استعمال ہو رہا ہے اور مذہبی تعلیمات کو اس دہشت گردی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کا حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ مذہب کے ساتھ تعلق پر نظر ثانی کی جائے اور اس کی حدود ازسرِنو طے کی جائیں تاکہ مذہب اور اس کی تعلیمات کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع اور امکانات کو ختم کیا جا سکے۔

اس بیماری کا یہ علاج کہاں تک درست اور کارآمد ہو سکتا ہے اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے، پہلے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ بیماری امت مسلمہ اس سے پہلے بھی وسیع پیمانے پر بھگت چکی ہے اورا س کا علاج بھی ہوا تھا جو کامیاب رہا تھا اور امت مسلمہ نے اس ناسور سے نجات حاصل کر لی تھی۔ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بغاوت و خروج کرنے والے خوارج نے ’’دہشت گردی‘‘ کا جو سلسلہ کم و بیش ایک صدی تک جاری رکھا تھا، ہزاروں مسلمانوں کو جن میں صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی ایک بڑی تعداد شامل ہے تہہ تیغ کر دیا تھا، بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور مسلم حکومت و ریاست کو ایک عرصہ تک پریشان کیے رکھا تھا۔ اس دہشت گردی کے عناصر اربعہ وہی تھے جو آج کی دہشت گردی کے ہیں۔ مثلاً (۱) اپنے مخالفین کی عمومی تکفیر (۲) ہر طرف قتل و قتال کی گرم بازاری (۳) مسلمہ مسلم حکومتوں کے خلاف خروج و بغاوت اور (۴) اس سب کچھ کے لیے قرآن مقدس کی بعض آیات سے سطحی استدلالات۔

یہ خوارج قرآن کریم اس خوبصورتی سے پڑھتے تھے کہ ان کا نام ہی ’’قاریوں کا گروہ‘‘ پڑ گیا تھا۔ نماز و روزہ اور شب زندہ داری ان کی علامت بن گئی تھی جبکہ قرآن کریم کی بعض آیات سے استدلال کر کے وہ مسلمانوں کی گردنیں اڑا دیا کرتے تھے۔ گویا وہ عسکری دہشت گردی کے ساتھ ساتھ فکری و علمی دہشت گردی کے بھی علمبردار تھے۔ اس وقت کے اکابر امت نے اس فتنہ کا مقابلہ دو محاذوں پر کیا تھا۔ ایک محاذ بحث و مکالمہ کا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ، امام اعظم امام ابوحنیفہؒ اور دیگر اساطین امت نے ان سے براہ راست مذاکرات کیے تھے، مناظرہ و مباحثہ کے مراحل سے گزرے تھے اور دلیل و منطق کے ساتھ بہت سے لوگوں کو اس غلط موقف اور طرز عمل پر نظر ثانی اور رجوع کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ جبکہ دوسرا محاذ عسکری تھا، میدان جنگ میں انہیں شکست دی گئی تھی، ان کی قوت کا زور توڑا گیا تھا اور ان کے مقبوضہ علاقوں کو ان سے خالی کرایا گیا تھا۔ امام نسائیؒ نے اس سلسلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے ایک مباحثہ و مکالمہ کا ذکر کیا ہے کہ حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ تھی مگر جب حضرت علیؓ کی اجازت سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ باغیوں کے لشکر کے پاس گئے اور ان کے اشکالات و اعتراضات توجہ کے ساتھ سن کر ان کے تسلی بخش جوابات دیے تو ان میں سے دو ہزار افراد واپس آگئے اور اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے ان خوارج کے ساتھ مباحثے تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں جنہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اور ان عسکری معرکوں کو بھی منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے ان دہشت گردوں کو میدان جنگ میں شکست دے کر امت کو قتل و قتال کے وسیع ماحول سے نکالا گیا تھا۔

ان دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے قرآن کریم کی آیات پیش کی تھیں اور دینی تعلیمات کا حوالہ دیا تھا مگر اس کے جواب میں امت کے اہل علم نے قرآن کریم کے ساتھ تعلق پر نظر ثانی اور اس کی کسی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ علماء امت نے کوئی ’’نیا بیانیہ‘‘ پیش کرنے کی بجائے قرآن کریم کی سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر تفہیم اور صحابہ کرامؓ کے اجماعی تعامل کو بنیاد بنا کر خوارج کے ’’نئے بیانیہ‘‘ کو شکست دی تھی۔ لیکن آج جب امت کو وہی بیماری دوبارہ لاحق ہوئی ہے تو اکابر صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے اس طرز عمل کو اپنانے کی بجائے دین کے ساتھ تعلق کو ہی موضوع بحث بنا لیا گیا ہے۔ اور یہ مباحث کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ معاشرہ میں اسلام کا کردار کیا ہے؟ ریاست اور مذہب کا کوئی باہمی تعلق ہوتا ہے یانہیں؟ اور صحابہ کرامؓ کے دور سے اب تک قرآن و سنت کی سامنے آنے والی اجماعی تعبیرات و تشریحات اب بھی قابل عمل ہیں یا ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے کسی مارٹن لوتھر کی ضرورت پیش آگئی ہے؟

مگر ان باتوں سے قطع نظر اس معاملہ کو اس حوالہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں اور بعض مذہبی تعلیمات کو اپنے انداز میں غلط طور پر پیش کر رہے ہیں، مذہب کے ساتھ معاشرہ اور ریاست کے تعلق پر نظر ثانی اور سوسائٹی میں مذہب کے کردار کی حدود ازسرنو طے کرنے کا مشورہ دیا جانے لگا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کے بدن میں ناسور پیدا ہونے پر اس کی جراحی کی ضرورت پیش آجائے تو کوئی دانشور یہ مشورہ دے کہ چونکہ اس ناسور کی وجہ وہ خوراک بنی ہے جو حلق کے راستے اس کے وجود کا حصہ بنی تھی اس لیے اس کی گردن ہی کاٹ دی جائے تاکہ بیماری کے اس سبب کا سرے سے خاتمہ ہو جائے۔ اس پر ایک کہاوت یاد آگئی ہے کہ کسی گاؤں میں ایک بکری پانی پیتے ہوئے مٹکے میں اپنا سر پھنسا بیٹھی، لوگ اکٹھے ہوئے مگر انہیں مٹکے سے بکری کی پھنسی ہوئی گردن کو نکالنے کی کوئی صورت سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اتنے میں ایک دانشور آیا اور اس نے لوگوں کو پریشان دیکھ کر مشورہ دیا کہ اس کا آسان حل یہ ہے کہ بکری کو ذبح کر دیا جائے۔ چنانچہ بکری ذبح کر دی گئی لیکن سر پھر بھی اس کے اندر ہی رہا۔ پھر اس سمجھدار آدمی نے کہا کہ اب مٹکے کو توڑ دو۔ جب مٹکے کو توڑ کر بکری کا سر آزاد کرایا گیا تو اس نے لوگوں سے کہا تم کتنے خوش قسمت ہو کہ میرے جیسا سیانا تمہارے پاس موجود ہے ورنہ تم اس بکری کی گردن کو مٹکے سے کبھی نہیں نکال سکتے تھے۔

   
2016ء سے
Flag Counter