بین الاقوامی علماء کانفرنس قاھرہ ۱۹۶۵ء سے مولانا مفتی محمودؒ کا خطاب

   
تاریخ اشاعت: 
۲۹ اپریل ۲۰۱۷ء

گزشتہ روز ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کی پرانی فائیلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر قائد جمعیۃ علماء اسلام مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا ایک اہم خطاب نظر سے گزرا جو انہوں نے مئی ۱۹۶۵ء کے دوران قاہرہ میں ’’مجمع البحوث الاسلامیہ‘‘ کی سالانہ کانفرنس میں ارشا د فرمایا تھا۔ حکومت مصر کے زیراہتمام منعقد ہونے والی علماء اسلام کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے اس فکر انگیز خطاب کا ترجمہ قارئین کے مطالعہ کے لیے ہفت روزہ ترجمان اسلام سے نقل کیا جا رہا ہے۔

محترم صاحب صدر اور معزز علماء کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد والہ واصحابہ ومن تبعھم اجمعین۔ اما بعد۔ میرا رادہ ہے کہ آپ حضرات کی خدمت میں اس بابرکت وقت کے اندر ایک مختصر سا مقالہ پیش کروں۔

معزز حضرات! میں سب سے قبل جامعہ ازہر کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں اس بلند مقام میں مل کر بیٹھنا میسر کیا اور علماء اسلام کو اسلام کے دفاع اور دینی مشکلات کے حل کرنے کے لیے جمع کیا۔ جامعہ ازہر ہی اس عظیم منقبت کے لائق ہے کیونکہ یہ وہ قدیم علمی مدرسہ ہے جس نے تمام ممالک میں خواہ وہ نزدیک ہوں یا دور، اسلامی علوم و معارف کی نشر و اشاعت کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تک اسے محفوظ و مضبوط رکھے اور سپاہ اسلام اور اسلامی عساکر کے لیے مضبوط قلعہ کی حیثیت سے قائم رکھے۔

دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے قطعی مسائل میں الحاد و تحریف کا فتنہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ تقریباً تمام عالم اسلام میں پھیل گیا ہے۔ اور میں بڑے افسوس سے کہتا ہوں کہ بعض حکومتیں اپنے خصوصی اغراض کی خاطر اس فتنہ کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ اس فتنہ کے حاملین یہ کہا کرتے ہیں کہ بینکوں کا سود جائز اور حلال ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کیا۔ یہی لوگ شراب کی بعض قسموں کو حلال کہتے ہیں، زکوٰۃ کو عبادت نہیں جانتے بلکہ اس کو ایک مالی ٹیکس کی سی حیثیت دیتے ہیں۔ زکوٰۃ کی مخصوص شرح کو جو شریعت میں منصوص ہے ضروری نہیں جانتے بلکہ ضروریات کے تحت اس کی شرح میں کمی بیشی کے قائل ہیں۔ نیز یہی لوگ حکومت وقت کو کلی اختیار دیتے ہیں کہ زکوٰۃ کی شرح اور اس کے شرائط و حدود اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرے اور اس میں کمی بیشی کرے۔ لہٰذا میں ممبران مجمع البحوث الاسلامیہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ان مسائل کی صحیح تشریح فرمائیں گے اور تمام مسلمانوں کو ان واضح گمراہیوں سے نجات دلائیں گے۔

تیسری بات یہ کہ مغربی استعماریوں نے افریقہ اور ایشیا میں بڑا اندوہناک فساد پھیلا رکھا ہے۔ اور مسلمان قوم اگرچہ درحقیقت ساری کی ساری ایک ملت ہے لیکن ان ظالم استعماریوں نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور ان کو آپس میں دشمن بنا دیا ہے العیاذ باللہ۔ مجھے امید ہے کہ آپ حضرات اس کانفرنس میں مغربی استعمار کے خلاف قراردادیں پیش فرمائیں گے۔ اور ان استعماریوں کو مسلمان ملکوں میں دخل دینے سے شدت سے روکیں گے۔

آخر میں یہ عرض کیے دیتا ہوں کہ پاکستان میں اگرچہ مسلمانوں کی تعداد نو کروڑ ہے لیکن ان کے باوجود ان کو ایک بڑا مشکل اور اہم مسئلہ درپیش ہے جس نے ان کو حیران و سرگرداں کر دیا ہے۔ اور وہ ہے مسئلہ کشمیر جس کو امریکہ اور برطانیہ کے استعمار نے ہمارے اور ہندوستان کے درمیان کھڑا کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر مسئلہ فلسطین کے ساتھ بہت مشابہ ہے۔ چالیس لاکھ مسلمان آج بھی کشمیر میں مصائب و آلام سے دوچار ہیں۔ روزانہ کوئی نہ کوئی آفت ان کے سر پر آپڑتی ہے اور وہاں کے مسلمانوں کے عمائدین سب کے سب جیلوں میں ہیں۔

جیسا کہ فلسطین کا مسئلہ تمام مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں کے تعاون کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، بعینہ اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی عالم اسلام کے تعاون کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔ حکومت پاکستان نے آج تک اسرائیل کی حکومت تسلیم نہیں کی اور نہ آئندہ کسی وقت بھی اس کو تسلیم کر سکتی ہے کیونکہ حکومت پاکستان کی نظر میں اسرائیلی باشندے تمام عرب اور اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں۔ لہٰذا ہم اسلامی ممالک بالخصوص حکومت جمہوریہ عربیہ متحدہ (مصر) سے مسلمانان کشمیر کو ظالم ہندؤوں کے پنجۂ اسبتداد سے آزاد کرانے میں تعاون کی امید رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مشرک ہندؤوں کو ذلیل و خوار کر دے، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter