نفاذ شریعت کی جدوجہد اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریاں

   
تاریخ: 
۲ دسمبر ۱۹۹۰ءِِ

(مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی ۱۹۹۰ء میں شمالی امریکہ کے دورہ کے موقع پر شکاگو بھی گئے جہاں انہوں نے ۲ دسمبر کو مسلم کمیونٹی سنٹر کے ہفتہ وار اجتماع سے ’’شریعت بل اور پاکستان‘‘ کے موضوع پر مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم بزرگو، دوستو اور قابل صد احترام بہنو! ابھی تھوڑی دیر قبل شکاگو پہنچا ہوں اور مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ حضرات کے سامنے پاکستان میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی جدوجہد کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں۔ اس عزت افزائی پر مسلم کمیونٹی سنٹر کے ذمہ دار حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ سب احباب سے اس دعا کا خواستگار ہوں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق دیں اور حق کی جو بات بھی علم اور سمجھ میں آئے، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔

حضرات محترم! پاکستان کا قیام اس مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا اور قیام پاکستان کی بنیاد اس امر کو ٹھہرایا گیا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنے مذہب، اقدار و روایات اور نظریات و عقائد پر عمل درآمد کے لیے مسلمانوں کو الگ خطۂ زمین کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ یہ ملک قائم کیا گیا تھا۔ لیکن قیامِ پاکستان کو تینتالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہم اپنے ملک کے نظام اور اجتماعی ڈھانچے کو اسلامی عقائد و احکام کے سانچے میں ڈھالنے کی منزل حاصل نہیں کر سکے۔ اور شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کا جو خواب پاکستان کے قیام سے پہلے اس خطہ کے مسلم عوام نے دیکھا تھا وہ ابھی تک تشنۂ تعبیر ہے۔

اس سے پہلے کہ میں ان رکاوٹوں کا ذکر کروں جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بالادستی کی راہ میں حائل ہیں، نفاذِ شریعت کے حوالہ سے اس تدریجی پیش رفت سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کی رفتار اگرچہ بہت سست ہے لیکن بہرحال ایک پیش رفت موجود ہے اور اس سلسلہ میں عملی کام ہوا ہے جسے آگے بڑھانے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔

نفاذِ اسلام میں پیش رفت

اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور بنیادی کام ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی منظوری ہے جو ۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی کے رکن حضرت علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد کے نتیجہ میں متفقہ طور پر پاس ہوئی۔ اس قرارداد میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے دائرہ میں رہتے ہوئے ملک کا نظام چلائیں گے۔ یہ ایک اصولی فیصلہ تھا جس سے ملک کی نظریاتی بنیاد متعین ہوگئی اور اس امر کا فیصلہ ہوگیا کہ پاکستان سیکولر ریاست نہیں بلکہ نظریاتی اسلامی مملکت ہے۔ قراردادِ مقاصد اب تک نافذ ہونے والے ہر دستور میں شامل رہی ہے اور موجودہ آئین میں بھی، جو ۱۹۷۳ء کا دستور کہلاتا ہے، شامل ہے۔ لیکن اس قرارداد کی روشنی میں جو عملی اقدامات ہونا چاہیے تھے ان کی رفتار سست رہی بلکہ ایک لحاظ سے نہ ہونے کے برابر تھی۔

دوسرا مرحلہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تشکیل کا تھا۔ اس وقت دستور ساز اسمبلی میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی، پروفیسر غفور احمد اور ان کے رفقاء کی جدوجہد سے ایک اور اہم دستوری فیصلہ ہوگیا کہ اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا اور ملک میں نافذ قوانین کو اسلامی احکام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کے ساتھ اس کام کے لیے وقت کی ایک حد طے کر دی گئی۔

تیسرے مرحلے میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دورِ اقتدار میں ہونے والے وہ اقدامات شامل ہیں جن کے تحت بعض شرعی قوانین کے نفاذ کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت ممتاز علماء کرام اور جسٹس صاحبان پر مشتمل ہے اور اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر حکومت کو قانون کی تبدیلی کا نوٹس دے سکتی ہے۔ اگرچہ دستوری دفعات، عدالتی نظام، مالیاتی قوانین اور عائلی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود بہت سے امور شرعی عدالت کی دسترس میں تھے اور اس نے اس ضمن میں متعدد اہم فیصلے بھی کیے ہیں۔

چوتھا مرحلہ ’’شریعت بل‘‘ کے نفاذ کی جدوجہد کا ہے۔ شریعت بل سینٹ آف پاکستان کے دو ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے ۱۹۸۵ء میں پیش کیا تھا جس کے لیے گزشتہ پانچ سال سے جدوجہد اور بحث و تمحیص ہر سطح پر ہو رہی ہے۔ مختلف ایوانوں کے علاوہ قومی اخبارات اور عوامی حلقوں میں بھی اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سینٹ نے شریعت بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا لیکن قومی اسمبلی ٹوٹ جانے کے باعث یہ بل اس میں پیش نہ ہو سکا اور اب پھر سینٹ میں دوبارہ منظوری کے لیے زیر بحث ہے۔

حضراتِ گرامی! اس وقت شریعت بل کی تمام دفعات کی وضاحت کرنے کی تو گنجائش نہیں ہے کیونکہ وقت بہت مختصر ہے مگر بعض اہم دفعات کا تذکرہ ضروری ہے تاکہ آپ حضرات یہ سمجھ سکیں کہ اس بل کا بنیادی مقصد کیا ہے:

  • شریعت بل کی سب سے اہم اور بنیادی دفعہ وہ ہے جس میں شریعتِ اسلامیہ کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں مختلف قسم کے قوانین رائج ہیں، ان میں برطانوی دورِ غلامی کے قوانین بھی ہیں جو حصولِ آزادی کے باوجود بدستور چلے آرہے ہیں، اور بعض شرعی قوانین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ رواجات بھی بعض دائروں میں قوانین کے طور پر مؤثر ہیں مگر ان سب پر بالادستی موجودہ قانونی نظام کو حاصل ہے جو برطانوی استعمار کی یادگار ہے۔ شریعت بل میں شریعت کو ملک کا سپریم لاء قرار دے کر اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ تمام غیر شرعی قوانین کو غیر مؤثر بنایا جائے۔
  • بل کی ایک دفعہ میں شریعت کی قانونی تعریف متعین کی گئی ہے۔ کیونکہ مختلف حلقے شریعت کے بار ےمیں ابہام پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں، اس لیے شریعت بل میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ شریعت سے مراد اسلام کے وہ احکام ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔
  • ایک اور اہم دفعہ میں ملک کی تمام عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقدمات کا فیصلہ شریعت کے مطابق کریں۔ اس سے ملک کے عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی اور اس دفعہ کے نفاذ کی صورت میں لوگوں کے مقدمات کے فیصلے انگریزی قانون کے بجائے شرعی قوانین کے تحت ہونے لگیں گے۔
  • ایک دفعہ کے تحت قانون کے نفاذ اور عدالتی احتساب کے دائرہ میں صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ سمیت ان تمام شخصیات کو شامل کیا گیا ہے جو اس وقت مروجہ قانون کے تحت عدالتی احتساب سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے معاشی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ایک نظام کار وضع کیا گیا ہے اور تعلیمی نظام کو اسلامی تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے طریق کار طے کیا گیا ہے۔

برادرانِ محترم! اس مختصر تعارف سے آپ کے ذہن میں یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ شریعت بل کے نفاذ سے اصل مقصد کیا ہے۔ یہ دراصل نظام کی تبدیلی کی جدوجہد ہے اور خاص طور پر ملک کے عدالتی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی جنگ ہے جس میں اس وقت ہم مصروف ہیں اور آپ حضرات سے کامیابی کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ تعاون اور حوصلہ افزائی کے بھی طلبگار ہیں۔

نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں

اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں جو آپ کے ذہنوں میں ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ آخر اسلام کے نام پر بننے والے ملک اور مسلم اکثریت کے معاشرہ میں اس وقت شریعت بل پر آخر پانچ سال سے صرف بحث و تمحیص کیوں ہو رہی ہے اور یہ نافذ کیوں نہیں ہو جاتا؟ پھر یہ سوال بھی آپ حضرات کے ذہنوں کو پریشان کر رہا ہوگا کہ نفاذِ اسلام کے جن تدریجی اقدامات کا میں نے ذکر کیا ہے ان سب کے باوجود حالات میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی اور عملاً اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ اور کارفرمائی کیوں دکھائی نہیں دے رہی؟

ان سوالات کے جواب میں مناسب تو یہ تھا کہ ان رکاوٹوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر اور تجزیہ کیا جاتا جو نفاذِ شریعت کی راہ میں حائل ہیں۔ لیکن وقت مختصر ہے اس لیے میں اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا حوالہ دینے پر اکتفا کروں گا جو تمام رکاوٹوں کا سرچشمہ ہے اور جس رکاوٹ کو راستہ سے ہٹانے کے لیے ہم گزشتہ تینتالیس سال سے اس کے ساتھ سر پھوڑ رہے ہیں۔ وہ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اجتماعی قیادت کی باگ ڈور جن عناصر کے ہاتھ میں ہے وہ نہ صرف مغربی تعلیم گاہوں کے تربیت یافتہ اور مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب ہیں بلکہ اپنے معاشرہ میں مغربی نظریات و اقدار کی فکری اور تہذیبی نمائندگی کو مقصد زندگی سمجھے ہوئے ہیں۔ ویسٹرن میڈیا اسلام کے بارے میں جو شوشہ چھوڑتا ہے وہ ان کا منشور بن جاتا ہے۔ مغرب والے اگر نفاذِ اسلام کی جدوجہد پر بنیاد پرستی کی پھبتی کستے ہیں تو ہمارے یہ بھائی بھی بنیاد پرستوں سے لاتعلقی کے اظہار کو ضروری سمجھ لیتے ہیں۔ اور مغرب میں اگر اسلامی قوانین کو فرسودہ، وحشیانہ اور ظالمانہ کہا جاتا ہے تو ان لوگوں کی زبانیں بھی انہی الفاظ کا ورد کرنے لگتی ہیں۔

میرے محترم دوستو! آپ حضرات تو خود مغرب میں رہتے ہیں، یہاں کی قیادت اور میڈیا کا مزاج آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ آپ کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے، عالم اسلام کے خلاف یہاں سے جو سازشیں ہوتی ہیں آپ ان سے بے خبر نہیں ہیں اور آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکات کو جن عناصر سے مقابلہ درپیش ہے ان کی پشت پر مغرب خود کھڑا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں، جن دوسرے مسلم ممالک میں اسلام کی بالادستی اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد ہو رہی ہے، مصر میں، مراکش میں، انڈونیشیا میں، ملائیشیا میں، الجزائر میں، تیونس میں اور دیگر مسلم ممالک میں دینی بیداری کی تحریکات کام کر رہی ہیں اور نفاذ اسلام کی جدوجہد ہو رہی ہے، ان سب کا مقابلہ ایک ہی قسم کے طبقے سے ہے جو مغرب سے مرعوب ہے اور مغرب پوری طرح اس طبقہ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ آپ حضرات یقیناً اس امر سے باخبر ہوں گے کہ امریکہ میں ایک باقاعدہ انسٹیٹیوٹ کام کر رہا ہے جس کا مقصد عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کا کھوج لگانا، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور انہیں ناکام بنانے کے منصوبے تیار کرنا ہے۔ اس انسٹیوٹ کی سربراہی امریکہ کے سابق صدر نکسن کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے مسلم بنیاد پرستی کی تحریکات کے تعاقب کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔ ہمارا مقابلہ ان قوتوں کے ساتھ ہے، ہماری رفتار اگرچہ بہت سست ہے لیکن قدم بہرحال آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم آپ سے دعا کے خواستگار ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کام کی صحیح رفتار نصیب فرمائیں اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا الہ العالمین۔

حضراتِ محترم! ان گزارشات کے بعد ایک بات اور بھی آپ حضرات کی خدمت میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ آپ حضرات جو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں آباد ہیں، عالم اسلام اور پاکستان میں نفاذ شریعت کی تحریکات کے حوالہ سے آپ پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ کون سے عملی کام ہیں جو اس سلسلہ میں آپ کر سکتے ہیں؟ آپ کا کام صرف دعا کرنا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ کو عملی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:

  • مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ نفاذ شریعت کی جدوجہد کرنے والی تحریکات کو آپ مالی طور پر مضبوط بنائیں اور انہیں فنڈز مہیا کریں تاکہ وہ اپنی جدوجہد کے لیے مزید وسائل فراہم کر سکیں اور زیادہ منظم طریقہ سے کام کر سکیں، اس طریقہ سے آپ اس کام میں عملی طور پر شریک ہو سکتے ہیں۔
  • لیکن اس وقت اس سے بھی زیادہ مؤثر اور ضروری پہلو کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جو لابیاں یہاں بیٹھ کر مسلم ممالک میں اسلام بیزار عناصر کی سرپرستی کر رہی ہیں ان کا مقابلہ آپ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ آپ ان لابیوں کو جانتے ہیں، ان کے مزاج اور طریق کار کو سمجھتے ہیں اور ایک آزاد سوسائٹی میں رہنے کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس وسائل ہیں، سوچ ہے، استعداد ہے اور آپ ان تمام ذرائع تک پہنچ سکتے ہیں جو اسلام اور عالم اسلام کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ صرف اس کا احساس بیدار کرنے کی اور کام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں آپ کے سامنے کوئی منصوبہ پیش نہیں کر رہا، ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور اس کے حل کی ضرورت کا احساس بیدار کر رہا ہوں۔ اگر آپ اس کو مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنے پر اپنے دل و دماغ کو تیار پاتے ہیں تو اس کا عملی طریقہ خود سوچیے۔ اگر یہودی یہاں بیٹھ کر صیہونیت اور اسرائیل کے لیے کام کر سکتا ہے تو مسلمان اسلام کے لیے کیوں نہیں کام کر سکتا؟ اور اگر یہودی یہاں کے وسائل اور سوسائٹی کی سہولتوں کو اپنے مذہب اور مرکز کے لیے استعمال میں لاتا ہے تو مسلمان کو بھی اس میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ بہرحال میری آپ حضرات سے اور امریکہ میں رہنے والے تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اسلام دشمن لابیوں کے مقابلہ کے لیے خود کو منظم کریں اور مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر کی سرپرست لابیوں کو ناکام بنانے کے لیے جو کچھ آپ کے بس میں ہے کر گزریں۔
  • آخر میں ایک اور ضروری بات آپ کی خدمت میں عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ شریعت کے سارے احکام حکومت اور اقتدار سے متعلق نہیں ہیں بلکہ بیشتر احکام ایسے ہیں جن پر عمل کے لیے ہمیں کسی حکومتی مشینری یا اتھارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے وجود پر، اپنے خاندان پر اور اپنے ماحول پر آزادی کے ساتھ ان احکام و قوانین کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ ایسے قوانین کا نفاذ تو ہمیں بہرحال کرنا چاہیے اور قرآن و سنت کے جن احکام پر بھی ہم عمل کر سکتے ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔ اس حوالہ سے میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ آپ حضرات پرسنل لاء اور بزنس لاء میں شرعی قوانین پر عمل کر سکتے ہیں، اس مقصد کے لیے اپنی عدالتیں بنا سکتے ہیں اور سپریم کورٹ سے ایک بورڈ آف آربیٹریشن منظور کرا کے یہ آئینی تحفظ حاصل کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے فیصلے پرسنل لاء اور بزنس لاء میں ان کی اپنی تشکیل کردہ عدالتوں میں ان کی مرضی کے قوانین کے تحت کیے جائیں اور ان فیصلوں کو آئینی طور پر حتمی حیثیت حاصل ہو۔

    مجھے بتایا گیا ہے کہ یہودیوں نے یہاں یہ تحفظات اور سہولتیں حاصل کر رکھی ہیں اور ان کی اپنی عدالتیں ان کے مقدمات کے فیصلے کر رہی ہیں، اگر یہ درست ہے تو پھر آپ حضرات کو اس سہولت سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اگر کسی معاملہ میں ہمیں شریعت کے قوانین پر عمل کرنے کا حق اور اختیار ملتا ہے اور ہم اسے استعمال نہیں کرتے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں بلکہ ایسے معاملات میں شریعت پر عمل نہ کرنے میں ہم مجرم ہوں گے۔ اس لیے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ اس پہلو پر ضرور سوچیں اور اگر اسے اجتماعی طور پر عملی شکل دی جا سکتی ہو تو اس میں سستی اور کوتاہی سے کام نہ لیں۔ پھر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عناصر جو امریکی معاشرہ سے مرعوب ہو کر نفاذ اسلام میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، ان کے سامنے جب یہ صورت آئے گی کہ خود امریکی معاشرہ میں مسلمان بہت سے معاملات میں اسلامی احکام و قوانین پر عمل کر رہے ہیں اور کچھ شعبوں میں یہاں اسلام عملاً نافذ ہے تو شاید انہیں بھی کچھ عقل آجائے اور وہ امریکی معاشرہ کی تقلید کے شوق میں ہی اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کی طرف پیش رفت پر آمادہ ہو جائیں۔

بہرحال میں نے مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کی تحریکات کے ساتھ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی عملی وابستگی کی تین صورتیں عرض کی ہیں:

  1. آپ حضرات نفاذِ اسلام کی تحریکات کی زیادہ سے زیادہ سیاسی و اخلاقی مدد کریں۔
  2. مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف کام کرنے والی منظم لابیوں کے منظم مقابلہ کا اہتمام کریں۔
  3. اس معاشرہ میں آپ کو جن شرعی قوانین پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے ان کے نفاذ اور عملدرآمد کی کوئی عملی صورت ضرور نکالیں۔

اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کی توفیق دیں اور عالم اسلام کو شریعت کے نفاذ کی منزل سے جلد ہمکنار فرمائیں، آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔

2016ء سے
Flag Counter