وزیراعظم بھٹو کا اعتراف اور جسٹس حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ

   
تاریخ اشاعت: 
۱۸ جنوری ۱۹۷۴ء

وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عید الاضحیٰ سے چند روز قبل ایک غیر ملکی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کافی عرصہ سے غیر ملکی مداخلت کا نشانہ بنا ہوا ہے اور خصوصاً‌ بلوچستان غیر ملکی سازشوں اور مداخلت کی زد میں ہے۔

اس سے قبل بھٹو صاحب نے متعدد بار اس مداخلت کے وجود سے انکار کیا ہے بلکہ ایک بار تو یہاں تک فرمایا کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا قصہ ہم صرف اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ مگر اب ان کے اس اعتراف کے بعد یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہو چکا ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی عناصر نے سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں اور پاکستان کو مزید تقسیم کرنے اور تباہ کر دینے کے لیے خفیہ ہاتھ برسرِ عمل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ

  • اس غیرملکی مداخلت کا سرچشمہ کہاں ہے اور وہ کونسی طاقت پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ اسے دولخت کر دینے کے بعد بھی اسے چین نہیں آیا اور اب اس کے مزید حصے کرنے کی بات ہو رہی ہے؟
  • اور پھر پاکستان میں وہ کون سے عناصر ہیں جو اس غیر ملکی مداخلت کے آلۂ کار بن کر اپنے وطن عزیز کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں؟

غیر ملکی سازشوں کے وجود کو تسلیم کرلینے کے بعد یہ سوال اور زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کیا تھے؟ وہ کونسا خفیہ ہاتھ ہے جس نے پاکستان کے اس بڑے حصے کو اس سے الگ کر دیا؟ اور اندرون ملک وہ کونسا طبقہ ہے جس نے ملک کو دو حصے کرنے کی اس مذموم سازش میں غیرملکی مداخلت کاروں کا ہاتھ بٹایا؟ کیونکہ اس امر سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ مغربی پاکستان کے حصے بخرے کرنے میں انہی عناصر کو دلچسپی ہو سکتی ہے جن کے ہاتھ اس سے پہلے مشرقی پاکستان کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جو پاکستان کی پہلی تقسیم میں کامیابی حاصل کرلینے کے بعد دوسری تقسیم کی طرف دوچند جرأت کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس لیے قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے یہ بات ناگزیر ہو چکی ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے مضمرات کو منظرِ عام پر لایا جائے او رالمیۂ مشرقی پاکستان کے پس پردہ کارفرما خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کیا جائے، تاکہ عوام ان عناصر سے خبردار ہو سکیں جو وطنِ عزیز کے اعضاء کو ایک ایک کر کے الگ کرنے کے درپے ہیں۔

وزیراعظم بھٹو نے اپنے دورِ صدارت میں چیف جسٹس جناب حمود الرحمان کی سرکردگی میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے اسباب و علل کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا تھا جس نے سیاسی راہنماؤں، فوجی قائدین اور دیگر متعلقہ افراد کے تفصیلی بیانات قلمبند کرنے کے بعد رپورٹ تیار کر لی ہے۔ اس کمیشن کی تحقیقاتی مساعی کے نتائج کو خفیہ نہیں رہنا چاہیے، یہ پورے ملک کی سلامتی اور قومی تحفظ کا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں قوم کو اعتماد میں نہ لینا اور قومی سطح پر ان خطرات سے نمٹنے کی بجائے محض پارٹی کی بنیاد پر فیصلے کر لینا ملک و قوم کو مزید دشواریوں سے دوچار کر سکتا ہے۔

اسی لیے قائدِ جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب مدظلہ اور دوسرے اپوزیشن لیڈر بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو گواہوں کے بیانات سمیت شائع کیا جائے تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کے وطنِ عزیز کا قاتل کون ہے؟ اس رپورٹ اور گواہوں کے بیانات کی اشاعت سے تقسیمِ پاکستان کے اسباب، خفیہ عوامل اور غیر ملکی سازشوں کے بے نقاب ہونے کے علاوہ اپوزیشن خصوصاً‌ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے بارے میں سرکاری پارٹی اور اس کے حواریوں کے اس پروپیگنڈا کا وزن بھی معلوم ہو جائے گا جس کے ذریعہ اپوزیشن قائدین کی حب الوطنی کو مسلسل چیلنج کیا جا رہا ہے۔

ہم بھٹو صاحب سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کے وجود کو تسلیم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہیے اور المیۂ سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں عدالتی تحقیقات کے نتائج کو منظر عام پر لا کر عوام اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیتے ہوئے ملک کو غیر ملکی مداخلت کے ہولناک نتائج سے بچانے کے لیے مثبت اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ اس کے بغیر قومی و ملکی سلامتی کے تحفظ کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter