علماء آزاد کشمیر اور عملی سیاست

   
تاریخ : 
۶ جولائی ۱۹۷۱ء

جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی طرف سے شائع شدہ ایک اشتہار کے مطابق ۵ و ۶ اگست ۱۹۷۱ء کو راولاکوٹ آزاد کشمیر میں کشمیری علماء کا ایک نمائندہ کنونشن منعقد ہوگا جس میں جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی تنظیم نو کی جائے گی۔ علماء کشمیر کا یہ اقدام بروقت، مستحسن اور ناگزیر ہے۔ اور ہم اس موقع پر علماء کرام کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے چند ضروری گزارشات پیش خدمت کر رہے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر سے کنونشن میں شرکت کرنے والے علماء کرام کے پیش نظر رہنی ضروری ہیں۔ امید ہے کہ علماء آزاد کشمیر ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے۔

نئی نسل کو علماء حق کی قربانیوں سے روشناس کرائیں

برصغیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے طبقوں میں علماء حق یا دوسرے لفظوں میں امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خانوادۂ علمی کا کردار اور ان کی خدمات و قربانیاں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص سے مخفی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یار لوگ سرفروش اور جانباز علماء کے بے مثال کارناموں کو نئی نسل کی نگاہوں سے اوجھل رکھنے میں ہی مصلحت سمجھے ہوئے ہیں۔ مگر اس حقیقت کے اعتراف سے مفر کسی طرح ممکن نہیں کہ اگر علماء حق کی خدمات اور قربانیوں کو صفحاتِ تاریخ سے کرید ڈالا جائے تو شاید تاریخ آزادی کے دامن میں جدوجہد آزادی کا چوتھا حصہ بھی نہیں بچتا۔

علماء حق نے سیاسی جدوجہد پر اپنی گرفت اس قدر مضبوط رکھی ہے کہ آج بھی اس گرفت سے یار لوگ خوفزدہ ہیں اور اسے کمزور کرنے کے لیے انہوں نے سازشوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی خاطر اور ڈوگرہ سامراج کے مظالم کے خلاف عوامی جدوجہد بھی ایک لحاظ سے اسی طبقہ کی رہین منت ہے جسے علماء حق کی خوشہ چینی کا شرف اور فخر حاصل ہے۔ ہماری مراد ۱۹۳۱ء میں تحریک کشمیر سے برصغیر کو روشناس کرانے والے ان ہزاروں احرار ورکروں سے ہے جنہوں نے مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، چودھری افضل حقؒ اور ماسٹر تاج الدین انصاریؒ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو ڈوگرہ سامراج کے قید خانوں کے سپرد کر دیا تھا۔ احرار راہنماؤں اور کارکنوں کی یہ قربانی اور کشمیری بھائیوں کی خاطر ان کا یہ ایثار تحریک کشمیر کا شاندار نقطۂ آغاز ہے، نیز کشمیر کے بے شمار علماء حق بھی اس تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ اور حضرت مولانا میر واعظ محمد یوسف مرحوم کا ممتاز کشمیری قائدین میں شمار اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تحریک کشمیر میں علماء کی خدمات کا وافر اور فیصلہ کن حصہ موجود ہے۔ اگرچہ علماء کشمیر نے آزادی کی خاطر اپنا مستقل پلیٹ فارم قائم کر کے منظم طور پر اس تحریک میں حصہ نہیں لیا لیکن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا کوئی خطہ ایسا نہیں جس کی وسعتوں میں آزادی کی خاطر علماء حق کی بے پناہ قربانیوں کی داستانیں نہ بکھری پڑی ہوں۔

آج جبکہ علماء کشمیر اتحاد و تنظیم کی راہ پر گامزن ہونے والے ہیں، سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک وسیع اور منظم تبلیغی پروگرام کے ذریعے نئی نسل کو آزادی کی خاطر علماء حق کی قربانیوں سے روشناس کرایا جائے۔ اور اس کے ذہن و قلب میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ علماء حق صرف مساجد و مدارس کے منتظم ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر وہ میدان جنگ کے جانباز سپاہی اور راہوار سیاست کے شہسوار بھی ہیں۔

عملی سیاست اور علماء کرام کی ذمہ داری

ہمیں اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں کہ علماء کو عملی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ عملی سیاست میں قومی کی راہنمائی علماء کرام کی ویسے ہی ذمہ داری ہے جیسے دینی علوم و عقائد و عبادات کے امور میں قوم کی باگ ڈور سنبھالنا ان کا فرض ہے۔ خصوصاً برصغیر میں، کیونکہ ہاں مسلم سیاست کا محور دین اسلام ہے، اور کوئی بھی گروہ ایسا نہیں جو اسلام کا سہارا لے کر آگے بڑھنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار رہا ہو۔ ایسے حالات میں اگر علماء حق دینی سیاست کا پرچم لے کر میدان عمل میں نہیں آئیں گے تو دین اسلام سیاسی بازیگروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جائے گا اور عوام کے لیے اس بات کی تمیز مشکل ہو جائے گی کہ اسلام کے نام لیوا متعدد گروہوں میں سے اصل اسلام کس کے پاس ہے۔

اس لیے علماء کشمیر کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ وہ عملی سیاست میں بھرپور حصہ لیں اور سیاسی جدوجہد پر اپنی مضبوط گرفت قائم کریں تاکہ کسی بھی قوت کے لیے کشمیر کے معاملہ میں ان کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جائے، اور لادینی سیاست کے علمبردار اپنے مذموم مشن کی تکمیل میں مضبوط اور ناقابل شکست رکاوٹ محسوس کریں۔ اتنی بات ضرور ہے کہ آزاد کشمیر کے مخصوص حالات کے پیش نظر حریفانہ سیاست شاید دینی مصالح کے منافی ہو اور منفی بنیادوں کی بجائے مثبت پہلوؤں پر جدوجہد کر کے علماء کشمیر زیادہ دینی منافع اور ملکی فوائد سے قوم کو بہرہ ور کر سکیں۔ کیونکہ اس وقت آزادکشمیر کی قیادت لادینی سیاست کی بجائے دینی سیاست کی علمبردار ہے اور اسلام کی خاطر محض نعرہ بازی ہی نہیں کرتی بلکہ وہ عملی طور پر اس مقصد کی خاطر قدم بڑھا رہی ہے۔

اس موقع پر مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صدر ریاست آزاد کشمیر کے جذبۂ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم حوصلگی ہوگی، جنہوں نے اس دور میں اسلامی اصلاحات کی طرف قدم بڑھا کر ساری دنیا کے مسلمان حکمرانوں کے لیے نمونہ اور مثال پیش کی ہے۔ سردار صاحب کے طرز عمل یا ان کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کا خلوص، اسلام کے ساتھ ان کی والہانہ شیفتگی اور بنیادی اسلامی عقائد پر ان کا پختہ اذعان و ایقان شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس لیے ہمارے نقطۂ نظر سے علماء کشمیر کو اسلامی اصلاحات کی کامیابی کے لیے سردار صاحب موصوف کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ اس سے کم سے کم جو دینی فوائد حاصل ہوں گے وہ یہ ہیں کہ سردار صاحب موصوف مکمل اعتماد اور حوصلے کے ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنے وعدے کی تکمیل کر سکیں گے۔ اور ان کی پشت پر علماء کی مضبوط طاقت ہونے کی وجہ سے وہ سازشی گروہ، جو سردار صاحب کے گرد خودغرضوں، مفاد پرستوں اور ملحدین کا آہنی حصار قائم کر کے موصوف کو بے دست و پا کر دینے کے خواب دیکھ رہا ہے، اس کے حوصلے پست ہوں گے۔

اس کے ساتھ ایک اور بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر سردار صاحب کے ساتھ علماء نے متحد ہو کر تعاون نہ کیا اور خدانخواستہ اسلامی نظام کا خواب پریشاں ہوگیا تو اس کی ذمہ داری سردار صاحب پر نہیں بلکہ علماء کرام پر ڈالی جائے گی اور سردار صاحب آسانی سے یہ کہہ سکیں گے کہ علماء کے عدم تعاون کی وجہ سے میں اپنے وعدہ کی تکمیل نہیں کر سکا۔ اس صورت حال میں علماء کشمیر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سردار صاحب سے تعاون کریں۔ اس تعاون کی معقول صورت یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ان کے دست و بازو بنیں، ان سے مسلسل رابطہ رکھیں اور اختلاف برائے اختلاف یا تعریف برائے تعریف کے طرزعمل کا شکار ہونے کی بجائے ان کی اچھی باتوں میں ان کا ساتھ دیں اور نقائص کی نشاندہی کریں۔ اور انہیں اس حد تک اعتماد میں لے لیں کہ وہ کوئی قدم بھی علماء کے مشورہ کے بغیر نہ اٹھا سکیں۔

اپنی جدوجہد کو قادیانی گروہ کی سازشوں سے بچائیں

برطانوی سامراج نے اپنے خودکاشتہ پودے (قادیانیت) کی جڑیں پورے برصغیر میں گہری منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلائی تھیں تاکہ بدیشی حکمرانوں کے چلے جانے کے بعد ان کے مفادات و اغراض کی نگہبانی ہوتی رہے۔ یا کم از کم جس علمی و تہذیبی ورثہ کو وہ تباہ و برباد کر کے گئے ہیں اس کی واپسی میں رکاوٹیں قائم و موجود رہیں۔ سامراج کے اس خودکاشتہ پودے کے برگ و بار سے آزادکشمیر کی سرزمین بھی محفوظ نہیں اور نوکر شاہی کے جس راستہ سے یہ پودا ایوانِ اقتدار تک رسائی حاصل کرتا ہے، وہ بھی موجود ہے۔ اس حقیقت سے علماء کشمیر پوری طرح آگاہ ہیں اور یہ امر واقعہ بھی ان کے سامنے ہے کہ پاکستان کی اقتصادی و سیاسی قوت کو ۲۳ برس کی مدت میں یہ سامراجی پودا کس طرح مفلوج کر چکا ہے۔ اس لیے علماء کو اس کی سرگرمیوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی اور مثبت بنیادوں پر ٹھوس پروگرام کے تحت عوام، آفیسرز اور ایوان اقتدار کو اس کے سائے سے بچانا ہوگا۔ ورنہ آزادیٔ کشمیر اور اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر کوئی منصوبہ بھی پروان نہیں چڑھ سکے گا اور آزاد کشمیر سازشوں اور مصائب کے ایسے جال میں پھنس کر رہ جائے گا جس کے نتائج سے عہدہ برآ ہونا آزاد کشمیر جیسی محدود وسائل والی ریاست کے بس کی بات نہیں رہے گی۔

کیا کانفرنسوں اور مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا؟

یہ گزارش ہمیں شروع میں کرنی چاہیے تھی لیکن چونکہ اس کا انحصار گزشتہ باتوں پر ہے اس لیے ہم اس کی اہمیت کے باوجود اسے آخر میں عرض کر رہے ہیں۔ علماء کرام سے زیادہ اس حقیقت کا علمبردار کون ہوگا کہ مظلوم مسلمانوں کی امداد اور مقبوضہ علاقوں کی ظالموں سے آزادی کے لیے جہاد کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ اس لیے کہ کانفرنسیں، مذاکرات، بین الاقوامی دورے اور بیانات عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تو مفید ہو سکتے ہیں لیکن ان سے اصل مسئلہ کے حل میں کوئی عملی مدد ملتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے خیال میں علماء کشمیر کو چاہیے کہ وہ آزادکشمیر بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں جہاد کی ترغیب، مجاہدین کی بھرتی اور ان کی دینی تربیت کو اپنے منظم تبلیغی پروگرام اور مستقل ذمہ داریوں میں شامل کرلیں۔

اس کے علاوہ آخری اور دردمندانہ گزارش ہے کہ خدا کے لیے آپ لوگ اپنی صفوں میں تشنت و افتراق کو نہ پنپنے دیں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ لادینی طاقتوں اور سامراجی پودے کی یہ سرتوڑ کوشش ہوگی کہ علماء کی طاقت کو آپس میں لڑا کر فنا کر دیا جائے۔ اگر علماء کشمیر نے اس راز کو پا لیا تو ہم یقین و اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ العزیز دنیا کی کوئی طاقت آزادیٔ کشمیر اور اسلامی نظام کے نظام میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔ وما علینا الا البلاغ ۔

   
2016ء سے
Flag Counter