قادیانی مسئلہ: وزیراعظم بھٹو کی تقریر پر مولانا مفتی محمود کے ارشادات

   
تاریخ اشاعت: 
۲۱ جون ۱۹۷۴ء

کل جماعتی تحفظ ختم نبوت مجلس عمل کا اجلاس گزشتہ روز لائلپور میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں ملک کی تازہ ترین صورتحال اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی نشری تقریر پر غوروخوض کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمود نے اخباری کانفرنس میں مجلس عمل کے فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ:

  • وزیراعظم بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اس سلسلہ میں سواد اعظم کے دوسرے مطالبات تسلیم کرنے کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہیں، وہ اس مسئلہ کو اسلامی مشاورتی کونسل یا سپریم کورٹ کے سپرد کر کے سرد خانہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
  • مجلس عمل کے مطالبات بالکل واضح ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مسئلہ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قومی اسمبلی سے فیصلہ لینا ضروری ہے۔ لیکن وزیراعظم اپنے منصب کی حیثیت سے ربوہ کو کھلا شہر قرار دے سکتے ہیں، وہ حادثہ کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی احکام اور مرزا ناصر کو گرفتار کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، اور قادیانیوں کی فرقان فورس اور خدام احمدیہ کو خلاف قانون قرار دے سکتے ہیں۔
  • اگر بھٹو صاحب قادیانی مسئلہ اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے تو فوری طور پر اس کا اعلان کر سکتے تھے اور قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں وقت نکال کر ایک ہی اجلاس میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
  • قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کی تجویز کو ہم قبول نہیں کرتے، اس مسئلہ کو ایک بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں لانا چاہیے۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مسئلہ نزاعی معاملہ نہیں، گزشتہ جنوری میں پاکستان کے ۳۵ مقتدر راہنماؤں اور رابطہ عالم اسلامی نے اپنے اجلاس مکہ مکرمہ میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا تھا کہ اس اجتماعی مسئلہ کو مسلمانان عالم کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔
  • وزیراعظم کی تقریر جانبدارانہ ہے اور اس سے قوم مطمئن نہیں ہوئی۔ ظفر اللہ خان اور مرزا ناصر نے اقوام متحدہ کے مبصروں کو پاکستان کے حالات کا جائزہ لینے کی دعوت دینے کی بات کر کے پاکستان سے غداری کی ہے۔

قائد جمعیۃ کے ارشادات کی روشنی میں مجلس عمل کا موقف بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے نشری تقریر میں اپنی مخصوص حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے جس طرح اس مسئلہ کو کھٹائی میں ڈالنے کی سعی فرمائی ہے اس کے پیش نظر عوام کے دینی جذبات کے ساتھ ان کی ’’دلچسپی‘‘ بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔ بھٹو صاحب کی ہمیشہ سے یہی تکنیک رہی ہے کہ مسئلہ کو الفاظ کےگورکھ دھندے میں الجھا کر اصلی پہلو کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے۔ اس بار بھی بھٹو صاحب نے یہی کچھ کیا ہے، انہوں نے قومی اسمبلی، اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ یہ مسئلہ اب اس موڑ پر پہنچ چکا ہے کہ اس کے حل میں مزید تاخیر ملکی و قومی نقطۂ نظر سے مضرت رساں ثابت ہو سکتی ہے۔

اس لیے ہم وزیراعظم سے عرض کریں گے کہ اب اس سلسلہ میں تاخیر نہ فرمائیں اور عوامی جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے فوری طور پر مجلس عمل کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter