اسامہ بن لادن اور ان کی جدوجہد ۔ ایک سوالنامہ

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۲ء

(لاہور کے ایک دینی حلقے کی طرف سے ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر کو چند سوالات موصول ہوئے جن کے جوابات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ادارہ)

سوال: ستمبر کے حملے کے بعد جو حالات پیش آئے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پنٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرانے کے جو واقعات ہوئے ہیں، ان کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس نے کیے ہیں، اور خود مغربی ایجنسیاں بھی اس سلسلے میں مختلف امکانات کا اظہار کر رہی ہیں۔ لیکن چونکہ امریکہ ایک عرصہ سے معروف عرب مجاہد اسامہ بن لادن اور عالمِ اسلام کی مسلح جہادی تحریکات کے خلاف کارروائی کا پروگرام بنا رہا تھا، اور خود اسامہ بن لادن کی تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کی طرف سے امریکی مراکز اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کے اعلانات بھی موجود تھے، اس لیے امریکہ نے ان حملوں کا ملزم اسامہ بن لادن کو ٹھہرانے اور افغانستان کی طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فوری مطالبہ کر دیا اور اقوام متحدہ اور ورلڈ میڈیا کے ذریعے سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگ گیا کہ ان حملوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ہی عائد ہوتی ہے۔

جہاں تک ان حملوں کا تعلق ہے، دنیا کے ہر باشعور شخص نے ان کی مذمت کی اور ان میں ضائع ہونے والی ہزاروں بے گناہ جانوں کے نقصان پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن امریکہ نے اس پر جس ردعمل کا اظہار کیا اور اس ردعمل پر اپنے آئندہ اقدامات کی بنیاد رکھی، اس کے بارے میں واضح تاثر یہ تھا کہ اس ردعمل کی بنیاد حوصلہ و تدبر پر نہیں بلکہ غصے اور انتقام پر ہے، اور عام طور پر یہ محسوس ہونے لگا کہ امریکہ بہرصورت فوری انتقامی کارروائی کرنے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’جہادی تحریکات‘‘ کو کچل دینے پر تل گیا ہے۔ اور اس کے بعد ہونے والے مسلسل اقدامات نے اس عمومی تاثر و احساس کی تصدیق کر دی ہے۔

جہاں تک الشیخ اسامہ بن لادن اور افغانستان کی طالبان حکومت کے موقف کا تعلق ہے، ان کے طریقۂ کار اور ترجیحات سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود اصولی طور پر ان کا موقف درست تھا اور امریکہ کا موقف اس کے مقابلے میں کمزور اور بے وزن تھا۔ اسی لیے امریکہ نے کارروائی میں عجلت سے کام لیا تاکہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نتیجے میں اسے عالمی سطح پر جو ہمدردی حاصل ہوئی ہے، اس کے ٹھنڈا پڑ جانے سے قبل وہ سب کچھ کر دیا جائے جس کے لیے امریکی دماغ اور ادارے کئی سال سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اسامہ بن لادن روس کے خلاف ’’جہادِ افغانستان‘‘ میں عملاً شریک تھے اور امریکہ بھی اس جہاد کا سب سے بڑا سپورٹر تھا، اسی لیے اس دور میں مغربی ذرائع ابلاغ اور خود امریکی ادارے انہیں ایک عظیم مجاہد کے طور پر پیش کرتے رہے اور جہادِ افغانستان کے خاتمے کے بعد اسامہ بن لادن ایک ہیرو کے طور پر اپنے وطن واپس جا چکے تھے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ خود ان کے اپنے ملک سعودی عرب اور اس کے ساتھ پورے عرب خطے کو امریکہ کے ہاتھوں وہی صورتحال درپیش ہے جو جہادِ افغانستان سے قبل افغانستان کو روس کے ہاتھوں درپیش تھی تو ان کے لیے اس صورتحال کو قبول کرنا ممکن نہ رہا۔ انہوں نے دیکھا کہ

  • خلیجِ عرب میں امریکی فوجیں مسلسل بیٹھی ہیں جس کی وجہ سے عرب ممالک کی آزادی اور خودمختاری ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے،
  • عرب ممالک کی دولت اور تیل کا بے دردی کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہے،
  • عرب عوام کو انسانی، شہری اور شرعی حقوق حاصل نہیں ہے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا کوئی موقع بھی میسر نہیں ہے،
  • جبکہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور فلسطینی عوام پر ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی ہے-

تو انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور مطالبہ کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں خلیج عرب سے نکل جائیں- لیکن چونکہ ان کے ملک میں اس قسم کی بات کہنے اور کوئی سیاسی مہم چلانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، اس لیے انہیں مجبور'ا اس رخ پر آنا پڑا کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کریں اور خلیجِ عرب سے امریکی فوجوں کی واپسی کے لیے اسی قسم کی جدوجہد منظم کریں جس طرح کی جدوجہد کا تجربہ افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے لیے اس سے قبل ہو چکا تھا اور وہ خود اس میں شریک رہے تھے۔

اسامہ بن لادن کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان کا موقف اور مطالبہ اصولی طور پر درست تھا۔ اور اس بات سے اختلاف کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ سعودی عرب اور خلیج عرب کے دیگر ممالک میں سیاسی جدوجہد کے راستے مکمل طور پر مسدود ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن اور ان کے رفقاء کے لیے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے صرف ایک راستہ باقی رہ گیا تھا جسے تشدد کا راستہ کہا جاتا ہے اور جس پر اسامہ بن لادن کو مطعون کیا جاتا ہے، لیکن طعن و تشنیع کرنے والے اس معروضی تناظر سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ ان حالات میں ان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔

اسامہ بن لادن کا خیال تھا کہ وہ جہاد افغانستان میں ٹریننگ لینے والے دنیا بھر کے مجاہدین کو ایک نظم اور پروگرام میں منسلک کریں گے اور اس طرح ایک ایسا مزاحمتی گروپ وجود میں آ جائے گا جو عالمِ اسلام کے مختلف حصوں میں ہونے والے جبر و تشدد کے خلاف ’’پریشر گروپ‘‘ کا کام کرے گا، اور شاید وہ اس کے ذریعے سے اسرائیلی جارحیت کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے اور خلیج عرب میں امریکی فوجوں کے خلاف اس حد تک دباؤ منظم کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو امریکہ کو خلیج عرب میں اپنی فوجوں کی موجودگی کے تسلسل پر نظرثانی کے لیے مجبور کر سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سوڈان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے سوڈان کی حکومت کے لیے اسامہ بن لادن کا وجود برداشت کرنا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ وہ سوڈان چھوڑ کر افغانستان آ گئے جہاں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور وہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام اور امریکہ کے تسلط سے عالمِ اسلام بالخصوص خلیج عرب کی آزادی کے حوالے سے اسامہ بن لادن کے موقف سے متفق تھی۔ ان کے ساتھ وہ ہزاروں عرب مجاہد بھی افغانستان آ گئے جو جہادِ افغانستان میں شریک تھے اور اسلامی جذبات سے سرشار ہونے کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے کی صورت میں حکومتوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں اور ریاستی جبر کا نشانہ بننے کے خطرات سے دوچار تھے۔

طالبان حکومت نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ موقف اور جذبات کی ہم آہنگی اور دینی حمیت میں شراکت کی وجہ سے دونوں میں ایسے تعلقات کار بھی قائم ہو گئے کہ انہیں ایک ہی منزل کے مسافر سمجھا جانے لگا۔ اس کے باوجود طالبان حکومت نے ۱۱ ستمبر کے واقعات کے بعد یکطرفہ موقف اختیار نہیں کیا بلکہ ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر ثبوت فراہم کر دیے جائیں تو وہ اسامہ بن لادن کو حوالے کر دینے کے مطالبے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں، یا کسی ایسے بین الاقوامی فورم کے حوالے بھی کر سکتے ہیں جو غیرجانبدار ہو۔ مگر امریکہ نے رعونت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ان کے اس جائز موقف کو مسترد کر دیا اور اپنے الزامات کو ہی قطعی ثبوت قرار دیتے ہوئے افغانستان پر حملہ کا اعلان کر دیا جس کے ذریعے سے امریکہ نے وہ دونوں مقاصد حاصل کر لیے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھے تھے اور ۱۱ ستمبر کے واقعات ان کے لیے محض بہانہ ثابت ہوئے۔

سوال: افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: طالبان حکومت قائم ہوتے ہی مجھے یہ خدشہ محسوس ہونے لگا تھا اور میں نے کئی مضامین میں اس کا اظہار بھی کیا کہ اس حکومت کو برداشت کرنا نہ صرف یہ کہ امریکہ کے لیے ممکن نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان حکومتیں بھی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں جو اپنے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کا سامنا کر رہی ہیں۔ کیونکہ طالبان حکومت کی کامیابی کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریکات کو تقویت حاصل ہوتی اور ایک کامیاب حکومت کی صورت میں عملی آئیڈیل بھی مل جاتا۔ اس لیے امریکہ اور کفر کی دیگر طاقتوں کے ساتھ ان مسلم حکومتوں کا اتحاد ایک فطری بات تھی اور ان سب نے مل کر ایک ایسی حکومت کو ختم کر دیا ہے جو اپنی کامیابی کی صورت میں دونوں کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ خطرہ اس معنی میں نہیں کہ وہ کوئی بہت بڑی قوت ہوتی بلکہ اس معنی میں کہ موجودہ عالمی سسٹم سے ہٹ کر اور اس سے بغاوت کر کے ایک الگ نظریہ اور فلسفہ کے تحت بننے والی کسی حکومت کی کامیابی سے ان تمام قوتوں اور عناصر کو بغاوت کا راستہ مل جاتا جو موجودہ عالمی سسٹم سے مطمئن نہیں ہیں اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ اسی لیے اسے بہت بڑا خطرہ سمجھا گیا اور اسے ختم کرنے پر دنیا کی سب حکومتیں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متفق ہو گئیں۔

امریکہ اور اس کی زیر قیادت عالمی استعمار کو عالمِ اسلام سے کوئی فوجی، سیاسی یا معاشی خطرہ نہیں ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہی ہے۔ بلکہ فوجی، سیاسی اور معاشی طور پر پورا عالمِ اسلام امریکہ کے شکنجے میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے۔ مگر مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفہ و نظام کے مقابلے میں اگر کسی فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت میں کھڑا ہونے کی قوت و صلاحیت موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی تحریکات کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں اور بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کو اگر دنیا کے کسی خطے میں ایک ریاستی سسٹم کے طور پر قدم جمانے کا موقع مل گیا تو وہ موجودہ عالمی نظام اور مغربی فلسفہ و ثقافت کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ عالمی سسٹم کے ارباب حل و عقد نے قطعی طور پر یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی ایسی مسلمان حکومت وجود میں نہ آنے پائے جو موجودہ عالمی سسٹم اور بین الاقوامی نیٹ ورک سے ہٹ کر ہو، یا دوسرے لفظوں میں اقوامِ متحدہ کی بالادستی قبول کرنے کے بجائے وہ اپنا کوئی الگ ایجنڈا رکھتی ہو۔ افغانستان میں طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور اب اسے فوجی طاقت کے زور پر ختم کر دینے کا بھی یہی پس منظر ہے۔

البتہ طالبان حکومت کے خاتمے پر انتہائی افسوس اور صدمہ کے باوجود کسی حد تک یہ بات اطمینان بخش ہے کہ طالبان حکومت کا خاتمہ فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت میں مغرب کی بالادستی کے حوالے سے نہیں ہوا بلکہ محض مادی طاقت، جبر و تشدد اور عسکری قوت کے زور پر اسے ہٹایا گیا ہے۔ فکر و فلسفہ اور نظام و ثقافت اگر زندہ ہوں تو عسکری ناکامیاں زیادہ دیر تک ان کا راستہ نہیں روک سکتیں اور وہ کسی نہ کسی طرح سے اپنے اظہار اور پیش قدمی کے راستے نکال لیا کرتے ہیں۔

سوال: مستقبل میں افغانستان کی صورتحال کیا ہوگی؟

جواب: میرے خیال میں امریکی اتحاد کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی اور افغانستان کے سب قبائل کو مطمئن کرنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔ یہ صرف اسلام اور ایمان کی قوت تھی جس نے قبائلی تعصبات اور علاقائی امتیازات کو دبا رکھا تھا۔ اس کا پردہ ہٹ جانے کے بعد اب تمام معاملات قبائل اور علاقائیت کے حوالے سے طے پائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان عصبیتوں میں اضافہ ہوگا۔ جبکہ مغربی قوتوں کا مفاد بھی اسی میں ہوگا کہ یہ عصبیتیں بڑھیں اور اختلافات و تفرقہ کا ماحول قائم رہے تاکہ وہ اس کی آڑ میں افغانستان پر اپنا کنٹرول زیادہ دیر تک قائم رکھ سکیں اور وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔

دوسری طرف طالبان تحریک نے میدانِ جنگ سے پسپائی اختیار کی ہے، ذہنی طور پر شکست اور دستبرداری قبول نہیں کی۔ اور ان کی افرادی قوت بڑی حد تک محفوظ ہے اس لیے وہ کچھ وقت گزرنے کے بعد دوبارہ منظم ہوں گے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے جس کی حمایت و تعاون کرنا اس خطے کی ان تمام قوتوں کی مجبوری بن جائے گا جو امریکہ کی یہاں مستقل موجودگی کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ وقتی لشکر کشی میں امریکی اقدامات کا ساتھ دینا اور بات ہے اور اس خطے میں امریکہ کی مستقل فوجی موجودگی کو قبول کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ اس لیے اس کا فائدہ ہر اس قوت کو ہوگا جو افغانستان میں امریکی اتحاد کی فوجوں کی مستقل یا زیادہ دیر تک موجودگی کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ طالبان کی یہ مزاحمتی تحریک دوبارہ منظم ہونے میں ایک سال اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں پانچ چھ سال کا عرصہ لے سکتی ہے اور افغان قوم کے مزاج، روایات اور تاریخی تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اس کی کامیابی میں شک اور تردد کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

سوال: القاعدہ اور طالبان کو نشانہ بنا کر امتِ مسلمہ پر جو ظلم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی ممالک کی کیا ذمہ داری ہے؟

جواب: میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ مسلم حکومتیں عالمی نظام اور اقوامِ متحدہ کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، وہ اس سے بغاوت اور انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اس لیے ان سے کسی ذمہ داری کی ادائیگی بلکہ کسی بھی درجے میں کسی خیر کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ اسلامی تحریکات کو مسلم عوام سے اپنا رشتہ استوار کرنا ہوگا اور انہی کے اعتماد اور تعاون سے اپنے کام کو آگے بڑھانا ہوگا، اس کے سوا ان کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔

سوال: مستقبل میں مجاہدین کو کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ بالخصوص اب جبکہ پاکستان میں بھی مجاہدین کے خلاف عملی کارروائی ہونے کی توقع ہے؟

جواب: میں اصولی طور پر تشدد کے حق میں نہیں ہوں اور پُراَمن سیاسی جدوجہد کا قائل ہوں۔ اسی وجہ سے جہاں سیاسی جدوجہد کے راستے کھلے ہوں وہاں کسی قسم کی پُرتشدد تحریک کو جائز نہیں سمجھتا، اور پاکستان میں بھی نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے تشدد اور عسکریت کا راستہ اختیار کرنا میرے نزدیک درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ البتہ جہاں عالمی جبر یا ریاستی تشدد کی فضا موجود ہو اور اس کے خلاف رائے عامہ کو منظم کرنے، اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے، اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے تمام راستے مسدود ہوں، وہاں احتجاج کرنے اور کلمۂ حق بلند کرنے والوں کی طرف سے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کو ان کی مجبوری سمجھتا ہوں اور مجبوری ہی کے درجے میں ان کی حمایت کو دینی حمیت کا تقاضا تصور کرتا ہوں۔ اسی طرح جن غیر مسلم ممالک میں مسلم اکثریت کے خطے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان کی جدوجہد میرے نزدیک جہاد ہے۔ اس پس منظر میں ’’جہادی تحریکات‘‘ کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ مل بیٹھ کر اپنی پالیسی اور طریق کار کا ازسرنو جائزہ لیں، اپنی غلطیوں کی نشاندہی کریں، ترجیحات پر نظرثانی کریں، اور اہل علم و دانش کو اعتماد میں لے کر اپنا آئندہ طرزِ عمل طے کریں۔

میرے نزدیک جن باتوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا ہے، ان میں چند اہم امور یہ ہیں:

  1. اصل اہداف سے ہٹ کر جذباتی نعرہ بازی مثلاً دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے، پاکستان میں طالبان کی طرز پر انقلاب لانے، اور مغربی ملکوں کے مراکز کو نشانہ بنانے کی باتیں، جنہوں نے ان سب قوتوں کو نہ صرف چوکنا کیا بلکہ متحد بھی کر دیا۔
  2. ایجنسیوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اختلاط اور اس اختلاط میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی درپردہ کوششیں جن کی وجہ سے پالیسی سازی اور فیصلوں کی قوت بتدریج جہادی تحریکات کی لیڈرشپ کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔
  3. باہمی مشاورت، تعلقات کار اور انڈرسٹینڈنگ کے ضروری اہتمام سے گریز۔
  4. ملک کے داخلی معاملات بالخصوص فرقہ وارانہ امور میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ملوث ہونا۔
  5. اور اہلِ علم و دانش سے صرف تعاون اور سرپرستی کے حصول پر قناعت کرتے ہوئے ان سے راہنمائی اور مشاورت کی ضرورت محسوس نہ کرنا۔

یہ اور اس قسم کی دیگر کئی باتیں ہیں جنہوں نے جہادی تحریکات کو نقصان پہنچایا اور ان کے مخالف عناصر کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے۔ اس لیے جہادی تحریکات کو اپنی پالیسیوں اور طریق کار کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور اہلِ علم و دانش کی راہنمائی میں لائحہ عمل اور ترجیحات کا پھر سے تعین کرنا چاہیے۔

سوال: حال ہی میں انڈین پارلیمنٹ پر فدائی حملہ ہوا ہے، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ حملہ جس نے بھی کیا ہے، اس نے انڈیا کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کرے اور امریکہ کو جہادی تحریکوں کے خلاف دباؤ بڑھانے میں اس سے سہولت حاصل ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں مجھے یہ حملہ کسی بین الاقوامی پلان کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

سوال: مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کیا اب سنجیدگی سے غور کرے گا؟ میری مراد اس سے اقوام متحدہ ہے۔

جواب: فلسطین اور کشمیر دونوں جگہ امریکہ کی دلچسپی یا اقوامِ متحدہ کی تھوڑی بہت حرکت کا بنیادی سبب مزاحمتی تحریک اور مجاہدین کا کسی نہ کسی حد تک دباؤ ہے۔ یہ دباؤ موجود رہا تو شاید اقوامِ متحدہ اور امریکہ کسی درجے میں ان مسائل کے حل میں دلچسپی لیں۔ اور اگر یہ دباؤ ختم ہو گیا یا جیسا کہ خود امریکہ کا پروگرام ہے کہ مجاہدین کے اس دباؤ کو بزور بازو ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد حالات کے نارمل ہو جانے پر امریکہ، اقوام متحدہ یا دیگر مغربی قوتوں کے لیے کوئی دردِ سر باقی نہیں رہے گا کہ وہ ان مسائل کے حل میں دلچسپی لیں، اور پھر عربوں اور پاکستان کو آزادی اور اطمینان کی فضا میں اقتصادی اور معاشی ترقی کا موقع بھی فراہم کریں۔ یہ سب باتیں امریکہ کے اپنے مفادات کے خلاف ہیں اس لیے اس سے یا اقوامِ متحدہ سے اس سلسلے میں کسی مثبت کردار کی توقع ایک خوش فہمی اور خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter