حضرت صوفی عبد الحمیدؒ سواتی کی ایک نو مسلم خاتون دانشور سے ملاقات

   
تاریخ : 
مفسر قرآن نمبر ۲۰۰۸ء

۱۹۹۰ء کی بات ہے ایک دن ہمارے محترم دوست پروفیسر عبد اللہ جمال صاحب کا فون آیا کہ امریکہ سے ایک محترمہ خاتون جو پروفیسر ہیں اور نو مسلم ہیں، پاکستان آئی ہوئی ہیں اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی سے ملنا چاہتی ہیں مگر حضرت صوفی صاحبؒ نے معذرت کر دی ہے، آپ اس سلسلہ میں کچھ کریں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر چہ یہ بات بہت مشکل ہے کہ حضرت صوفی صاحبؒ کے انکار کے بعد انہیں اس ملاقات کے لیے آمادہ کیا جاسکے مگر میں کوشش کر کے دیکھتا ہوں۔ چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا اور گزارش کی کہ ملاقات میں کیا حرج ہے؟ پہلے تو یہی فرماتے رہے کہ میرے ساتھ ملاقات سے آخر اس کی کیا غرض ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ کچھ تو غرض ہو گی جو وہ ملنے پر اصرار کر رہی ہے تو تھوڑے ردو کد کے بعد وہ ملاقات کے لیے تیار ہو گئے ۔ یہ خاتون ڈاکٹر مارسیا کے ہر مینسن (Marcia K Hermansen) ہیں اور کیلی فورنیا کی سن ڈیگو یونیورسٹی میں اس وقت فلسفہ کے شعبہ میں استاذ تھیں۔ اصلاً کینیڈا کی رہنے والی ہیں۔ انہوں نے سین ڈیگو یونیورسٹی میں فلسفہ کے مضمون میں ماسٹرز ڈ گری لی، قرآن کریم کے مطالعہ نے مسلمان کر دیا، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات و فلسفہ کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنایا اور ”مغربی دنیا میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم کا تعارف“ کے عنوان پر سین ڈیگو یونیورسٹی سے ہی ڈاکٹریٹ کیا اور پھر اس کے تعلیمی شعبہ سے منسلک ہو گئیں۔ وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسر محمد علوی صاحب سے ان کی شادی ہوئی، ان کے ساتھ ہی پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات پر ریسرچ بالخصوص پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری میں انہیں حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی کی بعض تصنیفات سے استفادہ کا موقع ملا ہے، اس لیے وہ ان سے ملاقات کی خواہش مند ہیں اور بعض علمی اشکالات پر ان سے گفتگو بھی کرنا چاہتی ہیں۔

حضرت صوفی صاحبؒ کی طرف سے کلیئر نس ملنے کے بعد محترمہ ایم کے ہر مینسن اپنے خاوند کے ہمراہ میرے گھر تشریف لائیں، تھوڑی دیر ٹھہریں اور ظہر کی نماز بھی انہوں نے ہمارے ہاں ادا کی۔ انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں وہ دو کاموں کے لیے آئی ہیں۔ ایک تو وہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے ساتھ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحبؒ سواتی سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ ان دنوں گوجرانوالہ کے قریب جی ٹی روڈ پر اٹاوہ کے ساتھ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا جودراصل حضرت صوفی صاحبؒ ہی کی توجہات کا ثمرہ تھا،مگر وہ بالکل ابتدائی مرحلہ میں تھی اور اس میں کسی بیرونی مہمان کی دلچسپی کا کوئی سامان موجود نہیں تھا، اس لیے انہیں اس وقت ہونے والی پیش رفت اور آئندہ کے عزائم سے آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے بہت مسرت کا اظہار کیا۔

اس مرحلہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی تھوڑی سی تاریخ بھی قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ گوجرانوالہ شہر میں دیوبندی مسلک کے مسائل بالخصوص مساجد پر مخالفانہ قبضوں کی مہم کے پس منظر میں اس دور میں ایک مسلکی تنظیم جمعیۃ اہل السنۃ والجماعت کے نام سے کام کر رہی تھی جس میں زیادہ تر حضرت صوفی صاحبؒ کے حلقہ درس کے لوگ شامل تھے اور اسی حلقہ درس سے وابستہ ایک مخیر صنعت کار الحاج میاں رفیق ان دنوں جمعیۃ کے صدر تھے اور راقم الحروف بھی اس میں شامل تھا۔ ایک مرحلہ میں جمعیۃ اہل السنۃ کے احباب نے مشورہ کیا کہ شہر سے باہر جی ٹی روڈ پر مسلکی بنیاد پر ایک بڑا تعلیمی ادارہ قائم کرنا چاہیے، چنانچہ اس کا فیصلہ کر کے جی ٹی روڈ پر لاہور کی جانب جاتے ہوئے ایمن آباد موڑ سے پہلے واقع گاؤں اٹاوہ میں ریلوے لائن کے ساتھ تقریباً بتیس ایکڑ جگہ خریدی گئی۔ ابتداء میں اس منصوبے کو ”نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی“ کے نام سے موسوم کیا گیا اور اسی نام سے اس منصوبے کی تفصیلات جمعیۃ اہل السنۃ کی طرف سے شائع کی گئیں مگر بعد میں مشورہ ہوا کہ یہ ادارہ الگ نام سے ہوناچاہیے اور اس کانام ”فاروق اعظمؒ اسلامی یونیورسٹی“ تجویز کیا گیا اور اس منصوبے کا دوسرا تعارف اس نام سے شائع ہوا۔حضرت مولانا محمدسر فراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی جمعیۃ اہل السنۃ کے سرپرست کی حیثیت سے اس منصوبے کے بھی سر پرست تھے اور صرف نام کے نہیں بلکہ عملی سر پرست تھے۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن ہم چند دوست حضرت صوفی صاحبؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور اسی تعلیمی منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے۔ زیر بحث موضوع یہ تھا کہ اس تعلیمی ادارے میں قدیم و جدید تعلیم کا امتزاج ہوناچاہیے اور دینی علوم کے طلبہ کو جدید علوم و فنون سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون کے طلبہ کو دینی علوم سے آراستہ کرنے کا پروگرام تشکیل دیا جانا چاہیے۔ گفتگو کے دوران تعلیمی ادارے کا نام بھی زیر بحث آیا تو حضرت صوفی صاحبؒ نے فرمایا کہ جس کے ذہن اور فلسفہ کے مطابق کام کرنا چاہتے ہو، اس کانام کیوں نہیں لیتے ہو؟ ان کی مراد حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ تھے۔ بات ہمارے ذہن میں بھی آگئی، چنانچہ ہم نے دوبارہ مشاورت کا اہتمام کیا اور اس تعلیمی ادارے کو”شاہ ولی اللہ یونیورسٹی“ کا نام دے کر اس کے لیے باقاعدہ”شاہ ولی اللہ ٹرسٹ“ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کام کا آغاز کر دیا گیا۔”شاہ ولی اللہ ٹرسٹ“ جب قائم ہوا اور قانونی مراحل سے گزر کر اس نے باضابطہ ٹرسٹ کی شکل اختیار کی تو وہ چھ ارکان پر مشتمل تھا:

(۱)حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر

(۲)حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ

(۳)محترم میاں محمد رفیق صاحب،

(۴)الحاج عزیز ذوالفقارصاحب،

(۵)شیخ محمد اشرف صاحب مرحوم(مسلم لیگی رہنما ایس اے حمیدکے بھائی)،

(۶)راقم الحروف ابو عمار زاہد الراشدی ،

اس کے ساتھ تعلیمی و انتظامی امور کے لئے شاہ ولی اللہ ایجوکیشنل سوسائٹی تشکیل دی گئی جس کے صدر الحاج میاں محمد رفیق اور سیکرٹری جنرل شیخ محمد اشرف مرحوم تھے جبکہ ٹرسٹ کے باقی چاروں حضرات کو سر پرست کا درجہ دیا گیا اور سر پرست اعلیٰ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر قرار پائے۔ اس سوسائٹی کے تحت شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور اس کا آغاز شاہ ولی اللہ کالج سے کیا گیا جس کے لئے تعلیمی کمیٹی بنائی گئی اور راقم الحرو ف کو اس کا چیئر مین اور ڈاکٹر پروفیسر محمد اقبال لون صاحب کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔

اس نظم کے ساتھ شاہ ولی اللہ کالج کا آغاز کیا گیا جس کے اہداف میں تھا کہ ایک کالج قائم کر کے عصری تعلیم کے طلبہ کو مروجہ عصری نصاب کے ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور دینی مدارس کے فضلاءکو جدید علوم کا ایک کورس پڑھا کر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کرا دیا جائے، اس لیے کہ پنجاب یونیورسٹی نے دینی مدارس کے شہادۃ العالمیہ کی سند کو ایم اے کے برابر تسلیم کر نے کے لیے شرط لگا رکھی تھی کہ وہ پانچ سو نمبر کا بی اے کریں۔ چنانچہ اس دائرہ میں دونوں کو رس شروع کر دیے گئے اور کئی برس تک وہ جاری رہے مگر بعدمیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اس بی اے کو مزید تعلیم کے لیے بنیاد تسلیم نہ کیے جانے کی بنا پر اور یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کے حوالے سے خود ہمارے درمیان ہم آہنگی قائم نہ رہنے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس سارے عمل میں دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی کی ہمیں مکمل اور عملی سر پرستی حاصل رہی، تمام معاملات کی مشاورت میں شریک رہے اور حوصلہ افزائی اور معاونت سے نوازتے رہے، مگر شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے اصل اہداف کے حوالہ سے اس نظام کے چلانے والے احباب کے درمیان ہم آہنگی قائم نہ رہنے پر جب راقم الحروف نے دوستوں سے مشاورت کی کہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے اصل اہداف و مقاصد کے لیے معاملات کو خود کنٹرول کرنے کی کوئی صورت اختیار کی جائے تو دونوں بزرگوں یعنی حضرت مولانا سر فراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی نے مجھے سختی کے ساتھ منع کر دیا اور میں خاموشی کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا۔ چنانچہ اب وہاں کیڈٹ کالج چل رہا ہے،ہسپتال بن چکا ہے اور میڈیکل کالج کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس کے موجود ہ ٹرسٹ میں راقم الحروف اور حضرت صوفی صاحبؒ کے فرزند مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی شامل ہیں مگر عملی طور پر اس کے معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ ہمارے تحفظات بدستور قائم ہیں۔

محترمہ ڈاکٹر ایم کے ہر مینسن نے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا نام کہیں پڑھ لیا تھا اور وہ اسے دیکھنے کے شوق میں تشریف لائی تھیں مگر اس وقت وہ بالکل ابتدائی مرحلہ میں تھی اس لیے انہیں وہاں لے جانا مناسب نہ تھا، البتہ حضرت صوفی صاحبؒ کے ساتھ ان کی ملاقات ہو گئی۔ یہ ملاقات مدرسہ نصرۃ العلوم کی لائبریری میں ہوئی جس میں محترمہ کے شوہر پروفیسر محمد علوی صاحب، پروفیسر محمدعبد اللہ جمال صاحب اور راقم الحروف بھی شریک تھے۔

ڈاکٹر ایم کے ہر مینسن نے حضرت صوفی صاحبؒ سے وحدت الوجود کے فلسفہ کے حوالہ سے کچھ سوالات کیے جن کی تفصیل اب مجھے یاد نہیں ہے، البتہ اتنی بات ذہن میں محفوظ ہے کہ انہوں نے سوال کیا کہ اس مسئلہ پر اور کن حضرات سے بات کی جا سکتی ہے تو حضرت صوفی صاحبؒ نے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے نام لیے۔ اس موقع پر حضرت صوفی صاحبؒ نے محترمہ ڈاکٹر ایم کے ہر مینسن سے ایک دلچسپ سوال کیا جو اس طرح تھا کہ آپ پڑھی لکھی خاتون ہیں اور ہم مسلمانوں میں اس وقت ایسی کوئی بات نہیں کہ کوئی ہمیں دیکھ کر متاثر ہو اور مسلمان ہو جائے۔ آپ آخر کیسے مسلمان ہوئی ہیں؟ ڈاکٹر ایم کے ہر مینسن نے جواب دیا کہ وہ کسی مسلمان کی دعوت پر یا کسی مسلمان کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوئیں بلکہ ان کے قبول اسلام کی وجہ قرآن کریم بنا ہے اور قرآن کریم کا مطالعہ کر کے وہ مسلمان ہوئی ہیں۔ اس کی تفصیل انہوں نے یوں بیان کی کہ سین ڈیگو یونیورسٹی میں فلسفہ میں ماسٹرز ڈگری کرنے کے بعد وہ ایک مرحلہ میں اسپین کی کسی یونیورسٹی میں کوئی کورس کر رہی تھیں کہ ایک روز ہاسٹل میں صبح کے وقت ریڈیو کی سوئی گھماتے ہوئے ایک جگہ سے ایسی پر کشش آواز سنائی دی جس نے ان کی دلی توجہ حاصل کی اور انہیں کشش اور سکون محسوس ہونے لگا، مگر یہ پتہ نہ چلا کہ زبان کون سی ہے اور کلام کیا ہے ؟ دو تین روز وہ تلاش کرکے یہ آواز سنتی رہیں جس سے انہیں روحانی سکون ملتا تھا۔ پھر کوشش کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ مراکش ریڈیو ہے اور اس سے مسلمانوں کی مقدس کتاب”قرآن کریم“ کی تلاوت ہوتی ہے۔ چند روز وہ سنتی رہیں، پھر قرآن کریم کا انگلش ترجمہ حاصل کر کے اس کا مطالعہ شروع کر دیا، مگر خیال ہوا کہ اس کتاب کو اس کی اصل زبان میں اسٹڈی کرنا چاہیے، چنانچہ انہوں نے عربی زبان کا باقاعدہ کورس کیا اور اس کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو قرآن کریم نے انہیں مسلمان بنا دیا۔

مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اسلامی تعلیمات کی طرف توجہ دی، ان کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیاد ہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے متاثر کیا۔ انہوں نے شاہ صاحبؒ کی تعلیمات پر کام شروع کیا اور انہی پر سین ڈیگو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ محترمہ ایم کے ہر مینسن کی اپنی زبان انگلش ہے مگر انہیں عربی، فارسی،اردو اور سنسکرت پر بھی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے سین ڈیگو یونیورسٹی میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کے فروغ کے لیے ”شاہ ولی اللہ چیئر“ قائم کر رکھی ہے جس کی وہ چیئر پرسن ہیں اور انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ کا انگلش ترجمہ بھی کیا ہے جو چھپ چکا ہے۔

محترمہ نے ماہنامہ الشریعہ میں اشاعت کے لیے حضرت شاہ ولی اللہؒ پر لکھے گئے اپنے چند مضامین بھی دیے جو ہم نے ترجمہ کے لیے اپنے محترم دوست حافظ مقصود صاحب آف شیخوپورہ کے سپرد کیے، انہوں نے ایک مضمون کا ترجمہ کیا جو الشریعہ میں چھپ گیا مگر اس کے بعد ان کی وفات ہو گئی اور ان کے کاغذات میں باقی مضامین نہ مل سکے۔

ڈاکٹر ایم کے ہر مینسن سے حضرت صوفی صاحبؒ نے ایک سوال اور کیا کہ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ منافقت بہت زیادہ ہے، قول اور عمل میں تضاد ہے اور اسلام کے احکام پر عمل کی فضا موجود نہیں ہے، اس لیے مسلمانوں کی عمومی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب سے اسلام کے حوالہ سے بات کرنے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا فلسفہ و اسلوب سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں عقل و فکر بھی ہے اور روحانی سکون کا سامان بھی موجود ہے، اس لیے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے علوم پر کام ہونا چاہیے اور ان کی زبان و اسلوب میں مغرب کو اسلام کی دعوت دینی چاہیے۔
حضرت صوفی صاحبؒ نے مہمان خاتون کے قبول اسلام،اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے ان کی محنت اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فلسفہ و فکر پر ان کی جدو جہد کو سراہا اور ان کے لیے استقامت و ترقی کی دعا فرمائی۔

   
2016ء سے
Flag Counter