سردار محمد عبد القیوم خان

   
مجلہ: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۶ نومبر ۲۰۰۵ء

سردار محمد عبد القیوم خان کے ساتھ میری علیک سلیک اس دور سے ہے جب وہ ممتاز کشمیری لیڈر چودھری غلام عباس خان مرحوم کے رفیق کار کی حیثیت سے کشمیری سیاست میں آگے بڑھ رہے تھے۔ میری جماعتی زندگی (جمعیۃ علماء اسلام) کا ابتدائی دور تھا اور ان کا عنفوان شباب تھا۔ گوجرانوالہ میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے سرگرم راہ نما مولانا عبد العزیز راجوروی مرحوم ہمارے ساتھ دینی تحریکات میں متحرک رہتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ اکٹھے جیل بھی گزاری ہے، بڑے زندہ دل اور دلیر سیاسی راہ نما تھے۔ سردار عبد القیوم خان جب جماعتی مصروفیات میں گوجرانوالہ آتے تو مولانا راجوروی مرحوم کی وساطت سے ان سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ پھر سردار صاحب نے ”المجاہد فورس“ کے نام سے کشمیری نوجوانوں کو آزادیٔ کشمیر کے لیے منظم کرنے کا کام شروع کر دیا تو ان کی تگ وتاز کے مختلف مراحل ذہن میں ابھی تک تازہ ہیں۔ غالباً ۱۹۶۷ءکی بات ہے، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے لاہور کے باغ بیرون دہلی دروازہ میں اپنی ملک گیر ”آئین شریعت کانفرنس“ میں خطاب کے لیے انہیں مدعو کیا۔ میں اس کانفرنس کے کارکنوں میں سے تھا اس لیے وہ منظر بھی ذہن کے نہاں خانے میں محفوظ ہے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی موجودگی میں انہوں نے ہزاروں علماءکرام کے ملک گیر اجتماع سے خطاب کیا تھا۔

سردار محمد عبد القیوم خان اقتدار میں آئے تو ان کے دو اقدامات کی وجہ سے ان کے ساتھ تعلق خاطر میں اضافہ ہوا۔

  • ایک یہ کہ اس دور میں جب پاکستان میں قادیانیوں کا نام لے کر کسی جلسے میں ان پر تنقید کرنے سے مقدمات اور داروگیر کا سلسلہ شروع ہو جایا کرتا تھا، آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد باغ سے آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن میجر (ر) محمد ایوب خان نے پیش کی تھی جو بعد میں آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے اور حالیہ زلزلے کے دوران شہید ہو گئے ہیں۔ مگر ان کی پشت پر ان کے پارٹی لیڈر سردار عبد القیوم خان تھے جنہوں نے اس تحریک کی پشت پناہی کی اور اس پر ملکی و غیر ملکی دباؤ کا سامنا کیا۔
  • ان کا دوسرا اقدام آزاد کشمیر میں ضلعی سطح پر افتاءاور قضاءکا نظام ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے ضلعی سطح پر مشترکہ عدالتی نظام وضع کیا جس کے تحت سیشن جج اور ضلع قاضی اکٹھے بیٹھ کر مقدمات سنتے ہیں اور شریعت سے متعلق معاملات میں مشترکہ فیصلے کرتے ہیں۔ شرعی قوانین دستوری طور پر پاکستان میں بھی نافذ ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے مناسب عدالتی نظام مہیا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اسلامی قوانین کا نفاذ ہمارے ہاں صرف کاغذوں، قراردادوں اور پروپیگنڈے تک محدود ہے، مگر آزاد کشمیر میں اسلامی قوانین کے لیے مذکورہ بالا صورت میں ایک عدالتی نظام فراہم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر بہت سے شرعی قوانین کے تحت فیصلے ہوتے ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔

برطانوی دور کے یادگار نوآبادیاتی عدالتی نظام کے ساتھ شرعی قضاءکے نظام کو منسلک کرنے اور سیشن جج صاحبان کے ساتھ ساتھ علماء کرام کو قاضی کے طور پر اکٹھا بٹھانے میں انہیں جس دباؤ اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا میں ان سے آگاہ ہوں، اس لیے تمام تر تحفظات کے باوجود یہ کہا کرتا ہوں کہ آزاد کشمیر کے عدالتی سسٹم میں تحصیل اور ضلع کی سطح پر یہ نظام اگر قائم ہوا ہے اور کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے تو اس کے پیچھے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم اور ان کے ساتھ بالغ نظر علماء کرام کی ٹیم کی فراست کے ساتھ ساتھ سردار محمد عبد القیوم خان اور آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی قیادت کے حوصلے اور جرأت کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور اسلامائزیشن کی جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر اسے نظر انداز کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔

پاکستان قومی اتحاد کے دور میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے، وہ قومی اتحاد کے نو ستاروں میں سے تھے اور میں پنجاب قومی اتحاد کا سیکرٹری جنرل تھا۔ کئی برس تک یہ رفاقت قائم رہی اور تعلقات میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سردار محمد عبد القیوم خان کی سیاست سے مجھے کوئی سروکار نہیں کہ وہ بہرحال ایک سیاست دان ہیں اور ہمارے ملک کی معروضی سیاست کے سمندر میں انہیں بھی وہ غوطے لگانے پڑتے رہے ہیں جو اب ہمارے سیاست دانوں کی علامت اور پہچان بن گئے ہیں۔ ان کے سیاسی طرز عمل کے بہت سے پہلوؤں سے مجھے اتفاق نہیں ہے اور آزاد کشمیر کے کئی کھلے جلسوں میں اس حوالے سے میں نے ان پر متعدد بار تنقید بھی کی ہے، لیکن ان کی دو باتوں سے بہرحال میں متاثر ہوں اور ان کے اظہار میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔

  1. ایک یہ کہ اسلام، پاکستان اور آزادیٔ کشمیر کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ بے لچک ہے اور ان میں سے کسی مسئلے پر ان کے رویے میں ناروا نرمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
  2. اور دوسری بات یہ کہ وہ صاحب مطالعہ اور باخبر سیاست دان ہیں اور ان معدودے چند قومی راہ نماؤں میں سے ہیں جو کسی متعلقہ مسئلے پر بریفنگ لینے کی بجائے اکثر اوقات بریفنگ دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
   
Flag Counter