سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی مذہبی سرگرمیاں / لاہور میں ایک چرچ کا انہدام

   
تاریخ اشاعت: 
۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء

عید الاضحیٰ اور کرسمس دونوں گزر گئی ہیں، مسلمان اور مسیحی دنیا بھر میں اپنی اپنی عید سے فارغ ہو کر معمول کی مصروفیات میں مگن ہو گئے ہیں البتہ پاکستان کے مسلمانوں کو عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کے بعد ایک بہت بڑی انسانی قربانی کا سامنا بھی کرنا پڑ گیا ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے جاں نثاروں کی المناک موت کی صورت میں پوری قوم کو سوگوار کر گئی ہے۔ پاکستانی قوم ابھی تک اپنے معمول کی سرگرمیوں کی طرف واپس نہیں لوٹ سکی۔

کرسمس مسیحی دنیا کا قومی دن ہے جو سیدنا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے یوم ولادت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال اس موقع پر دو نئی خبریں سننے کو ملی ہیں۔ ایک یہ کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مسیحیت کے پروٹسٹنٹ فرقے کو چھوڑ کر کیتھولک فرقے میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور اس کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ اے پی پی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مسٹر ٹونی بلیئر کی اہلیہ چیری کا تعلق پہلے ہی کیتھولک فرقے سے ہے جبکہ برطانیہ کے کیتھولک آرچ بشپ کارڈینیل کومک مرفی کی قیادت میں ہونے والی ایک تقریب میں مسٹر ٹونی بلیئر نے بھی رومن کیتھولک عقائد اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے قبل وہ پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ تھے جس کی سربراہ ملکہ برطانیہ ہیں۔

چند روز پہلے بی بی سی ون نے ایک نشریے میں بتایا تھا کہ مسٹر ٹونی بلیئر کے بقول وہ اپنے دور حکومت کے دوران اپنے مذہبی خیالات کے اظہار سے اس لیے گریز کرتے رہے ہیں کہ کہیں ان پر خبطی ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہوئے مذہب میرے لیے اہم اور نازک معاملہ تھا اور اس ذمہ داری کو نباہنے میں میرے عقیدے کی بہت اہمیت تھی۔ بلیئر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دیگر ممالک میں سیاسی رہنماؤں کا مذہب کے بارے میں بات کرنا ایک عام سی بات ہے لیکن ہمارے نظام میں اگر آپ اس بارے میں بات کریں تو لوگ آپ کو خطبی سمجھتے ہیں۔

مسٹر ٹونی بلیئر کے سابق ترجمان الیسٹر کیمپ بل نے ایک مرتبہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم خدا پر یقین نہیں رکھتے۔‘‘ مسٹر بلیئر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ترجمان نے یہ بات اس لیے نہیں کی تھی کہ ان کے عقائد کی مخالفت کی جائے بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ مذہب کے بارے میں بات کر کے آپ کئی مرتبہ پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ الیسٹر کیمپ بل نے یہ بھی بتایا ہے کہ مسٹر ٹونی بلیئر جہاں بھی جاتے ہر اتوار کو چرچ کا پتہ کرا کے وہاں ضرور جایا کرتے تھے، اپنے ساتھ بائبل رکھتے تھے جس کا وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے مطالعہ کرتے تھے۔

مسٹر ٹونی بلیئر کی طرف سے ان کے حکومت سے الگ ہونے کے بعد خبر آئی تھی کہ وہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے حوالے سے دنیا بھر میں کام کو منظم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس کے لیے لندن میں ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ہم نے اس کالم میں مسٹر ٹونی بلیئر کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا تھا مگر یہ سوال ہمارے ذہن میں موجود تھا کہ پروٹسٹ فرقے اور چرچ آف انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک سیکولر سیاستدان کو مکالمہ بین المذاہب سے آخر کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ٹونی بلیئر کے تازہ اقدام اور اعلان سے ہمارا وہ اشکال دور ہوگیا ہے اور ان کی آئندہ مذہبی سرگرمیوں کا نقشہ کچھ نہ کچھ واضح ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔

کرسمس کے موقع پر دوسری اہم خبر لاہور کے گارڈن ٹاؤن میں ایک مسیحی چرچ کے انہدام اور مبینہ طور پر ایک قبضہ گروپ کی طرف سے اسے زبردستی کمرشل پلاٹ کی شکل دینے کی ہے جس کے بارے میں لاہور چرچ کونسل کے سیکرٹری مشتاق سجیل بھٹی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ گارڈن ٹاؤن لاہور کے ابوبکر بلاک میں ’’چرچ آف کرائسٹ‘‘ کے نام سے مسیحیوں کی یہ عبادت گاہ ۱۹۶۳ء میں قائم ہوئی تھی جس کے تمام کاغذات ان کے بقول ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن ۲۰۰۱ء میں کچھ با اثر افراد نے مبینہ طور پر جعلی دستاویزات کے ذریعے اس پر دعویٰ جتا دیا اور اس کا مقدمہ عدالت میں زیرسماعت ہے جس پر عدالت نے حکم امتناعی بھی دے رکھا ہے۔ مشتاق سجیل بھٹی کے بقول دسمبر کی گیارہ تاریخ کو پندرہ افراد نے چرچ کی عمارت پر زبردستی قبضہ کر لیا اور اس کے اندر موجود پادری انور کمال اور پادری بشیر کمال کو دو چوکیداروں مختار مسیح اور شرف مسیح سمیت وہاں سے جبرًا نکال دیا گیا جس کی ایف آئی آر تھانہ گارڈن ٹاؤن پولیس میں درج کرا دی گئی۔ مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ ۱۶ دسمبر کو ان قابضین نے چرچ کی بلڈنگ کو مسمار کر کے اسے کمرشل پلاٹ کی شکل دے دی ہے اور اس میں خام تعمیراتی سامان کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق مسیحی حضرات نے کرسمس سے ایک روز قبل اس سلسلہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جبکہ ایک اخباری انٹرویو میں ایس پی ماڈل ٹاؤن عمران احمد نے تسلیم کیا ہے کہ اس جگہ کا تنازعہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور چرچ پر قبضے کی ایف آئی آر پر انکوائری کی جا رہی ہے۔ لاہور چرچ کونسل کے سیکرٹری کی پریس کانفرنس میں بتایا گیا ہے کہ قبضے اور چرچ کو گرائے جانے کے دوران بائبل اور صلیب کی توہین بھی کی گئی ہے۔

واقعات کی ترتیب اور صورتحال اگر فی الواقع یہی ہے جو ان اخباری خبروں سے ظاہر ہو رہی ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہے اور صرف قانونی حوالے سے ہی نہیں بلکہ مذہبی حوالے سے بھی سخت تکلیف کا باعث ہے۔ اس لیے کسی عمارت پر زبردستی قبضہ کر کے اسے گرا دینا جبکہ اس کا کیس عدالت میں زیرسماعت ہو اور حکم امتناعی بھی موجود ہو، بہت بڑا ظلم اور دھونس کا عمل ہے۔ اور اگر یہ عمارت چرچ کی ہو اور مبینہ طور پر ۱۹۶۳ء سے اس میں عبادت ہوتی آرہی ہو تو یہ کاروائی اور زیادہ سنگین ہو جاتی ہے اس لیے کہ اسلام نے مسلم ریاست میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو ان کے مذہب اور عبادت گاہوں کے بارے میں تحفظ فراہم کر رکھا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے اس قسم کی کاروائی کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔

امام ابویوسف نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھا ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں جب مشہور شہر ’’حیرہ‘‘ فتح ہوا تو فاتح حضرت خالد بن ولیدؓ تھے۔ ان کی طرف سے مفتوحہ شہر والوں کو جو ضمانت تحریری طور پر فراہم کی گئی اس میں درج تھا کہ ان کے گرجے اور خانقاہیں مسمار نہیں کیے جائیں گے، انہیں اپنی عبادت کے گھنٹے بجانے سے نہیں روکا جائے گا اور انہیں ان کی عید کے دن صلیب لے کر باہر نکلنے سے نہیں روکا جائے گا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں جب مصر فتح ہوا تو فاتح مصر حضرت عمرو بن العاصؓ نے امیر المومنین کے حکم پر نہ صرف مسیحیوں کے گرجوں کو برقرار رکھا تھا بلکہ ان کے اوقاف اور جائیدادوں کو بھی تحفظ دیا تھا۔

’’فتوح البلدان‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دور حکومت میں دمشق کی جامع مسجد کے ساتھ ایک گرجے کو مسجد میں شامل کرنا چاہا تو اس کے لیے مسیحیوں سے اجازت طلب کی اور جب انہوں نے اجازت نہ دی تو حضرت معاویہؓ نے یہ پروگرام ترک کر دیا تھا۔

عباسی خلیفہ ہادی کے دور میں مصر کے گورنر علی بن سلیمان نے حضرت مریم علیہا السلام کے نام سے موسوم ایک چرچ کو دوسرے گرجوں کے ساتھ گرا دیا تھا۔ مگر ہارون الرشید کے خلیفہ بننے کے بعد اس دور کے گورنر مصر موسیٰ بن عیسیٰ نے علماء کرام سے اس کے بارے میں استفسار کیا، اس وقت کے دو بڑے محدث اور فقیہہ علماء کرام لیث بن سعدؒ اور عبد اللہ بن لہیعہ نے یہ گرجے دوبارہ تعمیر کرنے کا فتویٰ دیا اور گورنر مصر نے یہ سارے گرجے دوبارہ تعمیر کرا دیے۔ اسی طرح دمشق کا ایک گرجا ایک با اثر خاندان بنو نصر نے اپنے قبضے میں کر رکھا تھا جسے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے امیر المومنین بننے کے بعد ان سے چھین کر دوبارہ مسیحیوں کو دے دیا۔

حضرت عثمان بن عفانؒ کے دور خلافت میں ’’مرو‘‘ کے بطریق (مسیحی مذہبی رہنما) نے ایران کے اسقفِ اعظم کو اپنے علاقے کے بارے میں جو رپورٹ بھجوائی اس میں یہ درج تھا کہ

’’عرب جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت دنیا کی بادشاہت دی ہے عیسائی مذہب پر حملہ نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس وہ ہمارے مذہب کی امداد کرتے ہیں، ہمارے پادریوں اور خداوند کے مقدسوں کی عزت کرتے ہیں اور گرجاؤں اور خانقاہوں کے لیے عطیے دیتے ہیں‘‘۔

جبکہ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب نجران کے مسیحیوں کے ساتھ معاہدہ ہوا تو اس میں درج تھا کہ

’’ان کے اموال و املاک، ان کی زمین و جائیداد، ان کے حقوق، مذہب و ملت، ان کے پادری اور راہب، ان کے خاندان اور ان کے پیروکاروں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، نہ ان کے گرجے ڈھائے جائں گے، نہ ان کے پادری نکالے جائیں گے اور نہ ان کو مذہب سے برگشتہ کیا جائے گا۔‘‘

یہ الگ بات ہے کہ اگر مسیحی حضرات خود کسی چرچ کو بیچ دیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے جیسا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے برطانیہ میں سینکڑوں چرچ فروخت ہو کر مسجدوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لندن کے اسٹاک ویل کے علاقے میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا مرکز ایک خرید کردہ چرچ میں ہے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے شہر برنلی میں میرے بھانجے مولانا عزیز الحق ہزاروی نے ایک بڑا چرچ خرید کر وہاں مسجد و مدرسہ قائم کیا ہے جس کے افتتاح کی سعادت مجھے حاصل ہوئی تھی۔

کافی عرصہ ہوا ہمارے ہاں گوجرانوالہ کے بازار میں جہاں میری رہائش ہے ایک چرچ ہوا کرتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ اسی بازار کے ایک با اثر بزرگ نے اس چرچ کی جگہ نئی تعمیر شروع کر دی، مجھے تعجب ہوا اور میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ انہوں نے باقاعدہ خریدی ہے اور اب وہ ان کی ملکیت ہے۔ اس پر شہر میں کسی طرف سے کوئی احتجاج بھی نہ ہوا جس سے بظاہر ان صاحب کی بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس لیے اگر مسیحی حضرات اپنی مرضی سے کسی چرچ سے دستبردار ہو جائیں یا اسے فروخت کر دیں (جس کی ہمارے ہاں مساجد کے حوالے سے شرعاً گنجائش نہیں ہے) تو بات الگ ہے۔ لیکن کسی چرچ پر زبردستی قبضہ کر کے اسے گرا دینا اور کمرشل پلاٹ بنا کر فروخت کرنا قطعی پر ناجائز اور شرعاً حرام ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسیحی کمیونٹی کے ساتھ مبینہ طور پر ہونے والی اس نا انصافی کی تلافی کرے اور چرچ کو ان کی مرضی کے خلاف کمرشل بلڈنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے فوری اور مؤثر قدم اٹھائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter