۳۳ دن کی اسیری اور فوجی عدالت میں مولانا محمد اجمل خان کا نعرۂ حق

   
تاریخ : 
۲۴ جون ۱۹۷۷ء

۵ مئی کو راقم الحروف قومی اتحاد کے صوبائی صدر جناب حمزہ اور جناب رانا نذر الرحمان کے ہمراہ راولپنڈی میں ڈویژن کے دورہ پر تھا کہ گجرات میں چودھری ظہور الٰہی صاحب کی قیام گاہ پر مقامی راہنماؤں سے گفتگو کے دوران اچانک روزنامہ وفاق کی اس خبر پر نظر پڑی کہ قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کا اجلاس اسی روز ۲ بجے مسلم لیگ ہاؤس لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔ دورہ مختصر کر کے ہم بھاگم بھاگ لاہور پہنچےمسلم لیگ ہاؤس پہنچنے سے پہلے حمزہ صاحب اور رانا صاحب تھوڑی دیر کے لیے ایمبسڈر ہوٹل رکے اور راقم الحروف ان سے چند منٹ پہلے مسلم لیگ ہاؤس پہنچ گیا۔ قومی اتحاد کے میٹنگ روم میں مرکزی کونسل کے بیشتر ارکان اس وقت جمع تھے اور غالباً قائم مقام صدر جناب سردار سکندر حیات کا انتظار ہو رہا تھا۔ ابھی میٹنگ روم میں اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ پولیس کی آمد اور مسلم لیگ ہاؤس کے محاصرہ کی اطلاع ملی، چند لمحوں کے بعد تھانہ سول لائن کے انچارج انسپکٹر بیگ اپنے دیگر رفقاء اور پولیس کے نوجوانوں کے ہمراہ میٹنگ روم میں داخل ہوئے اور وہاں موجود حضرات سے کہا کہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ میاں محمود علی قصوری نے جو اس وقت قومی اتحاد کے قائم مقام سیکرٹری جنرل تھے انسپکٹر سے دریافت کیا کہ ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے؟ انسپکٹر نے جواب دیا کہ آپ لوگوں کے خلاف تھانہ سول لائن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اس کے تحت آپ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔

میاں صاحب نے اصرار کیا کہ ہمیں ایف آئی آر دکھائی جائے، گرفتاری کے وارنٹ دکھائے جائیں اور ان لوگوں کے نام بتائے جائیں جنہیں اس مقدمہ کے سلسلہ میں گرفتار کرنا مقصود ہے تاکہ ہم میں سے وہ لوگ آپ کے ساتھ چلیں۔ اس پر کافی بحث ہوئی لیکن انسپکٹر صاحب مقدمہ نمبر کے سوا اور کچھ نہ بتا سکے۔ اس موقع پر میاں صاحب نے انسپکٹر سے پوچھا کہ آپ جو ہمیں گرفتار کر رہے ہیں کیا آپ ہم سب کو یا ہم میں سے کسی کو پہچانتے بھی ہیں؟ انسپکڑ نے جواب دیا، ہاں آپ کو جانتا ہوں اور حاضرین میں سے علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب کو جانتا ہوں۔ جبکہ علامہ صاحب وہاں موجود نہ تھے اور انسپکٹر کا اشارہ ملک محمد اکبر خان ساقی صاحب کی طرف تھا جنہیں وہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی حیثیت سے اچھی طرح پہچاننے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ کافی ردوکد اور بحث و جرح کے بعد سب حضرات نے گرفتار ہونے کا فیصلہ کیا اور میٹنگ روم میں موجود ۲۴ افراد پولیس کی حراست میں باہر نکلے۔

باہر آکر پتہ چلا کہ مسلم لیگ ہاؤس کے احاطہ میں موجود تمام افراد کو ہم سے پہلے گرفتار کیا جا چکا ہے بلکہ مسلم لیگ ہاؤس کے سامنے ڈیوس روڈ پر گزرنے والے متعدد افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے جن میں چند سرکاری ملازم، مسلم لیگ کے دفتر کے ملازم اور گاڑیوں کے ڈرائیور بھی شامل تھے۔ مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری رانا محمد اشرف اور شعبہ مالیات کے انچارج جناب سید مقصود شاہ اپنے اپنے دفاتر میں کام کر رہے تھے کہ انہیں بھی ان کے دفاتر میں موجود دیگر افراد سمیت دھر لیا گیا۔ پولیس نے مسلم لیگ اور قومی اتحاد کے مرکزی دفاتر کا ریکارڈ قبضہ میں لے لیا اور سید مقصود شاہ کے مطابق ۵۵ ہزار روپے کی رقم بھی ان سے لے لی جس کا اب تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ ہمارے میٹنگ روم سے باہر نکلنے تک باہر کا پولیس آپریشن مکمل ہو چکا تھا اور ہمارے علاوہ ۳۱ افراد کو ایک پولیس وین میں سوار کر کے روانہ کیا جا چکا تھا۔ ان کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ انہیں تھانہ مناواں بھیجا گیا ہے اور اس دلچسپ واقعہ کا انکشاف بھی ہوا کہ راستہ میں پولیس وین کا عقبی گیٹ کھلا ہونے کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہونے پر چند افراد وین سے اتر گئے اور پیچھے آنے والی پولیس وین میں سوار پولیس نوجوانوں نے یہ دیکھ کر ’’نگ‘‘ پورے کرنے کے لیے چند راہ گیروں کو زبردستی وین میں بٹھا دیا جن میں ایک سرکاری ملازم جناب اسلم علی شاہ صاحب بھی ہیں جو گلوب سینما کے قریب ایک میڈیکل سٹور سے باہر کھڑے تھے کہ پولیس کے ’’بہادر نوجوانوں‘‘ نے انہیں گریبان اور بازوؤں سے پکڑا اور وین کے دروازے کے اندر دھکیل دیا۔

ہم ۲۴ افراد کو پولیس کی دوسری وین میں بٹھایا گیا جس کے پیچھے پولیس کی ایک اور وین تھی۔ دونوں وینیں ’’حازم سفر‘‘ ہوئیں تو راستہ میں ’’منزل مقصود‘‘ کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ بالآخر مختلف سڑکوں کے چکر کاٹتے ہوئے وین تھانہ چوہنگ کے گیٹ پر جا کھڑی ہوئی اور ہمیں اتار کر تھانہ میں لے جایا گیا۔ تھانہ چوہنگ کے انچارج سب انسپکٹر امان اللہ خان نے پہلے سے اطلاع ملنے پر ہمارے وہاں قیام کا انتظام کر رکھا تھا اور اپنے فرائض و اختیارات کے دائرہ میں انہوں نے ہمارے ساتھ انتہائی شریفانہ برتاؤ کیا۔ پولیس کے مخصوص طرز عمل کے پس منظر میں امان اللہ خان موصوف کا شریفانہ برتاؤ ایک خوشگوار یاد کی صورت میں ہمیشہ دلوں میں تازہ رہے گا۔ تھانہ مناواں میں جن دوستوں کو لے جایا گیا ان کے مطابق وہاں پولیس انچارج کا رویہ بھی معقول اور شریفانہ تھا۔ ہمیں تھانہ کے احاطہ میں بٹھایا گیا، تھوڑی دیر کے بعد ریس کورس گراؤنڈ پولیس چوکی کے انچارج سب انسپکٹر علی محمد ڈوگر آئے اور تفتیشی افسر کی حیثیت سے ہمارے نام پتے دریافت کرنا شروع کیے لیکن میاں محمود علی قصوری اور دیگر تمام افراد نے نام، ولدیت اور پتے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ میاں صاحب نے سب انسپکٹر سے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں گرفتار کیا ہے اور ہمارے خلاف مقدمہ درج کیا ہے آپ کو ہمارے نام، ولدیت اور پتے اصولاً پہلے سے معلوم ہونے چاہئیں، آپ نے جو نام ایف آئی آر میں لکھے ہیں ٹھیک ہیں ہم اپنے نام اور پتے نہیں بتائیں گے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر والا لطیفہ یہاں بھی دہرایا گیا جب سب انسپکٹر علی محمد ڈوگر نے میاں صاحب سے کہا کہ آپ کو بھی جانتا ہوں، حبیب جالب صاحب کو بھی جانتا ہوں اور علامہ احسان الٰہی ظہیر صاحب کو بھی جانتا ہوں۔ اس وقت بھی سب انسپکٹر کی انگلی کا اشارہ ملک محمد اکبر خان ساقی کی طرف تھا۔ کافی حیلوں بہانوں کے باوجود جب ہم نے نام وغیرہ بتانے سے انکار کر دیا تو سی آئی ڈی کے ایک افسر کو بلایا گیا جن کا نام غالباً سعید فاروقی ہے اور جنرل بلقیس اختر رانی کے ساتھ ان کا کچھ رشتہ بھی بتایا جاتا ہے۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کے چہرے شناخت کر کے ان کے نام لکھوائے لیکن چار افراد پھر بھی ایسے رہ گئے جن کے نام انہیں معلوم نہ ہو سکے۔

تحریک استقلال کے ریٹائرڈ میجر سردار خان کو پولیس کے ریکارڈ میں میجر اسحاق قرار دیا گیا اور ملٹری کورٹ میں جرح کے دوران بھی سب انسپکٹر نے انہیں میجر اسحاق کے نام سے پکارا۔ مسلم لیگ کے زبیر احمد بٹ اور پی ڈی پی کے جناب عبد الرشید قریشی ایڈووکیٹ کے لیے تو انہیں کافی پریشانی اٹھانا پڑی ۔بالآخر جب مختلف اسیروں کے رشتہ دار معلوم ہونے پر گھروں سے ملاقات کے لیے آنے لگے تو ان کی زبانی پولیس نے نام وغیرہ معلوم کر لیے۔ بلکہ قریشی صاحب کا نام تو انہیں معلوم ہی نہ ہوتا اگر اچانک ان کے شہر ہارون آباد کا ایک پولیس کانسٹیبل کسی کام سے تھانہ چوہنگ نہ آجاتا، اس کے آنے سے ان کی مشکل حل ہوئی اور اس طرح ایف آئی آر میں ملزموں کے نام بمشکل تمام درج ہو سکے۔ لیکن یہ تو صرف نام تھے، ولدیت اور پتہ کے خانے بدستور خالی رہے۔

۶ مئی کو جمعہ کی نماز مولانا محمد اجمل خان صاحب نے تھانہ چوہنگ کی مسجد میں پڑھائی اور اس کے بعد کرفیو کے دوران ہمیں تھانہ چوہنگ سے نکالا گیا۔ تھانہ سول لائن پہنچے تو تھانہ مناواں والے ۳۱ ساتھی بھی لائے جا چکے تھے۔ وہاں سے ہمیں اکٹھا گلبرگ میں مجسٹریٹ شوکت صاحب کی کوٹھی پر لے جایا گیا۔ مجسٹریٹ صاحب ریمانڈ دینے کے لیے کوٹھی سے باہر تشریف لائے تو میاں محمود علی قصوری صاحب نے ان سے کہا کہ ہمارا یہ قانونی حق ہے کہ ریمانڈ دیتے وقت ہمیں وکیل دوستوں کی موجودگی کی سہولت فراہم کی جائے۔ مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ کرفیو کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس پر میاں صاحب نے کہا کہ پھر آپ صرف کل تک ریمانڈ دیں اور کل ہمیں عدالت میں طلب کریں۔ مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں کل آپ کو بلاتا ہوں۔ میاں صاحب نے مجسٹریٹ سے کہا کہ ہم لوگ قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کے ارکان اور اپنی اپنی جماعتوں کے عہدہ دار ہیں اور ان میں بہت سے وکلاء بھی ہیں اس لیے ریمانڈ کے ساتھ ہمیں جیل میں اے کلاس کی سہولت دینے کا آرڈر بھی جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں سب کے لیے بی کلاس لکھ رہا ہوں۔ میاں صاحب کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ میں سب کے لیے اے کلاس کر دیتا ہوں۔ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ آپ جو فیصلہ لکھیں وہ ہمیں سنا کر جائیں۔

اس کے بعد مجسٹریٹ صاحب وہاں سے چلے گئے اور ہمیں کیمپ جیل پہنچا دیا گیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ صاحب نے ۱۶ مئی تک دس دن کا ریمانڈ دیا ہے اور میاں محمود علی قصوری سمیت صرف تین وکلاء (باقی دو وکلاء کا نام لیے بغیر) کے لیے اے کلاس لکھی ہے اور باقی سب کے لیے سی کلاس کا حکم ہے۔ جیل حکام کو مجسٹریٹ کے زبانی احکام سے آگاہ کیا گیا لیکن وہ سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ ۵۵ افراد کے اس قافلہ میں ایک درجن کے قریب وکیل ہیں اور باقی لوگ بھی سیاسی پارٹیوں کے ذمہ دار کارکن اور شریف شہری ہیں، جیل حکام نے اس سلسلہ میں حکام بالا سے بھی رابطہ قائم کیا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ بالآخر باہمی مشورہ سے طے پایا کہ میاں محمود علی قصوری صاحب، راجہ محمد افضل صاحب اور عبد الرشید قریشی صاحب کو اے کلاس بھیج دیا جائے اور باقی حضرات سی کلاس میں رہیں۔ جناب اصغر محمود ایڈووکیٹ کے سوا باقی وکلاء کو بھی تیسرے روز ہائی کورٹ کے حکم پر اے کلاس کی سہولت دے کر کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ مرکزی کونسل کے باقی ۱۴ ارکان کو بعد میں ملٹری کورٹ کی ہدایت پر کیمپ جیل میں بی کلاس دے دی گئی۔

اس وقت تک ہمارے علم میں یہ تھا کہ ہم پر تھانہ سول لائن میں ڈی پی آر کی دفعہ ۴۹/۹۲ کے تحت مقدمہ ۲۱۷/۷۷ درج کیا گیا تھا۔ لیکن سات مئی کو مغرب کے بعد ۳۹ کیبلری کے لیفٹیننٹ کرنل نصیر احمد کیمپ جیل آئے اور ان سے پتہ چلا کہ ہم پر آرمی ایکٹ کی دفعہ ۵۹ بھی عائد کی گئی ہے اور وہ مارشل لاء احکام کے مطابق سمری ملٹری کورٹ کی حیثیت سے ہمارے خلاف مقدمہ کی سماعت کریں گے۔ لیفٹیننٹ کرنل کی آمد تک مقدمہ کے ریکارڈ میں ہمارے صرف نام تھے، ولدیت اور پتہ کے خانے خالی تھے۔ موصوف نے ملٹری کورٹ کی طرف سے ہمارے ریمانڈ کی توثیق کی اور ہم سب کے نام، ولدیت اور پتے نوٹ کیے۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۵۵ افراد کے گروپ میں غلام رسول نامی ایک صاحب کو جیل حکام نے وجہ بتلائے بغیر رہا کر دیا جس کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہو سکی اس کے بعد ہم ۵۴ افراد رہ گئے۔

لیفٹیننٹ کرنل دوسرے روز پھر جیل آئے اور ملٹری اتھارٹی کی طرف سے ہم ۵۴ افراد کو چارج شیٹ دی کہ ہم نے مسلم لیگ ہاؤس میں ایک غیر قانونی میٹنگ میں شریک ہو کر مارشل لاء احکام کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم پر اس الزام میں سمری ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ۱۱ مئی کو کیمپ جیل کے ساتھ ملحقہ جیل ملازمین کے تربیتی سکول میں سمری ملٹری کورٹ کی کاروائی کا آغاز ہوا جو ۳ جون تک جاری رہی۔ لیفٹیننٹ کرنل وقار نصیر احمد کاروائی کی سماعت کرتے تھے اور ان کے ساتھ کیپٹن آصف، کیپٹن داؤد اور کبھی کبھار میجر ریاض شیخ بھی آتے رہے۔ پہلے روز عدالت نے حلف اٹھایا کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری کے ساتھ ضمیر اور انصاف کے فیصلہ کے مطابق ادا کرے گی۔ اس کے بعد ہمیں چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی، ہم سب نے متفقہ طور پر اس کا جواب دیا کہ ’’ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر جناب عامر رضا خان اور معروف قانون دان ایم انور بارایٹ لاء ہمارے قانونی مشیر کی حیثیت سے عدالت میں موجود تھے، انہوں نے کسی قانونی نکتہ پر کچھ کہنا چاہا تو لیفٹیننٹ کرنل صاحب نے مخصوص فوجی انداز میں انہیں روک دیا۔ اس سے قبل موصوف چارج شیٹ سنانے کے دوران ’’تم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ تم لوگوں نے ۔ ۔ ۔ ‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے کافی گھن گرج کا مظاہرہ کر چکے تھے اور جیل کے گیٹ سے عدالت کے دروازے تک فوجی جوانوں اور سنگینوں کی قطار مشاہدہ میں آچکی تھی۔ چنانچہ میاں محمود علی قصوری صاحب اٹھے اور اپنے مخصوص مرعوب کن لہجے میں عدالت کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سے پہلے بھی ملٹری کورٹس میں متعدد بار پیش ہو چکے ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے عمر گزر گئی ہے لیکن کسی جگہ بھی اس طرح ’’تم تم‘‘ کی زبان میں ہمیں مخاطب نہیں کیا گیا جس طرح آج کیا گیا ہے اور نہ ہی اس طرح کبھی ہمارے معزز قانون دانوں کی توہین کی گئی ہے۔ میاں صاحب نے عدالت سے کہا کہ اگر ہم سے شریفانہ زبان میں بات کی جائے گی تو جواب بھی شریفانہ ملے گا لیکن غیر شریفانہ زبان استعمال کی گئی تو ہم بھی اسی زبان میں جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔ میاں صاحب نے ایم انور بارایٹ لاء اور جناب عامر رضا خان کے ساتھ عدالت کے توہین آمیز سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عدالت ان سے معافی مانگے۔

یہ تھی وہ فضا جس میں سمری ملٹری کورٹ کی کاروائی کا آغاز ہوا۔ اگرچہ بعد میں عدالت میں متعدد اقدامات کے ذریعے اس ناخوشگوار فضا کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ اولیں نقش دلوں سے محو نہ ہو سکا۔ میاں محمود علی قصوری صاحب کی گھن گرج اور بے دھڑک آواز عدالت کے لیے ایک مسئلہ بن گئی۔ اگرچہ جناب عامر رضا خان نے ایک موقع پر عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ میاں صاحب کو قدرتی طور پر آواز ہی ایسی ودیعت ہوئی ہے لیکن عدالت کا ابتدائی تاثر زائل نہ ہو سکا اور بالآخر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال سے ایک میڈیکل بورڈ بلا کر میاں صاحب کو عدالت کی کاروائی میں حصہ لینے کے ناقابل قرار دلوا دیا گیا۔ میاں صاحب نے بہت کہا بھئی میں عدالت میں پیش ہو سکتا ہوں مجھے اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہے لیکن جواب ملا کہ ان معاملات کو آپ نہیں سمجھتے، میڈیکل بورڈ زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس حیلہ سے میاں صاحب کا مقدمہ باقی ۵۳ افراد کے مقدمہ سے الگ کر دیا گیا۔

یہاں یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ ہم نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جو حضرات کونسل کے اجلاس کے لیے آئے تھے وہ اس کا اعتراف کریں گے اور جو سزا ہوئی قبول کریں گے، اور جن حضرات کو باہر سے بلاوجہ پکڑا گیا ہے وہ صحیح پوزیشن بتانے کے بعد آسانی سے چھوٹ سکیں گے۔ لیکن استغاثہ کے سلطان نامی گواہ نے گواہی میں یہ کہہ کر ساری صورتحال ہی بدل دی کہ ہم لوگوں کو مسلم لیگ ہاؤس میں واقع قومی اتحاد کے مرکزی دفتر کے مختلف کمروں سے نہیں بلکہ مسلم لیگ ہاؤس کے لان سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں ہم لوگ جلسہ کر رہے تھے، میاں محمود علی قصوری صاحب خطاب کر رہے تھے اور ہم لوگ حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ سلطان کے بعد علی محمد ڈوگر سب انسپکٹر انچارج پولیس چوکی ریس کورس گراؤنڈ نے بھی استغاثہ کے گواہ کے طور پر یہی کہانی دہرائی۔ چنانچہ استغاثہ کے ان دو تجربہ کار اور مشاق گواہوں کے جھوٹ کو عدالت پر واضح کرنے کے لیے ان پر مسلسل بارہ روز تک تفصیلی جرح کی گئی۔

۵۳ افراد کے گروپ میں پاکستان بار کونسل کے سیکرٹری اقبال احمد خان ایڈووکیٹ، پنجاب بار کونسل کے رکن چودھری محمود احمد ایڈووکیٹ اور پنجاب بار کونسل کے رکن عبد الرشید قریشی ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ ان تینوں فاضل وکلاء نے خوب خوب جرح کی حتیٰ کہ گواہوں کا جھوٹ روز روشن کی طرح سامنے آگیا جس کا اعتراف عدالت نے بھی متعدد بار دبے لفظوں میں کیا۔ سب سے دلچسپ جرح علی محمد ڈوگر پر ہوئی جو خود اپنے کہنے کے مطابق پولیس کی ’’ریڈنگ پارٹی‘‘ میں شامل تھے، پارٹی کے انچارج انسپکٹر بیگ کے ساتھ تھے اور خوب ’’الرٹ‘‘ تھے۔ لیکن ان سے جو سوال بھی پوچھا جاتا وہ جواب میں کہتے ’’میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘، ’’خیال نہیں رہا‘‘، ’’میں نے اس طرف خیال نہیں کیا‘‘، ’’مجھے یاد نہیں ہے‘‘۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر خود عدالت نے تنگ آکر دریافت کیا کہ ’’کیا آپ وہاں موجود بھی تھے یا نہیں؟‘‘

سب انسپکٹر کی بدحواسی کا ایک اور واقعہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے جب اس نے ۱۹ مئی کو پولیس روزنامچہ کی سچائی پر بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہمارے نزدیک تو یہ قرآن پاک کے برابر ہے (معاذ اللہ)۔‘‘ علی محمد ڈوگر کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی چند لمحے تو حاضرین کے حواس معطل ہوگئے، پھر مولانا محمد اجمل خان اٹھے اور انہوں نے عدالت سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس نے قرآن کریم کی کھلم کھلا توہین کی ہے اور ہم یہ بات قطعاً برداشت نہیں کر سکتے۔ میجر ریٹائرڈ سردار خان اورکرئی، سردار محمد عنایت خان، اسلم علی شاہ صاحب اور دیگر افراد بے بسی اور اضطراب کے عالم میں بلند آواز سے رونے لگے۔ مولانا سلیم اللہ قادری، قاری عبد الحمید قادری اور دیگر حضرات نے بھی عدالت سے احتجاج کیا۔ اس پر عدالت تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کر دی گئی اور علی محمد ڈوگر کو وہاں سے بھیج دیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد دوبارہ عدالت کی کاروائی شروع ہوئی تو مولانا محمد اجمل خان نے عدالت میں آنے سے انکار کر دیا۔ شدت جذبات سے ان کی حالت متغیر تھی، مولانا موصوف بلڈ پریشر کے مریض ہیں، ان کی حالت مسلسل دگرگوں ہوتی جا رہی تھی، دوسرے حضرات بھی ایک دوسرے سے گلے لگ کر رو رہے تھے، لیفٹیننٹ کرنل خود باہر آتے اور مولانا محمد اجمل کو بمشکل عدالت میں لاتے رہے۔ اس موقع پر ایک پرجوش نوجوان مرزا اعجاز بیگ دیوار سے ٹکریں مارنے لگے اور فضا ایک بار پھر آہوں اور سسکیوں سے گونج اٹھی۔ کرنل صاحب نے واقعہ پر معذرت کرنا چاہی لیکن مولانا محمد اجمل خان نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کا کوئی قصور نہیں ہے جس کا قصور ہے اس کو سزا ملنی چاہیے۔ مولانا کا لہجہ انتہائی گلوگیر تھا اور وہ جذبات کی شدت سے کانپتے ہوئے کہہ رہے تھے:

’’ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ آپ ہمیں کیا سزا دیتے ہیں، آپ ہمیں بے شک گولی مار دیں لیکن ہم قرآن کریم کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ کتنا غضب ہے کہ وہ پولیس روزنامچہ جسے زانی، شرابی اور بدکار پولیس افسر لکھتے ہیں اور سب لوگ جانتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا عنصر کتنا ہوتا ہے، اس جھوٹ کے پلندے کو اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔‘‘

اس پر عدالت نے کہا کہ اس واقعہ کی پولیس حکام کو اطلاع دی جائے گی لیکن مولانا محمد اجمل خان نے اسے ناکافی قرار دیا اور کہا کہ

’’عجیب بات ہے کہ اگر عدالت کی توہین ہو تو آپ موقع پر سزا دے سکتے ہیں لیکن کلام اللہ کی توہین پر آپ حکام کو رپورٹ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔‘‘

اس موقع پر اقبال احمد خان ایڈووکیٹ نے قانونی دفعات کے حوالہ سے عدالت کو بتایا کہ عدالت علی محمد ڈوگر کے خلاف کاروائی کی مجاز ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل نے واقعہ پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آج کا دن میری زندگی کا سنگین ترین دن ہے لیکن میں اپنے جذبات کا الفاظ میں اظہار نہیں کر سکتا۔ کرنل موصوف کے چہرے پر اضطراب ک کیفیت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں اس واقعہ پر کس قدر دکھ ہوا ہے اور انہیں واقعہ کی سنگینی کا پورا پورا احساس ہے۔

عدالت برخواست کر دی گئی، اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ جب تک ڈوگر کو سزا نہیں دی جاتی ہم کاروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ دوسرے روز لیفٹیننٹ کرنل موصوف پھر آئے لیکن عدالت کی کاروائی نہ ہوئی۔ گزشتہ روز کے واقعہ پر غیر رسمی گفتگو ہوتی رہی اور انہوں نے ڈوگر کے خلاف کاروائی کا یقین دلایا۔

مسلسل چار دن کے تعطل کے بعد ۲۴ مئی کو عدالت کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی اور عدالت کی اس یقین دہانی پر کہ علی محمد ڈوگر کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہو چکا ہے اور اس مقدمہ کی کاروائی کے اختتام پر اس کے خلاف باضابطہ کاروائی کی جائے گی، ہم لوگ عدالت کی کاروائی میں شریک ہوگئے۔ اب معلوم نہیں مذکورہ سب انسپکٹر کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی ہے یا نہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل وقار نصیر احمد صاحب کے بارے میں یہ ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابتدائی کاروائی کو چھوڑ کر اس کے بعد انتظامی امور اور عدالتی طریق کار میں خوشگوار تبدیلیاں کر کے اپنے بارے میں سابقہ تاثر کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کا رویہ آخر دم تک انتہائی شائستہ، متوازن اور معتدل رہا۔ ہماری انتظامی مشکلات کو کم کرنے کوشش کی حتیٰ کہ کیمپ جیل کے ٹیوب ویل کے لیے بھی صرف ہماری خاطر انہوں نے واپڈا سے بجلی کا کنکشن دلوایا جبکہ جیل حکام گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس مسئلہ میں ناکام رہے تھے۔ غرضیکہ لیفٹیننٹ کرنل نے اپنے طور پر اس بات کی انتہائی کوشش کی کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو۔ ان سے صرف یہ گلہ ہے کہ جاتے وقت وہ اپنے ساتھیوں سے مل کر بھی نہیں گئے۔ جس روز ہائی کورٹ نے مارشل لاء کے خلاف فیصلہ دیا اس کے دوسرے دن لیفٹیننٹ کرنل وقار عدالت کے لیے آئے، اقبال احمد خان ایڈووکیٹ صاحب نے انہیں ہائی کورٹ کے فیصلہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ عدالت لگانے کے مجاز نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی گئی ہے اور حکم امتناعی کی درخواست بھی دے دی گئی ہے اس کا فیصلہ تھوڑی دیر تک ہو جائے گا۔ اس کے بعد حسب معمول غیر رسمی گپ شپ ہوتی رہی لیکن جب انہیں باہر بلا کر حکم امتناعی کی درخواست مسترد ہوجانے کی اطلاع دی گئی تو اس کے بعد ان کا پتہ نہ چل سکا کہ وہ کب چلے گئے۔

اس طرح سمری ملٹری کورٹ کا ’’ڈراپ سین‘‘ خاموشی کے ساتھ انجام پذیر ہوا۔ سمری ملٹری کورٹ کے حکم پر ہمیں بتایا گیا کہ اسپیشل ٹربیونل ہمارا ریمانڈ دینے کے لیے آرہا ہے، کافی دیر ہم انتظار کرتے رہے، بعد میں پتہ چلا کہ ٹربیونل کے رکن قاضی غضنفر علی صاحب تشریف لائے لیکن ملزموں کو دیکھے بغیر جیل کے دفتر میں بیٹھ کر ریمانڈ پر دستخط فرما گئے ہیں۔ دوسرے روز ان کی اس غیر قانونی کاروائی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا چنانچہ ہائی کورٹ کے جسٹس ذکی الدین پال نے ۷ جون کو ہم سب کو عدالت میں طلب کیا اور ہماری حراست کو غیر قانونی قرار دے کر ہمیں عدالت سے ہی رہا کر دیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter