اسلام کا متوازن فلسفۂ حقوق اور اقوام متحدہ کا منشور

   
تاریخ : 
۲ اگست ۲۰۱۰ء

میں ان دنوں امریکہ میں ہوں، جدہ سے ۲۲ جولائی کو نیویارک پہنچا اور چند روز دارالعلوم نیویارک میں قیام کیا جہاں ان دنوں سالانہ امتحانات چل رہے تھے۔ اصولِ حدیث کی ایک کتاب کا امتحان میں نے بھی لیا۔ دارالعلوم نیویارک کے بانی ڈھاکہ کے معروف عالم دین مولانا شہید الاسلام کے بھائی جناب برکت اللہ صاحب اور مہتمم ان کے پرانے ساتھی مولانا محمد یامین ہیں، جبکہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مولانا حافظ اعجاز احمد ان کے رفیق کار ہیں اور یہ تین حضرات باہمی اعتماد و مشورہ کے ساتھ دارالعلوم کا نظام چلا رہے ہیں۔ مجھے کم و بیش ہر سفر میں یہاں حاضری کا موقع ملتا ہے اور دارالعلوم کا تعلیمی ذوق اور ترقی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سال گوجرانوالہ سے ہمارے پرانے ساتھی مولانا قاری محمد یوسف عثمانی بھی آئے ہوئے ہیں، ان کا بیٹا محمود عثمانی ایک عرصہ سے نیویارک میں مقیم ہے اور گزشتہ ماہ اس کی شادی ہوئی ہے۔ قاری صاحب اس لیے یہاں تشریف لائے ہیں، انہوں نے بھی دارالعلوم کے حفظ و ناظرہ کے طلبہ کا امتحان لیا اور امریکہ کے مختلف اسفار میں وہ میرے ساتھ شریک ہیں۔

امریکہ میں دینی مدارس کا سلسلہ بڑھ رہا ہے اور طلبہ و طالبات میں درس نظامی کی تعلیم کے ذوق میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حفظ قرآن کریم کے دائرہ میں بھی وسعت دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کے مختلف علاقوں میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے علماء کرام، مدرسین، حفاظ اور قراء کرام ذوق و شوق کے ساتھ دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور فکری و تہذیبی معاملات کی طرف بھی آہستہ آہستہ ان کی توجہ مبذول ہو رہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

اس سال ’’شریعہ بورڈ نیویارک‘‘ نے مسجد حمزہ میں میری حاضری پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا موضوع ’’انسانی حقوق اور اسلامی تعلیمات‘‘ تھا۔ اس پروگرام میں علماء کرام اور دینی ذوق رکھنے والے حضرات کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ایک نشست مغرب تک ہوئی جس میں اسلام کے فلسفۂ حقوق پر گفتگو ہوئی اور دوسری نشست مغرب سے عشاء تک تھی جس میں حقوق انسانی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے بارے میں کچھ تحفظات کا ذکر کیا گیا۔ دونوں نشستوں میں کم و بیش دو گھنٹے کی مفصل گفتگو کے چند اہم نکات نذرِ قارئین ہیں:

  • اسلام نے حقوق کی بات کی ہے اور تفصیل کے ساتھ کی ہے لیکن اس کی اصطلاح ’’حقوق اللہ‘‘ اور ’’حقوق العباد‘‘ کے عنوان سے ہے۔ البتہ اسلام حقوق العباد کی یکطرفہ بات نہیں کرتا بلکہ حقوق اللہ کی بات بھی کرتا ہے جبکہ مغرب صرف حقوق العباد کی بات کرتا ہے اور حقوق اللہ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
  • مغرب کے حقوق کے فلسفہ و نظام کا آغاز فکری طور پر میگناکارٹا سے اور عملی طور پر انقلابِ فرانس سے بیان کیا جاتا ہے جسے صرف دو سو برس گزرے ہیں۔ جبکہ اسلام گزشتہ چودہ سو برس سے حقوق کی بات کر رہا ہے اور اس نے اب سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانی سوسائٹی کو حقوق سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی عملداری کا عملی معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جو آج بھی آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے۔
  • حقوق العباد کے تحت اسلام نے ماں باپ کے حقوق، میاں بیوی کے باہمی حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، معاشرے کے نادار لوگوں کے حقوق، جانوروں کے حقوق، راستے کے حقوق اور دیگر عنوانات کے ساتھ حقوق کی جو درجہ بندی اور تفصیلات پیش کی ہیں، مغرب سمیت کسی اور فلسفۂ زندگی میں اس قدر تفصیل اور وسعت و تنوع موجود نہیں ہے۔
  • اسلام حقوق کی بات وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ جبکہ مغرب حقوق کی تعیین اور تعبیر انسانی معاشرے کی خواہشات اور اجتماعی سوچ کے حوالے سے کرتا ہے جس سے حقوق کی فہرست بدلتی رہتی ہے۔ چنانچہ ایک وقت کا جرم دوسرے وقت میں حقوق کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے، جیسا کہ مغرب میں زنا اور ہم جنس پرستی کو کچھ عرصہ پہلے تک جرم شمار کیا جاتا تھا مگر اب وہ حقوق کی فہرست میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے وحی الٰہی کی بنیاد پر جن حقوق کا تعین کیا ہے قیامت تک ان کی حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جرائم کی فہرست میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔
  • مغربی فلسفہ ہر فرد اور طبقہ کو اس کے اپنے حقوق کا احساس دلا کر انہیں حاصل اور طلب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جبکہ اسلام دوسروں کے حقوق یاد دلا کر انہیں ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے جس کے نفسیاتی اور معاشرتی نتائج و ثمرات خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔
  • اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر جسے بین الاقوامی معاہدہ بلکہ قانون کا درجہ حاصل ہے اس کی بنیاد صرف انسانی معاشرے کی خواہشات اور سوچ پر ہے، اس میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی تمام تر بنیاد وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر ہے اس لیے اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہمارے واضح تحفظات ہیں اور ہم صرف انسانی سوچ اور خواہش پر مبنی کسی نظام کو من و عن قبول نہیں کر سکتے۔
  • اقوام متحدہ کے چارٹر کی بہت سی دفعات قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم ہیں اس لیے اسے مکمل طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا اور ہم اس چارٹر کے لیے قرآن و سنت کے صریح احکام و قوانین سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔
  • اقوام متحدہ کا چارٹر ۱۹۴۸ء میں منظور کیا گیا تھا جب دنیا کے بہت سے مسلم ممالک آزاد نہیں تھے اور مسلمانوں کی آبادی کی غالب اکثریت کو اس چارٹر کی تشکیل و تدوین میں نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ آج مسلمان دنیا کی آبادی کا کم و بیش چوتھا حصہ ہیں اور پچپن سے زیادہ مسلم ممالک ہیں جن کے معتقدات اور ثقافتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر آج کے عالمی حالات کے تناظر میں نظرثانی ضروری ہے اور مسلم حکومتوں بالخصوص او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر اس پر نظرثانی کے لیے راہ ہموار کرے۔ چونکہ اس وقت دنیا میں کم و بیش تمام بین الاقوامی معاملات انسانی حقوق کے اس چارٹر کے حوالہ سے طے پا رہے ہیں اور اسلام کے بہت سے احکام و قوانین پر اس چارٹر کی بنیاد پر اعتراض کیے جا رہے ہیں اس لیے مسلم علماء، اساتذہ، صحافیوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال اور مسائل کے صحیح ادراک کے ساتھ امتِ مسلمہ کی راہنمائی کریں۔
   
2016ء سے
Flag Counter