مسلم خواتین کی دینی اور معاشرتی ذمہ داریاں

   
تاریخ: 
۲ اپریل ۲۰۰۹ء

۲ اپریل کو لندن کے علاقہ ٹوٹنگ میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام خواتین کے ایک اجتماع میں ’’مسلم خواتین کی دینی اور معاشرتی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مرد اور عورت انسانی معاشرت اور سوسائٹی کا لازمی حصہ ہیں اور معاشرہ کی ترقی اور بقا کا دونوں پر مدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیات میں کچھ فرق رکھا ہے اور اس کے مطابق ذمہ داریوں اور فرائض کی تقسیم کی ہے۔ کچھ کام ایسے ہیں جو مرد کے کرنے کے ہیں عورت وہ کام نہیں کر سکتی، اور کچھ کام عورت کے کرنے کے ہیں مرد ان کاموں کو سرانجام نہیں دے سکتا۔ اس فرق اور تقسیم کار پر انسانی سوسائٹی کی فلاح و ترقی کا مدار ہے اور اسلام نے اسی کے مطابق دونوں کی معاشرتی ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد گرامی ہمارے ہاں عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال کیا جائے گا۔ یعنی وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں مسئول ہوگا۔ راعی عربی زبان میں چرواہے کو کہتے ہیں اور ہم حدیثِ مبارکہ کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کا محاورے کا ترجمہ ذمہ دار اور حاکم بھی کر دیتے ہیں۔ اسی حدیث میں ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ’’والمراۃ راعیۃ فی بیت زوجھا‘‘ عورت اپنے خاوند کے گھر کے اندر کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اس لیے جب ہم راعی کا ترجمہ حاکم کرتے ہیں تو یہاں بھی یہ ترجمہ کیا جا سکتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کے اندر کی حاکم ہے یعنی گھر کی چار دیواری کے اندر کے معاملات کی وہ ذمہ دار ہے۔ جبکہ عملاً بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ گھر کے اندر کے معاملات جس طرح عورت چلا سکتی ہے مرد نہیں چلا سکتا۔ گھر کو بنانا، سنوارنا، اس کی ترتیب، زیبائش اور آرائش وغیرہ خالصتاً نسوانی ذوق ہے اور یہ کام عورت ہی بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ اسی طرح بچوں کی پرورش اور ان کے امور کی دیکھ بھال اور ایک خاص عمر تک ان کی تربیت، ذہن سازی اور شخصیت کی تعمیر بھی عورت ہی زیادہ بہتر انداز میں کر سکتی ہے۔ اور کسی بچے کی فکری، ذہنی اور اخلاقی تربیت و نشوونما کی اصل بنیاد اسی دور میں ہوتی ہے جو وہ ماں کی نگرانی اور تربیت میں گزارتا ہے۔

اسلامی عقیدہ کے مطابق ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتاً معصوم ہوتا ہے اور اس کے مسلمان، عیسائی یا یہودی بننے کا مدار اس کے ماحول اور ماں باپ کی تربیت پر ہوتا ہے۔ فطری تعلیمی نظام کا پہلا مرحلہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ اور یہ ماں باپ دونوں کی اور خاص طور پر ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اور ذہنی و اخلاقی نشوونما میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھے کہ بچہ انہیں دیکھ رہا ہے، والدین کی ہر بات کو نوٹ کر رہا ہے، ان کی حرکت کا اثر لے رہا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسی کے مطابق اس کی شخصیت ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ لہٰذا تعلیم و تربیت صرف الفاظ رٹانے اور مضامین میں ازبر کرا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ تاثرات و محسوسات کے حوالہ سے وہ ماحول مہیا کرنا بھی تعلیم و تربیت کا لازمی حصہ ہے جس کے مطابق بچے کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔

اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک مسلم خاتون کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو پاک صاف رکھنے کی کوشش کرے اور گھر میں ایسا ماحول بنائے جس میں بچوں کی ازخود تربیت ہوتی چلی جائے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ بچے کو جس بات کی تلقین کی جاتی ہے وہ اسے اپنے ماحول میں عملی طور پر نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے، الجھن میں پڑ جاتا ہے اور پریشان ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتا لیکن یہ الجھن اور کنفیوژن رفتہ رفتہ اس کے ذہن و فکر میں رچ بس جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے بچے کو سچ بولنے کی تلقین کرتا رہتا ہے مگر بچے کو سامنے نظر آرہا ہوتا ہے کہ باپ خود جھوٹ بول رہا ہے، کسی کو دھوکہ دے رہا ہے، فراڈ کر رہا ہے اور بد دیانتی کر رہا ہے تو وہ کبھی سچ کا عادی نہیں ہوگا۔ اسی طرح ایک بچی کو اس کی ماں دیانت و امانت کی تلقین کرتی ہے لیکن بچی کو اپنی ماں کے معاملات اور معمولات میں دیانت و امانت دکھائی نہیں دیتی تو وہ ذہنی تضاد کا شکار ہو جائے گی اور دیانت و امانت اس کے کردار و عادات کا حصہ نہیں بن پائے گی۔ اس لیے میں یہ گزارش کروں گا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت، ان کی اخلاقی نشوونما اور ان کی ذہنی و فکری اصلاح کے لیے گھر کے ماحول کو اس کے مطابق بنانا ماں باپ دونوں کی اور خاص طور پر عورت کی ذمہ داری ہے۔

پھر گھر کے ماحول کو بہتر رکھنا ایک اور حوالہ سے بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ شکایت رہتی ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، نحوست کے اثرات ہیں، کاموں میں رکاوٹ ہے، رشتوں میں رکاوٹ ہے اور محبت و اعتماد کا ماحول نہیں رہا۔ ہم اس کی وجہ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے، اس کے لیے عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم پر کس نے وار کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ جادو کرنے والے کرتے ہیں اور اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گھر میں نماز ہوگی، ذکر ہوگا، درود شریف اور خیر کے اعمال ہوں گے تو فرشتوں کی آمد و رفت زیادہ ہوگی اور جب فرشتوں کا آنا جانا زیادہ ہوگا تو رحمتوں اور برکتوں کا ماحول ہوگا۔ لیکن جو کچھ ہمارے گھروں میں ہوتا ہے اس پر شیاطین اور جنوں کی آمد و رفت ہی زیادہ ہو سکتی ہے اور جب ان کی آمد و رفت کی کثرت ہوگی تو ماحول بھی بے برکتی اور نحوست کا ہوگا۔ چنانچہ گھروں میں برکت و رحمت اور اعتماد و احترام کا ماحول قائم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ گھر کے ماحول کو اسلامی تعلیمات کے مطابق درست رکھنے کا اہتمام ہو۔ اور یہ کام عورت ہی زیادہ بہتر طور پر کر سکتی ہے کیونکہ گھر کی چاردیواری کے اندر عملی طور پر اس کی حکمرانی ہوتی ہے، وہ گھر کے ماحول کو جیسا بنانا چاہے بنا سکتی ہے اس لیے یہ اسی کی ذمہ داری ہے۔

یہاں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا حوالہ دوں گا کہ ’’صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورًا‘‘ گھروں میں نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ جس گھر میں نماز نہیں ہوتی وہ گھر نہیں بلکہ قبرستان ہے۔ اس لیے جس طرح گھر کی ایک ظاہری خوبصورتی ہوتی ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو، ضرورت کی تمام چیزیں اس میں موجود ہوں، اس میں سلیقہ اور ترتیب ہو، اس کی آرائش و زیبائش ہو اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش ہوتی رہے، اسی طرح گھر کی روحانی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں نماز و ذکر کا ماحول ہو، فرشتوں کی آمد و رفت ہو، رحمت اور برکتوں کا نزول ہو، خیر و برکت کا تسلسل ہو اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم گھروں کی اسی آبادی کے بارے میں تلقین فرما رہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور ارشاد گرامی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس سینے میں قرآن کریم کا کوئی حصہ نہیں ہے یعنی جس مسلمان کو قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد نہیں ہے اور جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ ’’کالبیت الخرب‘‘ وہ اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔ اس لیے کہ انسان کے سینے یعنی دل کی دنیا کی آبادی قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور اس کے گھر کی آبادی بھی قرآن کریم کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت سے ہے۔

اس لیے میں بہنوں اور بیٹیوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک مسلمان خاتون کی سب سے بڑی معاشرتی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو صحیح رکھنے کی کوشش کرے اور یہ صرف نماز، روزہ اور قرآن کریم کی تلاوت کی حد تک نہیں بلکہ معاملات میں بھی، اخلاق و دیانت میں بھی اور دوسروں کے ساتھ ڈیلنگ اور طرزِ عمل کے حوالہ سے بھی ضروری ہے۔ کیونکہ آپ اپنے گھر میں جیسا ماحول بنائیں گی اسی کے مطابق بچوں کا مزاج اور رویہ بھی تشکیل پائے گا۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۸ اپریل ۲۰۰۹ء)
2016ء سے
Flag Counter