رائے ونڈ کا تبلیغی اجتماع ۲۰۰۸ء

   
تاریخ اشاعت: 
۱۳ اکتوبر ۲۰۰۸ء

رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کے حوالہ سے میرا معمول یہ چلا آرہا ہے کہ اجتماع کے دوسرے روز یعنی ہفتہ کے دن حاضری دیتا ہوں اس طور پر کہ صبح گوجرانوالہ سے روانہ ہوتا ہوں اور مغرب رائے ونڈ میں پڑھ کر واپسی کرتا ہوں۔ مگر اس سال یہ معمول تبدیل کرنا پڑا اس لیے کہ گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام سے قدیمی تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں اس روز ایک نوجوان کی شادی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ نکاح بہرحال میں ہی پڑھاؤں۔ گرجاکھ گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ابتدائی ساتھیوں میں مولانا عبد الحمید مرحوم اور ان کے بھائی منشی عبد المجید مرحوم تھے جو مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی جمعیۃ علماء اسلام کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ مولانا عبد الحمید مرحوم مسجد عثمانیہ میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور وہ اس علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام کا ہیڈکوارٹر تھا۔ یہ ۱۹۷۰ء کے دور کی بات ہے، ان کے ساتھ حافظ محمد فاروق مرحوم، منشی عبد المجید مرحوم اور حافظ بلال احمد ایڈووکیٹ جمعیۃ کے سرگرم کارکن تھے اور پہلوان محمد حنیف بھی جمعیۃ کے لیے فعال کردار ادا کرتے تھے۔ منشی عبد المجید مرحوم خوشنویس اور پینٹر تھے اور ہماری فرمائش کے ساتھ ساتھ خود اپنے جذبہ سے بھی مختلف بینر وغیرہ لکھ کر جمعیۃ کی بے لوث خدمت کیا کرتے تھے۔ دونوں بھائی فوت ہوگئے ہیں اور اب ان کی اولاد مسلک اور جمعیۃ دونوں حوالوں سے اپنے بزرگوں کی خدمات کے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ ہفتے مولانا عبد الحمید مرحوم کے فرزند جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنما طارق محمود رضوی کے ساتھ آئے اور کہا کہ ہمارے ایک نوجوان کا ۱۱ اکتوبر ہفتہ کو دو بجے نکاح ہے جو آپ نے پڑھانا ہے۔ میں نے معذرت کرنا چاہی کہ میرا یہ دن رائے ونڈ کے لیے ہے اور اگر اس دن نہ گیا تو طے شدہ پروگرام میں اور کوئی دن رائے ونڈ کے لیے نہیں نکال سکوں گا۔ مگر معذرت قبول نہ ہوئی اور مجھے مولانا عبد الحمید مرحوم اور منشی عبد المجید مرحوم کے لیے اپنا پروگرام تبدیل کرنا پڑا۔ چنانچہ جمعہ کے روز شام کو مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ہمراہ تھوڑی دیر کے لیے رائے ونڈ حاضری کا پروگرام بنا لیا۔ قاری صاحب کے دو بیٹے حافظ عبید الرحمان اور حافظ زبیر بھی ساتھ تھے۔ ہم مغرب کے بعد لاہور سے روانہ ہوئے اور عشاء کی نماز ہم نے جامعہ مدنیہ جدید میں ادا کی جبکہ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع میں مختلف دوستوں سے ملاقاتوں اور اجتماع کا منظر ایک نظر دیکھنے کے بعد رات بارہ بجے سے قبل ہم واپس لاہور پہنچ گئے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ انڈیا سے آئے ہوئے کسی تبلیغی بزرگ کا بیان ضرور سنوں اس لیے کہ ان کے بیانات میں مجھے توازن اور علم کی چاشنی زیادہ محسوس ہوتی ہے مگر اس بار محروم رہا۔ معلوم ہوا کہ مغرب سے قبل پہنچ جاتا تو مولانا سعد کا بیان سنا جا سکتا تھا، اگر پہلے سے پروگرام معلوم ہوتا تو اس کی کوشش کی جا سکتی تھی مگر محرومی مقدر میں تھی اس لیے ان کا بیان ختم ہو جانے کے بعد ہم پہنچے اور مختلف دوستوں سے یہ دریافت کر کے خوش ہوتے رہے کہ مولانا سعد نے کیا کہا۔

مولانا سعد امیر التبلیغ مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ کے پوتے ہیں، صاحب علم اور صالح نوجوان ہیں، ایک بار سرکردہ علماء کرام کی ایک محفل میں ان سے ملاقات اور گفتگو ہو چکی ہے۔ اور میری ان کے ساتھ عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے محترم بزرگ اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری ان کی بہت تعریف کیا کرتے ہیں۔ دیر سے پہنچنے کی وجہ سے ان کا بیان نہ سن سکنے کا قلق ہوا مگر دوستوں سے پوچھ پاچھ کر گزارہ کر لیا۔

ایک دوست کے مطابق مولانا سعد نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی زندگی اگرچہ اسباب کے ساتھ ہے اور اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے لیکن صرف اسباب پر بھروسہ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اصل قوت اسباب کی نہیں بلکہ مسبب الاسباب (اللہ تعالیٰ) کی ہے۔ ہماری بھوک بظاہر روٹی مٹاتی ہے لیکن اصل قوت اس کے پیچھے روٹی پیدا کرنے والے کی ہے اور اگر ہم اپنے عقیدہ، نیت اور عمل کی اس کے مطابق اصلاح کر لیں تو ہماری زندگی سنور جائے۔ مولانا سعد نے دعوت و تبلیغ کے بارے میں کہا کہ کچھ حلقوں میں اسے فرضِ کفایہ سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ دوسروں کو دعوت اور ان کی اصلاح کے حوالہ سے تو دعوت و تبلیغ فرضِ کفایہ ہو سکتی ہے مگر اپنے عقیدہ و ایمان اور عمل و کردار کی اصلاح کے حوالہ سے یہ فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے اور ہر مسلمان کو اپنی اصلاح کی نیت سے اس عمل میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دعوت کے دو جواب ہوتے ہیں: ایک قولی اور ایک عملی۔ مثلاً اذان ایک دعوت ہے جس میں مؤذن اپنی آواز سننے والوں کو نماز اور فلاح کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کا ایک جواب قولی ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی ہے کہ اذان کے ایک ایک جملے کا جواب دیں۔ لیکن اصل جواب عملی ہے کہ اذان سننے کے بعد سارے کام چھوڑ کر نماز کی طرف آجائیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔

میں نے دریافت کیا کہ آج انڈیا کے کسی اور بزرگ کا بیان بھی ہوا ہے؟ ایک ساتھی نے بتایا کہ مولانا احمد لاٹ صاحب کا بیان دن کے وقت ہوا ہے مگر وہ ان کے بیان کی کوئی تفصیل نہ بتا سکے۔ البتہ ایک دوست نے مولانا احمد لاٹ کے کسی سابقہ بیان کا ذکر چھیڑ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تبلیغی جماعت کے دوستوں کو علماء کرام کے پاس جاتے رہنا چاہیے، ان سے استفادہ اور راہنمائی کے لیے بھی اور ان کی زیارت کی نیت سے بھی، اس لیے کہ اہل حق علماء کرام کی زیارت کرنا بھی ثواب کی بات ہے۔ اس پر مجلس میں موجود ایک دوست نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لیے جو جماعت بھی نکلے اس کے ساتھ کم از کم دو عالم دین ضرور ہوں، ایک ان کے آگے اور ایک ان کے پیچھے تاکہ وہ علماء کرام کی راہنمائی میں دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں۔ اس پر میں سوچنے لگا کہ بعض خواہشیں کس قدر مخلصانہ اور معصومانہ ہوتی ہیں مگر عملاً انہیں پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس حوالہ سے میرے ذہن میں اپنے ماحول کا ایک واقعہ تازہ ہوگیا کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب مولانا مفتی محمودؒ نے وفاقی شرعی عدالت کے قیام کے بعد صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام اور قاضیوں کے تقرر پر زور دینا شروع کیا تو میں نے ایک دن علیحدگی میں مفتی صاحب سے سوال کر دیا کہ حضرت! اتنے قاضی آپ کہاں سے لائیں گے؟ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ دینی مدارس میں جن مدرسین نے ہدایہ کم از کم چار پانچ مرتبہ پڑھا لیا ہے انہیں عدالتی نظام کی مناسب عملی ٹریننگ دینے کے بعد قاضی بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ درست ہے مگر مدارس سے تجربہ کار اور سینیئر مدرسین کی اتنی بڑی تعداد نکال کر آپ ہدایہ کس سے پڑھوائیں گے؟ اس سوال پر تھوڑی دیر کے لیے مفتی صاحب بھی متفکر ہوئے مگر پھر اپنے مزاج کے مطابق بے پروائی سے فرمایا کہ دیکھا جائے گا۔ میں سوچنے لگا کہ امیر التبلیغ مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی یہ خواہش بہت بجا، مخلصانہ اور معصومانہ ہے اور اس کی ضرورت و فوائد سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے مگر دعوت و تبلیغ کے لیے نکلنے والی ہر جماعت کے ساتھ اگر دو علماء یا کم از کم ایک ایک عالم ہی کر دیا جائے تو مساجد میں امامت و خطابت اور مکاتب و مدارس میں تعلیم و تدریس کی ذمہ داری کون سرانجام دے گا؟

عالمی تبلیغی اجتماع کو تبلیغ کے بزرگوں نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر کو دعا کے بعد اجتماع کا دوسرا حصہ ۱۷، ۱۸، ۱۹ اکتوبر کو ہوگا جبکہ آخری دعا ۱۹ اکتوبر اتوار کو ہوگی۔ ملک کے تمام اضلاع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو الگ الگ طور پر ان میں شریک ہو رہے ہیں۔ مگر مجھے اس تقسیم کے باوجود اجتماع کی معمول کی رونق میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا اور یہی دیکھا کہ دعوت و تبلیغ کے اس عمل میں عام لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے جو بارگاہِ ایزدی میں اس عمل کی قبولیت کی علامت اور حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، حضرت مولانا انعام الحسن اور دوسرے اکابر کی خلوص و محبت کا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی اس محنت و سعی کو مزید ترقی سے نوازیں اور پوری نسلِ انسانی کی ہدایت کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter