جنوبی ایشیا کے فقہی واجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۱۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’جنوبی ایشیا میں اسلامی قانونی فکر اور ادارے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے سیمینار میں مجھ سے ’’جنوبی ایشیا میں ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے فقہی رجحانات اور اجتہاد کے ارتقائی عمل کا جائزہ‘‘ مرتب کرنے کی فرمائش کی گئی ہے۔ محترم ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب کے ارشاد پر اس سلسلے میں اپنی گزارشات ایک تجزیاتی مضمون کی صورت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ خدا کرے کہ یہ طالبعلمانہ کاوش اہلِ فکر و نظر کے ہاں کسی درجے میں قبولیت سے بہرہ ور ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

۱۸۵۷ء کے معرکہ حریت میں جب مجاہدین آزادی کی پسپائی نے جنوبی ایشیا کی سیاسی تقدیر کو برٹش حکمرانوں کے سپرد کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے براہ راست اس خطے کی زمام اقتدار سنبھال لی تو یہ خطہ زمین زندگی کے تمام شعبوں میں ہمہ گیر اور انقلابی تبدیلیوں سے دوچار ہوا اور برصغیر کے مسلمانوں کے فقہی رجحانات بھی ان تبدیلیوں کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ تغیر و تبدل کا یہ عمل تاج برطانیہ کے نوے سالہ دور اقتدار میں مسلسل جاری رہا، مگر اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے ۱۸۵۷ء سے قبل کے فقہی دائروں اور رجحانات پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

۱۸۵۷ء سے پہلے کے فقہی رجحانات

۱۸۵۷ء سے پہلے برصغیر (پاک و ہند و بنگلہ دیش و برما وغیرہ) کے قانونی نظام پر فقہ حنفی کی حکمرانی تھی اور اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں مرتب کیا جانے والا ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ قانون کی دنیا میں اس ملک کے دستور و قانون کی حیثیت رکھتا تھا۔ مسلم عوام کی اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار تھی، حتیٰ کہ قانون کی عمل داری کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم بھی فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری کے ذریعے ہی اس عمل میں درجہ بدرجہ شریک ہوتے تھے، البتہ اس اجتماعی رجحان کے ماحول میں کچھ مستثنیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:

  • امام ولی اللہ دہلویؒ نے جو خود اپنے ارشاد کے مطابق حنفی فقہ میں ’’مجتہد فی المذہب‘‘ کا مقام رکھتے تھے، فقہی حلقوں میں پائے جانے والے روایتی جمود کو توڑنے میں اس طرح پہل کی کہ فقہ حنفی کے اصولی دائرے کو قائم رکھتے ہوئے جزئیات میں اجتہادی عمل کی حوصلہ افزائی کی اور علماء و فقہاء پر زور دیا کہ وہ جزئیات و فروعات میں وقت کی ضروریات کے مطابق اجتہاد کے عمل کو آگے بڑھائیں اور مکمل جمود کے ماحول سے باہر نکلیں۔
  • ۱۸۳۱ء کے معرکہ بالاکوٹ کے بعد امام ولی اللہ دہلویؒ کی درس گاہ کے مسند نشیں حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے حجاز مقدس ہجرت کر جانے پر دہلی میں درس حدیث کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ کی پیشرفت نے علماء کی ایک جماعت کو فقہ اور تقلید کا راستہ ترک کرنے کے رخ پر ڈالا اور یہی تغیر آگے چل کر ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل مکتب فکر کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جس میں مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ کی مساعی کو کلیدی مقام حاصل ہے۔
  • بمبئی کے ساحلی علاقوں میں شوافع کا وجود قدیم دور سے چلا آ رہا تھا اور فقہ شافعی کے پیروکار اس خطے میں مسلسل موجود رہے ہیں۔ میں نے لندن میں ایک عالم دین دوست کے پاس فارسی زبان میں فقہ شافعی کی مالابدمنہ (شافعی) دیکھی ہے جو بالکل حنفی مالابدمنہ کی طرز پر اور اسی حجم میں ہے اور یہ مالابدمنہ بمبئی کے ان علاقوں میں فقہ شافعی کے متن کے طور پر پڑھائی جاتی رہی ہے۔
  • بہت سے علاقوں بالخصوص لکھنو میں فقہ جعفریہ کے پیروکار بھی موجود تھے اور ان کے علماء کرام اس فقہ کے دائرے میں ان کی راہ نمائی کر رہے تھے اور اب بھی مسلسل کر رہے ہیں۔

لیکن ان استثنائی رجحانات کے باوجود ملک کے عمومی ماحول پر اصول و فروع کے دونوں دائروں میں فقہ حنفی کی بالادستی تھی اور اس کا معیار اپنی تمام تر تفصیلات سمیت فتاویٰ عالمگیری ہی تھا۔

۱۸۵۷ء کے بعد تاج برطانیہ نے برصغیر کا نظام براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر یہاں کا قانونی نظام تبدیل کیا اور عدالتوں میں فتاویٰ عالمگیریہ کی قانونی حیثیت کو ختم کر کے برٹش قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تو اس خطے میں فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری کا قانونی حصار ٹوٹ گیا اور تمام فقہی رجحانات کو آزادانہ ماحول میں نئی صف بندی کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ نئی صف بندی اس خطے کے مسلمان عوام کی غالب اکثریت کی فقہ حنفی کے ساتھ وابستگی پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکی، کیونکہ کم و بیش ڈیڑھ سو سال کا طویل عرصہ گزر جانے اور اس دوران فقہ حنفی کے دائرے سے ہٹ کر علمی و فقہی پیشرفت کرنے والے مختلف حلقوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور بھارت کے مسلمانوں کی غالب اکثریت آج بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہے، البتہ اس حقیقت سے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ غیر حنفی فقہی رجحانات نے اس دوران اپنے اہداف کی طرف خاصی پیشرفت کی ہے اور وہ ایک حد تک حنفی فقہی رجحانات پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد کے فقہی رجحانات

۱۸۵۷ء کے بعد فقہی رجحانات نے جو نئی کروٹ لی ہے، اسے ہم مندرجہ ذیل صورتوں میں بیان کر سکتے ہیں:

  • فقہ حنفی کے روایتی حلقے میں دو الگ مکاتب فکر سامنے آئے۔ ایک بریلوی مکتب فکر جس کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلویؒ تھے اور دوسرا دیوبندی مکتب فکر جس کے امتیازی رخ کو متعین کرنے کا سہرا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے سر ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر میں بنیادی اختلاف بعض عقائد کی تعبیر و تشریح اور بعض علماء کرام کی عبارات پر اعتراضات کی بنیاد پر ان کے خلاف مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور ان کے رفقاء کی طرف سے لگائے جانے والے کفر کے فتوے پر ہے، جبکہ فقہی فتاویٰ میں دونوں کا بنیادی ماخذ فتاویٰ عالمگیری اور فتاویٰ شامی ہی چلا آ رہا ہے، لیکن ایک فرق کسی حد تک بہرحال موجود ہے کہ دیوبندی مکتب فکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اس اصلاحی تحریک کی نمائندگی کرتا ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ مکمل فقہی جمود کے دائرے سے نکل کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی تعلیمات اور ان سے استفادہ کے رجحان کو عام کیا جائے اور فقہ کو اس کے بعد مسائل و احکام کے تیسرے بڑے ماخذ کے درجے میں رکھا جائے، جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور ان کے رفقاء نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔

    احناف کے ہاں ایک عرصہ تک اسلوب یہ رہا ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے کہ کسی مسئلہ کی دلیل میں بنیادی طور پر فقہی جزئیہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کی تائید میں قرآن کریم اور حدیث نبوی سے حسب ضرورت شہادت لائی جاتی ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دراصل اس ترتیب کو بدلنے کی تحریک کی تھی۔ وہ فقہ حنفی کے دائرے سے بالکل نکل جانے کے حق میں نہیں تھے، البتہ جزئیات و فروعات میں ضرورت سے زیادہ تصلب کے قائل نہیں تھے۔ میں بحمد اللہ تعالیٰ ایک شعوری حنفی ہوں اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اس اسلوب کو زیادہ قرین قیاس اور قرین انصاف سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک فقہائے احناف میں سے امام ابو جعفر طحاویؒ کا یہ اسلوب زیادہ آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں احناف کے موقف کی وضاحت یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ امام ابوحنیفہؒ کا یہ فتویٰ ہے اور قرآن و حدیث اس کی یوں تائید کرتے ہیں، بلکہ وہ متعلقہ مسئلہ میں قرآن و حدیث سے تمام میسر آیات و روایات کو سامنے لاتے ہیں، ان سے پیدا ہونے والے ممکنہ پہلوؤں کا تعین کرتے ہیں، ان کا تجزیہ و تنقیح کر کے ترجیحات قائم کرتے ہیں اور پھر ایک پہلو کو ترجیح دے کر یہ کہتے ہیں کہ یہ بات جو انہوں نے قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے دلائل کے ساتھ ثابت کی ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔

    بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی جو درمیان میں آ گئی ہے۔ ہم دراصل ۱۸۵۷ء کے بعد احناف کے دائرے میں سامنے آنے والے دو مکاتب فکر یعنی دیوبندی اور بریلوی کے فقہی رجحانات میں فرق کی بات کر رہے تھے جو اگرچہ عملاً زیادہ نمایاں دکھائی نہیں دیتا، لیکن اس حد تک ضرور موجود ہے کہ دیوبندی مکتب فکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک سے وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے، مگر بریلوی مکتب فکر نہ صرف یہ کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ وہ اس قدیمی فقہی اور سماجی روایت کی مکمل نمائندگی کا دعویدار ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک سے قطع نظر برصغیر میں پہلے سے چلی آ رہی تھی، البتہ فقہی دائروں میں اس اصولی ہم آہنگی اور عملی تنوع کے باوجود بعض عقائد کی تعبیر و تشریح اور بعض اکابر علماء کی عبارات کی توجیہ و تطبیق میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا شدید اختلاف آج بھی کفر و اسلام کا معرکہ سمجھا جاتا ہے۔

    یہاں اسی دائرے کے ایک اور فقہی رجحان کا تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے جسے فرنگی محلی مکتب فکر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ علمائے فرنگی محل بھی حنفی تھی اور انہوں نے حنفی فقہ کی بہت علمی خدمت کی ہے اور یہ اعزاز انہی کے حصے میں جاتا ہے کہ درس نظامی کے نام سے جو نصاب تعلیم آج برصغیر کے دیوبندی، بریلوی بلکہ اہل حدیث مدارس میں بھی پڑھایا جاتا ہے، اس کا بنیادی ڈھانچہ فرنگی محل ہی کے ایک عالم دین ملا نظام الدین سہالویؒ کا طے کردہ ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد اس فقہی رجحان کی نمائندگی میں حضرت مولانا عبد الحئی لکھنویؒ کا نام سب سے نمایاں رہا، لیکن مولانا عبد الحئی لکھنوی کے بعد اس فقہی مکتب فکر کو اس سطح کی کوئی علمی شخصیت میسر نہ آ سکی جو اس کے الگ تشخص کو قائم رکھ سکتی، اس لیے یہ آہستہ آہستہ دیوبندی مکتب فکر میں ضم ہوتا چلا گیا۔

  • فقہ حنفی سے انحراف پر ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی رکھی جا چکی تھی جب حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ کی حجاز مقدس ہجرت کے بعد دہلی میں حضرت مولانا میاں نذیر حسین دہلویؒ نے تقلید ترک کرنے کا اعلان کیا اور دہلی میں درس حدیث دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اہل حدیث حضرات اسی بنا پر اپنے اس مکتب فکر کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ اس مکتب فکر نے بعد میں باقاعدہ طور پر اپنے لیے ’’اہل حدیث‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور اسی عنوان کے ساتھ یہ مکتب فکر اب تک کام کر رہا ہے، جبکہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے حلقہ نے اپنا مورچہ دیوبند میں لگایا اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک کے تسلسل کو (بالخصوص فکری اور سیاسی محاذ پر) آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔ دیوبند میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۸۶۶ء میں جس مدرسہ کا آغاز ہوا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حاجی عابد حسینؒ نے اپنے اس نئے مدرسے میں، جو بعد میں دار العلوم دیوبند کے نام سے دنیا بھر میں متعارف ہوا، نصاب تعلیم کی بنیاد درس نظامی پر رکھی، لیکن اس میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمی اصلاحات اور سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے روحانی تربیتی ذوق کو بھی شامل کر لیا، چنانچہ ان تینوں کے امتزاج سے ایک مستقل فقہی مکتب فکر وجود میں آ گیا جس کے اثرات و ثمرات آج دنیا بھر میں بالخصوص برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علمی، دینی اور تعلیمی حلقوں میں نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔

    دوسری طرف اہل حدیث مکتب فکر کا دائرہ بھی برابر پھیلتا جا رہا ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں میں اس کے پیروکار موجود ہیں۔ اہل حدیث مکتب فکر نے حنفی فقہ سے انحراف کرتے ہوئے الگ تشخص قائم کرنے کے لیے چند مسائل مثلاً ترک تقلید، فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، طلاق ثلاثہ اور دیگر بعض جزوی مسائل کو بنیاد بنایا اور قرآن و حدیث سے اپنے ذوق کے مطابق ان کے دلائل پیش کرنا شروع کیے تو اس کے جواب میں حنفی بالخصوص دیوبندی علماء نے بھی احادیث کی تدریس و تعلیم میں فقہ حنفی کے دفاع کا راستہ اختیار کیا۔ رفتہ رفتہ اس مبحث میں تشدد اور فتویٰ بازی بھی در آئی جس سے احادیث نبویہ کی تدریس میں فقہ حنفی کے مسائل و احکام کے اثبات یا ان کے رد نے ایک مستقل معرکہ کی صورت اختیار کر لی۔ اس کا آغاز حضرت مولانا میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ نے کیا۔ اس کے جواب میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فقہ حنفی کے دفاع کا مورچہ سنبھالا اور پھر ایک طرف سے مولانا محمد حسین بٹالویؒ ، مولانا محمد جونا گڑھیؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ جبکہ دوسری طرف سے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی جیسے سربرآوردہ علماء کرام اور ان کے تلامذہ نے اس علمی معرکہ آرائی کو ایسی مستقل حیثیت دی کہ آج بھی دینی مدارس میں صحاح ستہ کی تدریس و تعلیم میں اسی بحث و مباحثہ کا بازار گرم رہتا ہے۔

    میری طالب علمانہ رائے میں اس بحث کے آغاز کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ اہل حدیث علماء کرام کو اپنے الگ تشخص کے اظہار کے لیے اس کی ضرورت تھی جبکہ حنفی علماء کے لیے فقہ حنفی کے دفاع کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا، مگر اب جبکہ دونوں کی طرف پوزیشن، موقف، دلائل اور علمی مباحث پوری طرح واضح ہو چکے ہیں، دورۂ حدیث کی تدریس میں دونوں فریقوں کا سارا زور انہی مباحث پر اس حد تک صرف ہوتے چلے جانا کہ باقی بہت سے ضروری مباحث نظر انداز ہو رہے ہیں، کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے، لیکن بہرحال یہ صورت حال اب تک قائم ہے اور اس میں کسی بنیادی تبدیلی کے امکانات سردست دکھائی نہیں دے رہے۔

  • ۱۸۵۷ء کے بعد ایک اور فقہی اور فکری مکتب فکر سامنے آیا جس نے فقہ کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو بھی احکام و مسائل کا ماخذ بنانے سے گریز کرتے ہوئے صرف قرآن کریم کو عقائد و احکام کی بنیاد قرار دینے کا اعلان کیا۔ یہ سر سید احمد خان مرحوم کا مکتب فکر ہے جس نے حدیث نبوی کو نہ صرف یہ کہ احکام و قوانین کا مستقل ماخذ تسلیم نہیں کیا، بلکہ قرآن کریم کی تشریح میں بھی حدیث نبوی کو اتھارٹی ماننے سے انکار کر دیا اور کامن سینس کی بنیاد پر قرآن کریم کی تشریح کو بنیاد بنا کر اسلامی عقائد اور احکام و قوانین کی ازسرنو تشریح و تعبیر کو مطمح نظر بنا لیا۔ یہ مکتب فکر بھی موجود و متحرک ہے اور ہمارے دور میں اس کی نمائندگی میں چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے سب سے زیادہ شہرت پائی ہے۔ بعض حلقے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کو بھی اسی مکتب فکر سے وابستہ قرار دیتے ہیں، لیکن میری طالب علمانہ رائے میں یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ علامہ اقبالؒ جس طرح جابجا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں، اس کے پیش نظر انہیں حدیث نبوی کی حجیت کا انکار کرنے والوں یا اس کی حیثیت کو کم کرنے والوں میں شمار کرنا علامہ محمد اقبالؒ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔
  • ایک اور فقہی رجحان اور علمی اسلوب بھی اس دوران سامنے آیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مکتب فکر نے فقہ سے بغاوت اور اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی افادیت کو تسلیم کیا، البتہ فقہ حنفی کی پابندی کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے قرآن و سنت سے براہ راست استدلال اور اس کے بعد چاروں فقہی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بلکہ ظاہری مذہب سے بھی حسب ضرورت استفادہ کو ترجیح دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا شبلی نعمانیؒ ، مولانا ابو الکلام آزادؒ ، مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو اسی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ چند امتیازی مسائل سے ہٹ کر اہل حدیث علماء کرام اور مفتیان کرام کا عمومی اور عملی اسلوب بھی یہی ہے، لیکن بعض اکابر اہل حدیث علماء کرام کی طرف سے فقہ کی مذمت اور اسے مطلقاً مسترد کر دینے کی واضح تصریحات کے باعث مذکورہ بالا اصحاب علم کا ان سے ہٹ کر الگ تذکرہ میں نے ضروری سمجھا ہے۔

یہ تو طالب علمانہ تاثرات ہیں ان فقہی رجحانات کے بارے میں جو ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آئے اور جن کی کارفرمائی نہ صرف ۱۹۴۷ء تک قائم رہی بلکہ وہ اس کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے دائروں میں پوری طرح مصروف عمل ہیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد کی اجتہادی مساعی اور ارتقائی عمل

اب ہم آتے ہیں ان اجتہادی کوششوں اور اجتہادی مساعی کے اس ارتقائی عمل کی طرف جو ۱۸۵۷ء کے بعد شروع ہوا اور مختلف دائروں میں اجتہاد کے نام پر یہ عمل آج بھی جاری ہے، لیکن اس کے عملی پہلوؤں پر گفتگو سے قبل ان مختلف فکری دائروں پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے جو ان اجتہادی کوششوں اور اجتہادی عمل کی بنیاد بنے۔

اجتہادی کوششوں کی بنیاد بننے والے فکری دائرے

  • اجتہاد کا ایک فکری دائرہ تو یہ تھا اور اب بھی ہے کہ جس طرح یورپ میں مذہبی اصلاحات کی تحریک مارٹن لوتھر کی راہ نمائی میں چلی اور اس نے بائبل کی تشریح میں پاپائے روم اور چرچ کو فائنل اتھارٹی ماننے سے انکار کر کے پروٹسٹنٹ ازم کے عنوان سے مذہب کی تشریح نو بلکہ ری کنسٹرکشن کا راستہ اختیار کیا، اسی طرح ہم بھی پورے مذہبی ڈھانچے کی تشکیل نو کریں اور ماضی کے تمام اجتہادات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف قرآن کریم کی بنیاد پر اسلام کا نیا اعتقادی، عملی اور اخلاقی ڈھانچہ طے کریں۔ اس گروہ کے نزدیک ’’اجتہاد‘‘ صرف اس انتہائی عمل کا نام ہے اور اس سے کم وہ کسی درجہ کے عمل کو اجتہاد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
  • اجتہاد کا دوسرا دائرۂ فکر یہ سامنے آیا کہ فقہی مذاہب کے حصار کو ختم کر کے قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط و استدلال کیا جائے، البتہ ثانوی درجے میں کسی خاص فقہی مذہب کی پابندی نہ کرتے ہوئے بوقت ضرورت کسی بھی فقہی مذہب سے استدلال کر لیا جائے۔
  • اجتہاد کے نام پر ایک سوچ اور فکر یہ بھی پائی جاتی ہے کہ امت میں ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہو جانے کا جو نظریہ پایا جاتا ہے، اسے مسترد کر کے فقہ کی تشکیل نو کا کام اسی ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سے دوبارہ شروع کیا جائے جہاں سے حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین نے اس کا آغاز کیا تھا۔
  • اجتہاد کا ایک نظریہ یہ بھی سامنے آیا کہ فقہ حنفی کے اصولی دائرے کا قائم رکھتے ہوئے فروعات و جزئیات میں دوسری مسلمہ فقہوں سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جائے۔
  • ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اصول و فروع دونوں میں فقہ حنفی کی پابندی کو بہرصورت قائم رکھا جائے اور جہاں حالات اور ضروریات کا تقاضا ہو، وہاں فقہ حنفی کے اصولوں کے تحت ہی فروعات و جزئیات کے درجے میں اجتہاد کیا جائے۔
  • جعفری اور زیدی فقہ کے علماء کرام کے ہاں ان دو فقہوں کے الگ اصول و ضوابط ہیں جن کے تحت وہ اجتہادی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • بہت سے ذہنوں میں اجتہاد کے بارے میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ اجتہاد کسی علمی، استنباطی اور استدلالی سعی و کاوش کا نام نہیں، بلکہ پاپائے روم کی طرح کا کوئی صواب دیدی اختیار علمائے کرام کو حاصل ہے اور انہیں سوسائٹی کی ضروریات اور مطالبات کو پورا کرنے کے لیے یہ صوابدیدی اختیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

یہ اجتہاد کے مختلف مفہوم ہیں جو مختلف حلقوں اور طبقات کے ذہنوں میں ہیں اور ہر طبقہ کا ’’اجتہاد‘‘ ایک الگ اور مستقل مفہوم کا حامل ہے۔

۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان کی اجتہادی کاوشیں

ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم ان عملی کاوشوں میں سے مثال کے طور پر چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جن سے اس خطے کے مسلمان عوام نے ۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان عرصے میں استفادہ کیا:

  • ۱۸۵۷ء کے بعد ایک عملی مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ حنفی فقہ میں جمعہ کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ امام حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہو جبکہ دہلی کے اقتدار پر تاج برطانیہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد کوئی مجاز حکومت موجود نہیں رہی تھی جو امام و خطیب کا تقرر کر سکے یا جس کا باضابطہ نمائندہ نماز جمعہ میں خطبہ و امامت کا فریضہ سرانجام دے سکے تو اب نماز جمعہ کی ادائیگی کیسے ہوگی؟ اس پر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر یہ راستہ اختیار کیا کہ کسی امام پر مسلمانوں کی اکثریت کی رضامندی کو اسلامی حکومت کی طرف سے تقرری کا قائم مقام قرار دیتے ہوئے اس شرط میں لچک پیدا کی اور جمعۃ المبارک کو ساقط کرنے کے بجائے اس کا تسلسل باقی رہنے دیا۔ یہ بلاشبہ ایک اجتہادی عمل تھا جو ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آیا جبکہ بعض حلقوں میں اس صورت میں جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ احتیاطاً ظہر کی نماز کی ادائیگی کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
  • ملک کا قانونی نظام یکسر تبدیل ہو جانے کے باعث مسلمانوں کو سب سے زیادہ مشکل خاندانی معاملات مثلاً نکاح و طلاق اور وراثت و کفالت وغیرہ میں پیش آئی کہ ان خالص مذہبی معاملات میں غیر اسلامی قانون اور غیر اسلامی عدالتوں کے فیصلوں کو کیسے قبول کیا جا سکے گا؟ اس پر ایک طرف تو برطانوی حکومت نے یہ سہولت دے دی کہ مسلمانوں کے شخصی قوانین میں ’’محمڈن لا‘‘ یعنی اسلامی شرعی قوانین کی اہمیت کو تسلیم کیا اور عدالتوں میں انہی قوانین کی پابندی کو لازمی قرار دیا، دوسری طرف علمائے کرام نے ایسے تنازعات میں ’’قضا‘‘ کا راستہ بند دیکھ کر ’’تحکیم‘‘ کے شرعی اصول کی طرف توجہ دی اور برصغیر کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبہ بہار میں ’’امارت شرعیہ‘‘ یا اس سے ملتے جلتے ناموں کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھایا جس سے عام مسلمانوں کو یہ سہولت حاصل رہی کہ وہ اگر اپنے تنازعات کا فیصلہ خالصتاً شرعی بنیادوں پر کرانا چاہتے ہیں تو وہ ایسے اداروں سے استفادہ کر سکیں۔
  • برطانوی استعمار کے قبضہ کے بعد برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے بہت سے اکابر علمائے کرام نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہی ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر آزادی کے حصول کے لیے جہاد کو شرعی فریضہ قرار دے دیا تھا اور اس فتویٰ کی بنیاد پر درجنوں مسلح تحریکوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑی ہے، لیکن ایک مرحلہ آیا کہ اس طریق کار پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آئی تو علمائے کرام نے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پرامن سیاسی تحریک کا طرز عمل اپنایا اور حصول آزادی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کو ہی ’’جہاد آزادی‘‘ کا قائم مقام قرار دے کر اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اس کے لیے وقف کر دیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی ایک اجتہادی عمل تھا جو برصغیر کے علمائے کرام کی اجتہادی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔
  • مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور برطانوی استعمار کے زیر سایہ ایک نئی امت پروان چڑھائی گئی تو ان کے ساتھ معاملات اور معاشرتی تعلقات کے تعین کا مسئلہ درپیش ہوا۔ ایسی صورت میں فقہی احکام و قوانین کا ایک مستقل دائرہ موجود ہے جو ماضی کی اسلامی حکومتوں میں رو بہ عمل بھی رہا ہے، لیکن معروضی حالات میں ان احکام و قوانین پر عمل دشوار تھا۔ اس لیے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کو علمائے کرام نے اجتماعی طور پر قبول کر لیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں پر فقہی احکام کا اطلاق کرنے کی بجائے انہیں مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ کے طور پر قبول کر کے ان کا اس حیثیت سے معاشرتی درجہ طے کیا جائے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی علماء کرام کا ایک اجتہادی عمل تھا جس پر وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی قائم رہے اور قادیانیوں پر فقہی احکام کے اطلاق کا مطالبہ کرنے کے بجائے انہیں نے انہیں دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلے پر قناعت کر لی۔
  • تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں شریک علماء کرام کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی تو اس کی شرعی حیثیت اور اس کا شرعی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں بھی فقہی احکام و قوانین کے مستقل ابواب موجود ہیں اور مغل بادشاہت اور عثمانی خلافت کے نظائر بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں، لیکن یہ دونوں صورتیں دور جدید کے لیے قابل قبول نہیں تھیں، اس لیے علماء کرام نے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے فقہی احکام و قوانین کے من و عن اطلاق پر اصرار نہیں کیا بلکہ قرآن و سنت کی پابندی کی شرط کے ساتھ جمہوری حکومت کے تصور کو قبول کر لیا جو بلاشبہ ایک اجتہادی عمل تھا جس کے تحت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرف سے پاکستان میں جمہوری حکومت اور قرآن و سنت کی بالادستی کی یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد تحریک پاکستان میں شامل ہوئی اور قیام پاکستان کے بعد بھی قرارداد مقاصد، تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کی صورت میں اسی اجتہادی سوچ اور عمل کو آگے بڑھایا گیا۔

یہ چند مثالیں اجتماعی اور قومی سطح کے ان اجتہادات کی ہیں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے درمیانی عرصہ میں اس خطے میں عملاً رونما ہوئے جبکہ جزوی اجتہادات کا دامن بھی بہت وسیع رہا جس کا مشاہدہ مختلف مکاتب فکر کے بیسیوں بڑے مفتی صاحبان کے فتاویٰ اور مراکز فتاویٰ کے علمی فیصلوں کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ دار الافتاء کے نام سے قائم ان مراکز کا شمار سیکڑوں میں ہے مگر ان میں بیسیوں ایسے ہیں جو خود علماء کرام اور علمی حلقوں کے لیے مراجع کی حیثیت رکھے ہیں اور ایسے علمی مراکز پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما میں مختلف فقہی مکاتب فکر اور مذاہب کے حوالے سے مسلسل مصروف کار ہیں۔ ان مراکز کے جاری کردہ ہزاروں بلکہ لاکھوں فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سیکڑوں ایسے فتاویٰ ملیں گے جن میں مفتیان کرام نے ماضی کے فتاویٰ سے ہٹ کر زمانے کی ضروریات کے پیش نظر اجتہادی راستہ اختیار کیا ہے، البتہ ان میں اجتہادی دائرہ وہی ہے کہ اپنے اپنے فقہی مذاہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اسی کے اصولوں کی روشنی میں نئے فتوے دیے گئے ہیں جبکہ بعض فتاویٰ میں فقہی مذاہب کے حصار کو کراس کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔ مثال کے طور پر دو مسئلوں کا حوالہ دینا چاہوں گا:

  • ایک یہ کہ رؤیت ہلال میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟ اس میں احناف متقدمین کا موقف شروع سے یہ چلا آ رہا ہے کہ اختلاف مطالع کا وجود تو ہے لیکن رؤیت ہلال میں شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے اور کسی جگہ بھی چاند نظر آ جانے کے شرعی ثبوت اور مصدقہ خبر پر باقی سب مقامات پر روزے اور عید کا اعلان ضروری ہے یا کم از کم یہ ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ پوزیشن بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی تک اسی طرح رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کا فتویٰ دیا گیا تو متقدمین احناف کے موقف اور فتویٰ کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔
  • دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مفقود الخبر خاوند کی زوجہ کو نکاح ثانی کی اجازت کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے قول کی بجائے عمومی ضرورت کی بنا پر مالکیہ کے قول پر فتویٰ دیا گیا ہے۔ یہ دو مسئلے میں نے مثال کے طور پر ذکر کیے ہیں۔ اگر اس رخ پر گزشتہ صدی کے ذمہ دار مفتیان کرام کے فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو سیکڑوں ایسے فتاویٰ مل جائیں گے جن میں یہ صورت اختیار کی گئی ہے اور یہ عمل محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر بہرحال اجتہاد ہی کا عمل ہے۔

مسلمانوں کے تنازعات و مقدمات کے شرعی قوانین کے مطابق فیصلوں کے لیے قضا، تحکیم اور افتاء کے تین ادارے ہیں جن میں سے قضا کے پاس تنفیذ کی قانونی قوت اور تحکیم کے پاس اس کی اخلاقی قوت موجود ہوتی ہے جبکہ افتاء کا کام صرف مسئلہ کی شرعی پوزیشن کو واضح کر دینا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ملک کے عمومی قانونی نظام میں ’’قضا‘‘ کا شرعی ادارہ موجود نہیں رہا تھا، لیکن اندرونی طور پر نیم خود مختار مسلم ریاستوں میں قضا کا یہ ادارہ بھی کام کرتا رہا ہے۔ مثلاً بہاولپور، قلات، سوات اور دیگر ایسی ریاستوں میں ان کے دائرۂ اختیار کی حدود میں قضا کا شعبہ قائم تھا اور ان میں فقہی احکام و ضوابط کے مطابق ریاست کے مقرر کردہ قاضی مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔ ان ریاستوں میں قضا کا یہ ادارہ ان کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق تک موجود رہا ہے، جبکہ تحکیم کے شعبہ نے مختلف علاقوں میں اس خلا کو بعض معاملات میں پر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے ہٹ کر بعض خطوں میں ’’امارت شرعیہ‘‘ کا باضابطہ نظام بھی موجود رہا ہے، البتہ فتویٰ کا شعبہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک برصغیر کے ہر علاقے میں اور ہر سطح پر قائم رہا ہے جس سے عام مسلمانوں کو کسی بھی معاملے میں شریعت کا حکم معلوم کرنے کی سہولت حاصل رہی ہے اور مسلمانوں کی غالب اکثریت مسلسل اس سہولت سے استفادہ کرتی چلی آ رہی ہے۔

۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء کا تحفظاتی دور اور اس کے نتائج

۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کا نوے سالہ دور دراصل برصغیر یعنی پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما پر مشتمل خطے کے مسلمانوں کے لیے مجموعی طور پر ایک تحفظاتی دور تھا جس میں دین سے وابستہ ہر شخص اور طبقہ کا بنیادی ہدف صرف یہ تھا کہ جو کچھ بچایا جا سکتا ہو اور جس طریقے سے بھی بچایا جا سکتا ہو، بچا لیا جائے۔ اندلس کی مثال ہمارے سامنے تھی کہ کم و بیش آٹھ سو برس حکومت کرنے کے بعد جب مسلمانوں کو طاقت کے زور سے وہاں سے نکال دیا گیا تو اسلام کو بھی کسی شکل میں وہاں نہیں رہنے دیا گیا۔ یہی خطرہ برصغیر کے مسلمانوں کو بھی درپیش تھا اور ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ کی شہادت سے لے کر ۱۸۵۷ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور حکمرانی اپنی پالیسی ترجیحات کے حوالے سے اس خطرہ کی مسلسل نشان دہی کر رہا تھا، اس لیے دین کی بات کرنے والے ہر طبقہ اور گروہ نے اس نتیجہ اور انجام سے برصغیر کے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں کردار ادا کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے طرز عمل اور ترجیحات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور پوری شدت کے ساتھ کیا بھی گیا ہے، لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو باہمی تنوع، اختلاف بلکہ مسلسل کشمکش اور تنازعات کے باوجود یہ مساعی برصغیر کو اندلس بننے سے روکنے میں کامیاب ثابت ہوئی ہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ دور حکومت اور پھر تاج برطانیہ کی نوے سالہ حکمرانی کے بعد جب اس خطے کے مسلمانوں نے ۱۹۴۷ء کی آزاد فضا میں سانس لینا شروع کیا تو انہیں اپنے دین کے ساتھ عقیدہ و عمل دونوں حوالوں سے اپنی وابستگی میں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آیا۔

میں یہاں دو پہلوؤں کی طرف بطور خاص توجہ دلانا چاہوں گا:

  • ایک یہ کہ یورپ کی مسیحی قوتیں اندلس پر دوبارہ قبضے کے بعد جو نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں، وہ نتائج کم و بیش دو صدیوں کے مسلسل اقتدار کے باوجود برصغیر میں کیوں حاصل نہیں کر سکیں؟ اس کا جواب تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر یہ عرض کروں گا کہ اندلس میں اسلام تلوار کے ساتھ داخل ہوا تھا، اس لیے جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں تلوار رہی، وہ مضبوط و مستحکم رہے اور جونہی ان کی تلوار کند ہوئی، وہ اسلام سمیت وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے، لیکن برصغیر میں اسلام کی آمد تلوار سے کہیں زیادہ صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ذریعے ہوئی ہے۔ مجھے ہندوستان کو اسلام سے متعارف کرانے میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور دیگر مسلم جرنیلوں کی شاندار خدمات سے انکار نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کے فروغ میں سید علی ہجویریؒ اور خواجہ معین الدین اجمیریؒ جیسے اکابر اولیاء کرام کا کردار ان سے کہیں زیادہ اہم اور اساسی حیثیت رکھتا ہے اور میرا طالب علمانہ تجزیہ یہ ہے کہ یہاں اسلام دلوں کے راستے سے آیا تھا اور برطانوی استعمار کے دو سو سالہ اقتدار کے دوران ایسے ہی ”اصحاب قلب و نظر“ نہ صرف موجود بلکہ بیدار و متحرک بھی رہے ہیں، اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ اپنے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ”دل دریا سمندروں ڈوہنگے“ کی اس گہرائی تک رسائی حاصل نہیں کر پائے کہ یہاں کے مسلمانوں کی اپنے دین کے ساتھ وابستگی کو ”تارپیڈو“ کر سکیں۔

    اس تحفظاتی کشمکش اور دفاعی جنگ میں سب سے نمایاں کردار ان دینی مدارس کا ہے جو ۱۸۵۷ء کے بعد دینی تعلیم کے تحفظ کے نا م پر وجود میں آئے اور انہوں نے صرف دینی تعلیم کے تسلسل کو ہی باقی نہیں رکھا، بلکہ ایمان و عقیدہ، فکر و نظر، تمدن و ثقافت اور اقدار و روایات کا کوئی شعبہ بھی ان کی سعی مسلسل کی جولان گاہ سے باہر نہیں رہا۔ ۱۸۵۷ء سے قبل جو دینی مدرسے سرکاری نظم کے تحت اور ریاستی وسائل کے ساتھ کام کر رہے تھے، وہ ۱۹۴۷ء کے بعد اپنے وجود اور کردار سے محروم ہو گئے تھے۔ ہزاروں مدارس جبراً بند کر دیے گئے، ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں، سیکڑوں مدارس بلڈوز ہوئے، ہزاروں علماء گرفتار ہوئے اور پھانسیوں پر چڑھ گئے حتیٰ کہ یوں نظر آنے لگا کہ اب نہ صرف دینی مدرسہ بلکہ مولوی، امام، خطیب، مدرس اور مفتی نام کی کوئی چیز اس خطہ زمین میں موجود نہیں رہے گی، لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد امداد باہمی کی بنیاد پر قائم ہونے والے ان دینی مدارس نے اس خلا کو اس کامیابی کے ساتھ پر کیا کہ برصغیر کی کوئی بستی مدرسہ، مولوی، مفتی، خطیب، حافظ اور قاری کے وجود سے خالی نہیں ہے بلکہ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے دینی مدارس اپنی اس پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہیں، بلکہ دنیا بھر میں اپنا مال ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں کہ آپ دنیا کے کسی خطے میں چلے جائیں، آپ کو وہاں مسلمانوں کی مساجد و مکاتب میں برصغیر کے کسی نہ کسی مدرسہ کا کوئی فاضل اور تعلیم یافتہ دینی خدمات سرانجام دیتا ہوا نظر آئے گا۔

    آج آپ کو ہزاروں مدارس بڑی بڑی بلڈنگوں میں نظر آئیں گے اور سیکڑوں مدارس ایسے ہیں جن کے سالانہ بجٹ کروڑوں روپے میں ہیں، جبکہ ان کی غالب اکثریت کسی قسم کی سرکاری امداد و تعاون سے بے نیاز ہو کر محض عوام کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ یہ نظام چلا رہے ہیں، لیکن ان مدارس کی ابتدائی صورت پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ایک عالم دین نے کسی مسجد میں ڈیرہ لگا لیا ہے، اس کے گرد چند طلبہ جمع ہو گئے ہیں، ان کی رہائش بھی مسجد میں ہے اور محلہ کے مسلمانوں نے انہیں اپنے گھر سے روٹی دینا شروع کر دی ہے جبکہ مولوی صاحب تنخواہ یا مراعات کے کسی تعین کے بغیر کام کیے جا رہے ہیں۔ برصغیر کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد نے اس طریقے سے تعلیم پائی ہے اور میں نے اپنے بچپن میں مدرسہ کا یہ نظام نہ صرف دیکھا ہے بلکہ ابتدائی چند سال اس سے استفادہ بھی کیا ہے۔ ایثار و قناعت، صبر و حوصلہ اور عزیمت کی بنیاد پر تشکیل پانے والے اس رضاکارانہ تعلیمی نظام کے وسیع جال نے ”تحفظ و دفاع“ کی اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسی کے بارے میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے یہ کہا تھا کہ اس مدرسے کو اسی حالت میں رہنے دو، اس لیے کہ یہ مدرسہ اگر موجود نہ رہا تو اس کا جو نتیجہ ہوگا، وہ میں اپنی آنکھوں سے اسپین میں دیکھ آیا ہوں۔

  • دوسری بات جس کا تذکرہ میرے خیال میں یہاں ضروری ہے، یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ ”تحفظاتی جنگ“ جہاں انہیں اسپین اور اندلس کے تناظر سے الگ کرتی ہے، وہاں مغربی استعمار کے تسلط میں آنے والے دیگر مسلم ممالک سے بھی انہیں اس حوالے سے ممتاز کرتی ہے کہ یہاں کے اہل دین نے صرف عقیدہ و علم کی حفاظت نہیں کی بلکہ اپنے معاشرتی ماحول اور سماجی روایات کا تسلسل بھی باقی رکھا ہے، چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک میں استعماری تسلط سے پہلے اور بعد کے معاشرتی ماحول، بالخصوص مذہبی حلقوں کی طرز معاشرت میں نمایاں فرق نظر آتا ہے، لیکن برصغیر کے تینوں بلکہ چاروں ممالک (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما) کے مسلمانوں میں عام طور پر استعماری دور سے پہلے اور بعد کے ماحول میں آپ کوئی اساسی فرق نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہمارے بہت سے دوست اسے تنگ نظری پر محمول کریں گے، لیکن آج کے عالمی ماحول میں اس کے ثمرات و نتائج دیکھ کر میں اسے دور اندیشی اور حکمت عملی سے تعبیر کروں گا جس کے نتیجے میں اس خطے کے مسلمان آج پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کھڑے ہیں کہ عالمی استعمار اپنے سو سالہ بالواسطہ، نوے سالہ براہ راست اور اس کے بعد ساٹھ سالہ ریموٹ کنٹرول تسلط کے باوجود ان کے ایمان و عقیدہ، فکر و نظر اور تمدن و ثقافت میں سے کسی چیز میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ گویا کہ
    ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
    جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

    ہو سکتا ہے کہ آپ حضرات میری اس گزارش سے اتفاق نہ کریں، لیکن میں تاریخ کے ایک شعوری طالب علم کی حیثیت سے ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک برصغیر میں لڑی جانے والی اس تحفظاتی جنگ اور اس کی ترجیحات کو بھی ان چند درویش صفت بزرگوں کی ”فقہی بصیرت“ کا آئینہ دار قرار دوں گا جنھوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد کے حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایسے راستے پر ڈال دیا کہ وہ عقیدہ و ثقافت، دونوں حوالوں سے آج بھی عالمی استعمار کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter