کعبۃ اللہ یا وائٹ ہاؤس؟ جنرل پرویز مشرف کا امتحان

   
تاریخ اشاعت: 
۱۹ مئی ۲۰۰۰ء

سپریم کورٹ آف پاکستان کے بارہ جج صاحبان نے متفقہ طور پر جنرل پرویز مشرف کے بارہ اکتوبر کے اقدام کو نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا ہے اور انہیں تین سال تک عام انتخابات کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی سونپ دیا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کو بھی سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کا اختیار دیا تھا مگر اس میں تین سال کے عرصہ کی قید نہیں تھی۔ چنانچہ جنرل مرحوم نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اقدامات کے ذریعے گیارہ سال تک اقتدار کو اپنے پاس رکھا تھا اور اگر بہاولپور کا سانحہ پیش نہ آتا تو بظاہر ابھی اقتدار سےا ن کا الگ ہونے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف کی حکومت برطرف کرتے ہوئے آرمی چیف کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو ان کا یہ اقدام آئین سے ماورا ہونے کے باوجود نہ صرف پاکستانی عوام نے اسے قبول کرتے ہوئے اس میں خیرمقدم اور خوش آمدید کارنگ بھر دیا تھا بلکہ بین الاقوامی اداروں اور امریکہ سمیت مغربی حکومتوں نے بھی اس کے بارے میں ’’گوارا ہے‘‘ کی پالیسی اختیار کر لی تھی۔ اس لیے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت عالمی قوتوں اور پاکستانی عوام دونوں کی توقعات پر پوری نہیں اتری تھی اور بیک وقت دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش میں وہ دونوں کے اعتماد سے محروم ہوگئی تھی۔ جس کی وجہ سے بارہ اکتوبر کے اقدام کو دونوں حلقوں میں اپنے اپنے انداز سے قبول کر لیا گیا اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسے سندِ جواز بھی فراہم کر دی ہے۔

اس ’’عدالتی مینڈیٹ‘‘ کے بعد جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کا رخ کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ چند روز تک ہو جائے گا بلکہ کچھ کچھ ہو بھی رہا ہے۔ مگر ہماری فقیرانہ رائے ہے کہ جنرل پرویز مشرف بھی میاں محمد نواز شریف کی طرح اسی مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں کہ عالمی اداروں اور پاکستانی عوام میں سے کس کو خوش رکھنا ہے اور ان میں سے کس کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کی خواہشات، توقعات اور ترجیحات مختلف بلکہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور دونوں کو بیک وقت خوش رکھنے کی کوئی کوشش اب میاں نواز شریف کے حشر سے سبق حاصل نہ کرنے کی کوشش ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
مغربی ممالک اور عالمی اداروں کی توقعات اور ایجنڈا کچھ اس طرح ہے کہ:

  • پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی قبول کرتے ہوئے کشمیر سے دستبردار ہو جائے، چین کے خلاف امریکہ کے قائم کردہ متحدہ محاذ میں شریک ہو، اور نیپال، سکم اور بھوٹان کی طرح ایک طفیلی ریاست کی حیثیت اختیار کرے۔
  • پاکستان صنعتی ترقی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، وسطی ایشیا کی منڈی کی طرف للچائی ہوئی نظر سے دیکھنے کی بجائے ایک زرعی ملک کی حیثیت پر اکتفا کرے اور صنعتی ممالک کے لیے وسطی ایشیا تک محض ایک گزرگاہ بن جانے کے ساتھ ساتھ خود بھی منڈی بننا قبول کرے۔
  • مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لیے خطرات کا باعث بننے کی بجائے ان کے استحکام اور ترقی کے لیے کردار ادا کرے۔
  • حکومت پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بڑی حکومتوں کے قرضے اور سود کی قسطیں بہرصورت ادا کرنے کے لیے اپنے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتی چلی جائے اور مالیاتی اداروں کو یہ مواقع فراہم کرتی رہے کہ وہ پاکستانی عوام کو کوئی ریلیف فراہم کرنے کی بجائے ان کے گرد معاشی پابندیوں اور ٹیکسوں کے حصار تنگ سے تنگ تر کرتے چلے جائیں۔
  • پاکستان اپنی شمال مغربی سرحد پر افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت کی تقویت اور استحکام کا باعث نہ بنے بلکہ طالبان کو کسی طرح گھیر گھار کر شمالی اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت کے لیے آمادہ کرے تاکہ افغانستان کی حکومت میں اسلامیت کے عنصر کو جس حد تک ممکن ہو کم کیا جا سکے۔
  • پاکستان کے اندر دینی مدارس جہادی تحریکات اور مذہبی اقدار کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ثقافت و کلچر کی آڑ میں حلال و حرام کے تصور سے ناآشنا معاشرت کے فروغ کی مہم کو ہر سطح پر عام کیا جائے۔

ظاہر بات ہے کہ یہ ایجنڈا یا اس کی کوئی ایک شق بھی پاکستانی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ بلکہ اپنے پڑوس میں طالبان حکومت کی سادگی، قناعت پسندی، دینی حمیت، قومی غیرت اور قرضوں کے لیے عالمی طاقتوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کی روش کو دیکھ کر پاکستانی عوام کا بھی جی چاہتا ہے کہ:

  • ان کے ملک کا نظام تبدیل ہو، پروٹوکول اور پرسٹیج کے تکلفات سے انہیں نجات ملے اورانہیں قناعت پسند اور کفایت شعار حکمران اور افسران میسر ہوں۔
  • انہیں طبقاتی امتیاز سے چھٹکارا حاصل ہو، وسائل اور دولت کی غلط تقسیم اور ہوشربا معاشی تفاوت کی لعنت سے جان چھوٹے۔
  • قرضوں کا شکنجہ ٹوٹے، قومی دولت لوٹنے والوں کا حقیقی احتساب ہو اور ان سے قومی دولت اور اثاثے واپس لیے جائیں۔
  • وہ مذہبی عدم رواداری اور فرقہ وارانہ تشدد کی دلدل سے نکلیں اور ایک پرامن اور خوشحال قوم کی حیثیت سے انہیں اقوامِ عالم کی برادری میں جائز اور باوقار مقام حاصل ہو۔
  • پاکستان کی شہ رگ کشمیر سے بھارت کا آہنی پنجہ ہٹے اور کشمیری عوام آزادی حاصل کریں۔
  • اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار ہوں اور ایک مضبوط اسلامی بلاک تشکیل پائے۔
  • بیت المقدس آزاد ہو اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق ملیں۔
  • جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر باوقار تعلقات قائم ہوں، طاقت کا کوئی بھی عدم توازن اس خطہ میں بھارت کی بالادستی کا ذریعہ نہ بنے۔ اور افغانستان اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اسلامی اخوت کی بنیاد پر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے چلے جائیں۔

یہ دو ایجنڈوں کا ٹکراؤ ہے اور دو پروگراموں کا تصادم ہے۔ اس لیے جنرل پرویز مشرف کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کہ وہ ان میں سے کس کا ساتھ دیتے ہیں اور کس پروگرام کو قبول کرتے ہیں۔ جنرل صاحب برسراقتدار آئے تو بہت سے دوست پوچھتے تھے اور اب بھی مختلف حضرات دریافت کرتے رہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کس کے نمائندے ہیں اور کس لابی سے تعلق رکھتے ہیں؟ میں ان سے عرض کرتا تھا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دو دھاری تلوار کس طرف چلے گی۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا اور جنرل پرویز مشرف کا ایجنڈا اور ترجیحات نشاندہی کریں گے کہ وہ اصل میں کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

میرے خیال میں وہ وقت آگیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے جنرل پرویز مشرف کو اس فیصلہ کن دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے انہوں نے بہرحال کسی ایک طرف ٹرن لینا ہے۔ میں اس نازک مرحلہ پر جنرل پرویز مشرف سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ صرف اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ صرف ایک شخص کا ٹرن نہیں بلکہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کے مجموعی تناظر میں پوری امت مسلمہ کا ٹرن بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے وائٹ ہاؤس اور کعبۃ اللہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہوئے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں اور پوری طرح جائزہ لے لیں کہ وہ تاریخ کے صفحات میں اپنی تصویر صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری یا پھر میر جعفر، میر صادق اور شریف مکہ حسین میں سے کس کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter