علماء کرام کی ذمہ داریاں اور جدوجہد کے دائرے

   
تاریخ: 
۲۰ جون ۲۰۱۸ء

۲۰ جون بدھ کو جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ جنڈ ضلع اٹک کے زیراہتمام جامعہ سراج العلوم میں علماء کرام کے ایک بھرپور علاقائی اجتماع میں شرکت کا موقع ملا۔ جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے نائب امیر اول مولانا قاری محمد رفیق عابد علوی اور عزیز ساتھی عبد القادر عثمان رفیق سفر تھے۔ اس اجتماع میں موجودہ حالات کے تناظر میں علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کا موقع لا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ جنڈ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے علاقہ بھر کے علماء کرام کے اس بھرپور اجتماع میں حاضری اور گفتگو کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ مجھ سے پہلے مولانا قاضی عبد الرشید، مولانا مفتی محمد فاروق اور دیگر مقررین موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں، میں بھی اس میں شریک ہونے کے لیے کچھ باتیں عرض کروں گا:

  1. پہلی بات یہ ہے کہ آج کے انسانی معاشرہ میں ہمارا تعارف کیا ہے؟ تاکہ ہم اس کے مطابق اپنا مقام و حیثیت صحیح طور پر سمجھ کر ذمہ داریوں کا تعین کر سکیں۔ ہمیں آج کے قومی بلکہ عالمی معاشرہ میں دین کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، اسلام کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور قرآن و سنت کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اور جب ہم خود کو انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث کہہ کر اپنے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں تو اس تعارف اور حیثیت کو پختہ کر دیتے ہیں اور اسے کنفرم کر دیتے ہیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا دائرہ کار کیا ہے؟ اگرچہ ہم ایک ماحول میں کام کرتے ہیں اور ہماری سرگرمیوں کا دائرہ اپنا ملک، قوم اور علاقہ ہوتا ہے لیکن میرے خیال میں عملی طور پر ہم پھر سے اپنے اس نقطۂ آغاز پر واپس جا چکے ہیں جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر مکہ والوں کو جمع کر کے اپنے خطاب اور دعوت کا آغاز ’’ایہا الناس‘‘ سے کیا تھا۔ ہمارا اصل خطاب کسی قوم، علاقہ یا طبقہ سے نہیں ہے بلکہ نسل انسانی سے ہے۔ اور آج جب وطن و قوم، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کے فاصلے سمٹتے چلے جا رہے ہیں اور ایک گلوبل ہیومن سوسائٹی قائم ہو رہی ہے، ہمیں دین کی بات اسی ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سے کرنا ہوگی اور اسے مؤثر بنانے کے لیے وہی کردار پیش کرنا ہوگا جس کی رسول اکرمؐ نے ہمیں ہدایت کی ہے۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ عملاً اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جب آپ دین کی بات کرتے ہیں اور انسانی معاشرہ کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات و ہدایات کو قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو آپ سے اختلاف بلکہ مزاحمت کرنے میں سب سے پہلے عالمی ادارے اور بین الاقوامی فورم و لابیاں حرکت میں آتی ہیں حتیٰ کہ ہمارے مقامی مخالفین کو بھی وہی لوگ حرکت میں لاتے ہیں۔ اس لیے دین کی دعوت اور اس کی مزاحمت و مخالفت کا عالمی ماحول نہ صرف موجود ہے بلکہ متحرک ہے اور ہمیں اس کا شعور و ادراک ہو یا نہ ہو، ہماری ہر بات کا ردعمل اور جواب عالمی ماحول کی طرف سے سامنے آتا ہے جس کا جواب اسی ماحول اور سطح پر دینا ضروری ہے۔
  4. چوتھی بات یہ ہے کہ دین کی بات کرنے، وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف نسل انسانی کو بلانے اور قرآن و سنت کا معاشرتی ماحول قائم کرنے کی محنت میں آپ لوگ تنہا ہیں اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات اس میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے ادارے اور طبقات آپ کی مخالفت کر رہے ہیں یا کم از کم اپنا وزن آپ کے مخالفین کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ جبکہ کچھ طبقات و افراد خاموشی کے ساتھ اس کشمکش کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ وزنی پلڑے میں خود کو شامل کر سکیں۔ یہ کشمکش اعتقادی ہے، فکری ہے یا تہذیبی ہے، اس میں آپ حضرات جو اہل دین ہیں اور علماء کرام کہلاتے ہیں، تنہا ہیں۔ آپ کو اکیلے ہی یہ جنگ لڑنی ہے اور بہرحال لڑنی ہے کہ آپ کے پاس اس سے پیچھے ہٹنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔

اس مجموعی صورتحال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں اور محنت و کاوش کے دائرے کونسے ہیں؟

  1. پہلا دائرہ یہ ہے کہ عام مسلمان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق قائم رہے، مسجد کے ساتھ اس کا رابطہ موجود رہے اور اہل دین اور علماء کرام کے ساتھ اس کا میل جول باقی رہے۔ یہ دینی محنت کا سب سے پہلا اور وسیع میدان ہے اور یہ محنت کرنے اور جان کھپانے سے ہی ہوگا، خودبخود نہیں ہو جائے گا۔ اس محنت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ دعوت و تبلیغ کی محنت کرنے والوں کو معاون بنا دیا ہے جو اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان و انعام ہے۔ وہ عام آدمی کو جس کا مسجد کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے گھیر گھار کر مسجد میں لے آتے ہیں، اور عام مسلمان کو جو علماء کرام کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا اسے کسی نہ کسی طرح مسجد میں لا کر ہمارے پیچھے کھڑا کر دیتے ہیں اور اس کی زبان سے ’’پیچھے اس امام کے‘‘ کے الفاظ کہلا دیتے ہیں۔ مگر ہماری یہ بدنظمی اور بے ترتیبی ہے کہ مسجد میں آنے والے لوگوں کو سنبھالنے میں ہم وہ کچھ نہیں کر پا رہے جو ہمیں کرنا چاہیے بلکہ بعض مقامات میں ہمارے درمیان معاصرت اور غلط فہمیوں کا ماحول قائم ہوتا جا رہا ہے جس کی طرف توجہ کرنے اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ ہماری محنت و کاوش کا پہلا دائرہ ہے کہ عام مسلمان کا مسجد، نماز، قرآن کریم، علماء کرام اور دینی فرائض و احکام کے ساتھ تعلق قائم ہو اور جن لوگوں کا تعلق موجود ہے وہ قائم رہے۔
  2. دوسرا دائرہ یہ ہے کہ جو لوگ دین سے ربط و تعلق رکھتے ہیں ان کی دینی تعلیم و تربیت کا نظام و ماحول قائم کیا جائے اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کی طرف توجہ دی جائے۔ یہ وہ سطح ہے جسے ہم ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں اور ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے اسے ’’فرض عین‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یعنی عقائد، عبادات، فرائض، حلال و حرام، معاملات اور اخلاق و آداب کی وہ ضروری تعلیم جس کے بغیر کوئی مسلمان اپنے دین کے مطابق روزمرہ کی زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا ماحول ہمارے معاشرہ میں کس حد تک موجود ہے اور اس کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟
  3. تیسرا دائرہ دینی ضروریات کے لیے رجال کار کی تیاری اور فراہمی کا ہے۔ مسجد کے لیے امام، خطیب اور مؤذن کی ضرورت ہے، مکتب کے لیے حافظ اور قاری کی ضرورت ہے، مدرسہ کے لیے مدرس اور مفتی کی ضرورت ہے، دین کی عمومی تعلیم کے لیے اچھا لکھنے اور بولنے والوں کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت کافی حد تک دینی مدارس پوری کر رہے ہیں لیکن اس باب میں بھی ضروریات اور فراہمی کا پورا طرح جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس کی عالمی سطح پر مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں دینی تعلیم کا ماحول قائم رکھے ہوئے ہیں جو سیکولر فلسفہ و نظام کی ترویج میں رکاوٹ ہے لیکن دینی مدارس کا یہ کردار بہرحال قائم رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  4. چوتھا دائرہ یہ ہے کہ ہمارا ایک امتیازی تعارف وتشخص بھی ہے جس کا قائم رہنا اور اس کا اظہار ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم اہل سنت، حنفی اور دیوبندی ہیں۔ ہمیں اس پر فخر ہے اور یہ ہماری قوت اور کردار کی اساس ہے جسے قائم رکھنا اور اس کا اظہار ہماری ذمہ داری ہے۔ مگر یہ ’’لتعارفوا‘‘ کے درجہ میں ہے، اسے محاذ آرائی کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ مسلکی امتیازات ضروری ہیں لیکن اپنے تعارف کے لیے، امتیاز کے اظہار کے لیے اور قوت و حوصلہ حاصل کرنے کے لیے۔ مگر انہیں معاشرتی محاذ آرائی اور تفریق کا ذریعہ بنانا درست نہیں ہے اور یہ بھی جدوجہد اور محنت و کاوش کا ایک اہم دائرہ ہے۔
  5. پانچواں دائرہ معاشرہ میں غلط عقائد اور روایات کے خلاف جدوجہد کا ہے۔ مثلاً ختم نبوت کا انکار، حدیث و سنت کی حجیت سے انکار، حضرات صحابہ کرامؓ کے مقام و حیثیت کی نفی اور خلاف سنت رسوم و رواجات اور بدعات کا فروغ وغیرہ۔ ان کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور صحیح عقائد و افکار کی تعلیم و ترغیب دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
  6. چھٹا دائرہ یہ ہے کہ آج کے مغربی فلسفہ و نظام نے اسلام کے بارے میں اور بہت سے اسلامی احکام و قوانین کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا کر رکھے ہیں اور میڈیا اور لابنگ کے ذرائع سے ان شکوک و شبہات کا دائرہ دن بدن وسیع کیا جا رہا ہے، ان کا سامنا کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو ان کے جال سے نکالنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ میرے نزدیک آج کا سب سے بڑا فتنہ ہے اور ہماری اس طرف بالکل توجہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق، مرد و عورت کی مساوات، آزادیٔ مذہب، آزادیٔ رائے اور لبرل ازم جیسے خوشنما عنوانات کے ساتھ جو علمی، فکری اور تہذیبی خلفشار مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، اہل دین میں اس کا احساس تو ہے مگر شعور و ادراک نہیں ہے۔ ہماری ان مسائل میں تیاری نہیں ہے، تحقیق و مطالعہ نہیں ہے اور صحیح طور پر ان کا سامنا کرنے کا ذوق و اسلوب نہیں ہے۔ کوئی نوجوان کسی دانشور کی بات سے متاثر ہو کر ہمارے سامنے کسی شبہ اور شک کا اظہار کرتا ہے تو ہم اس کی وجہ سمجھنے اور اسے دور کرنے کی بجائے اس نوجوان کو ڈانٹ دیتے ہیں، اس پر کوئی فتویٰ صادر کر دیتے ہیں یا گول مول سا جواب دے کر ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تینوں صورتوں میں اس کا شک دور نہیں ہوتا بلکہ مزید پختہ ہو جاتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ اس فتنہ کا شکار ہو کر خود اس کا داعی بن جاتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا اور خاص طور پر دینی جماعتوں، روحانی خانقاہوں، علمی مراکز اور مراجع کو اپنی حکمت عملی اور طریق کار کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا۔
  7. ساتواں دائرہ یہ ہے کہ شریعت اسلامی کے احکام و قوانین پر اعتراضات اور ان کی ضرورت و افادیت کی نفی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور بین الاقوامی اور قومی ماحول میں اس کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کے جوابات کے لیے کوئی اجتماعی کام نظر نہیں آرہا، افراد کی حد تک یہ محنت کسی درجہ میں موجود ہے مگر اداروں اور طبقات کی سنجیدہ توجہ نہیں ہے۔ یہ کام بھی ازحد ضروری ہے اور ہم نے ہی کرنا ہے۔
  8. آٹھواں دائرہ دین کی اجتماعی جدوجہد کا ہے، مثلاً دعوت و تبلیغ کا میدان ہے، دینی تعلیم و تدریس اور روحانی تربیت کے شعبے ہیں، نفاذ شریعت اور قومی سیاست میں اہل دین کی نمائندگی کی جدوجہد ہے، تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ کا محاذ ہے، حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس اور مقام و حیثیت کے دفاع کا شعبہ ہے، اور بے حیائی و فحاشی کے سدباب اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی محنت ہے وغیر ذٰلک۔ یہ سب دینی جدوجہد کے دائرے ہیں اور ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔

اس حوالہ سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر مسلمان اور خاص طور پر ہر عالم دین کو ان میں سے کسی نہ کسی شعبہ سے بہرحال وابستہ ہونا چاہیے۔ کسی عالم دین کا دینی جدوجہد سے لاتعلق ہو جانا اور کسی بھی کام میں حصہ نہ لینا میرے نزدیک کبیرہ گناہ کا بھی اوپر کا کوئی درجہ ہے۔ علماء کرام کو ان میں سے کسی شعبے سے لازماً جڑ جانا چاہے، جس شعبہ کا ذوق ہو اور جس محاذ پر کام کرنے کا رجحان ہو اسی میں کام کریں لیکن ایسا ضرور کریں، پیچھے نہ ہٹیں اور گریز نہ کریں۔ جبکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے دوسرے کاموں کی نفی نہ کریں، ان کی تحقیر نہ کریں، ان کا مذاق نہ اڑائیں اور ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہمارا عام طور پر یہ مزاج بن گیا ہے کہ دینی جدوجہد کے جس شعبے میں خود کام کر رہے ہیں بس اسی کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہیں جبکہ دوسرے کاموں کی نفی کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں، تخفیف و تحقیر کرتے ہیں اور ان کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ غلط بات ہے اس سے بہرحال گریز کرنا ہوگا۔ اپنے ذوق و اسلوب کے شعبے میں خوب محنت سے کام کریں اور اس کے تقاضے پورے کریں لیکن اس کے ساتھ دیگر شعبوں اور ان میں کام کرنے والوں کا احترام کریں، باہمی احترام کا مجموعی ماحول پیدا کریں اور حسب ضرورت ان سے تعاون کریں۔ اور اگر آپ خدانخواستہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کے بارے میں کم از کم خاموشی ضرور اختیار کریں جو میرے نزدیک ’’اضعف الایمان‘‘ کا درجہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت کرنے کی توفیق دیں اور ایک دوسرے کے احترام اور باہمی تعاون کے ذوق سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲۲ تا ۲۴ جون ۲۰۱۸ء)
2016ء سے
Flag Counter