’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا سوالنامہ

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۲ء

سوالنامہ

اسلام امن و آشتی اور صلح و سلامتی کا مذہب ہے، اس نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اور اگر کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیت آباد ہو تو اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے، نیز نجی زندگی سے متعلق معاملات میں انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس نے نہ صرف ظلم و تعدی سے روکا ہے بلکہ ظلم کے جواب میں دوسرے فریق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہو جانے کو ناپسند کیا ہے اور انتقام کے لیے بھی مہذب اور عادلانہ اصول و قواعد مقرر کیے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے زیادہ تر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی نیت سے اور کسی قدر غلط فہمیوں کی بنا پر اس وقت عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے اور اس جھوٹ کو اس قدر دہرایا گیا ہے کہ اب ایک طبقہ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف سمجھنے لگا ہے۔ ان حالات میں علماء، فقہاء اور ارباب افتاء کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو واضح کریں اور اسلام نے امن، صلح، عدل، مذہبی رواداری اور غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو ہدایات دی ہیں، ان کو واضح کریں تاکہ لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی اور سچی تصویر آ سکے۔ اس پس منظر میں درج ذیل سوالات آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

  1. اسلامی نقطہ نظر سے ’دہشت گردی‘ کی تعریف اور حقیقت کیا ہے؟
  2. یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات حکومتیں اپنے ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے ساتھ عدل و مساوات کا سلوک نہیں کرتیں بلکہ بعض طبقات کے ساتھ سیاسی و معاشی نا انصافی روا رکھی جاتی ہے اور کبھی تو ان کے جان و مال کے تحفظ میں بھی دانستہ کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے یا سرکاری سطح پر ایسی تدبیریں کی جاتی ہیں کہ وہ طبقہ جانی و مالی نقصان سے دوچار ہو ۔ تو کیا حکومتوں کے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ رویے پر بھی ’دہشت گردی‘ کا اطلاق ہوگا؟
  3. اگر کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہے تو اس پر احتجاج اور رد عمل کا اظہار جائز ہے یا واجب؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ کیا مظلوم کا ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی ’دہشت گردی‘ کے دائرے میں آتا ہے؟
  4. اگر ایک طبقہ کی طرف سے ظلم و زیادتی ہو جس میں اس طبقہ کے کچھ افراد شریک ہوں تو کیا مظلوموں کو ظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لینا جائز ہے جو بے قصور ہوں اور جو خود اس ظلم میں شامل نہ ہوں؟
  5. مسلمان ملکوں میں جو غیر مسلم شہری آباد ہیں، ان کو اپنے مذہبی معاملات یعنی عقیدہ، عبادت، شخصی قوانین وغیرہ میں کس حد تک آزادی حاصل ہے؟
  6. جہاں بھی دہشت گردی پیدا ہوتی ہے، وہاں اس کے کچھ بنیادی اسباب و محرکات ہوتے ہیں، جیسے کسی گروہ کے ساتھ معاشی یا سیاسی ناانصافی، یا کسی گروہ کے اندر طاقت و قوت کے ذریعہ حکومت اور معاشی وسائل پر تسلط حاصل کر لینے کی خواہش۔ ان اسباب کے تدارک کے لیے اسلام کیا ہدایات دیتا ہے؟
  7. اگر کسی گروہ یا فرد کی جان و مال یا عزت و آبرو پر حملہ کیا جائے تو اس کے دفاع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ حتی المقدور مدافعت واجب ہے، مباح ہے یا مستحب؟ نیز حق مدافعت کے حدود کیا ہیں؟

جواب

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

اسلام بلاشبہ صلح و آشتی اور امن و سلامتی کا دین ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور ایمان کا ایک معنی یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے لوگ محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جسے دوسرے لوگ اپنی جان و مال پر امین سمجھیں اور انہیں اپنی جان و مال اور آبرو کے حوالے سے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام اعتدال و توازن کا دین ہے جو دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے تحفظ اور حصول کا راستہ بھی بتاتا ہے اور اس کی تلقین کرتا ہے۔ ظلم و تعدی اور جبر و ناانصافی انسانی سوسائٹی کے لوازم میں سے ہے جو نسل انسانی کے آغاز سے جاری ہے اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اس لیے ایک جامع اور مکمل ضابطہ حیات اور نظام زندگی کی حیثیت سے اسلام ظلم و تعدی کو روکنے اور جبر و ناانصافی کے سدباب کے لیے بھی ایک مستقل فلسفہ و نظام رکھتا ہے جس کی تفصیلات قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں اور ہر دور میں اس زمانے کے مقتضیات اور احوال کی روشنی میں فقہاء امت اس فلسفہ و نظام کی احکام و قواعد کی شکل میں وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔

خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمہ (۱۹۲۴ء) تک چونکہ اسلامی احکام و قوانین کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی سطح پر تسلسل کے ساتھ موجود رہا ہے اس لیے ہر دور میں نئے پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل بھی ساتھ ساتھ سامنے آتا رہا ہے جس میں قضاۃ کے اجتہادی فیصلوں کے علاوہ ارباب علم اور اصحاب استنباط کی آزادانہ اجتہادی کاوشیں بھی شامل ہیں اور انسانی سوسائٹی کے حالات میں تغیر کے ساتھ ساتھ اجتہادی دائرہ میں ضرورت کے مطابق شرعی احکام و قوانین میں ضروری تغیر و تبدل کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے البتہ خلافت کے زوال و ادبار کے دور میں بد قسمتی سے اجتماعی زندگی کے مسائل و ضروریات کی طرف اہل علم و دانش کی توجہ کم ہوتی گئی اور بیرونی افکار و نظریات اور فلسفہ و تہذیب کے مسلم معاشرے میں فروغ کے باعث اور اس سے پیدا ہونے والی آزاد روی کی وجہ سے ارباب فقہ و استنباط تحفظات کا شکار ہو کر ’’جمود‘‘ پر قناعت میں عافیت محسوس کرنے لگے تو جدید پیش آمدہ مسائل اور فکری و علمی چیلنجز کے حوالے سے استنباط اور اجتہاد کا وہ تسلسل قائم نہ رہ سکا جو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے زمانے کی رفتار کا ساتھ دے سکتا اور اگرچہ بہت سے علمی اداروں اور شخصیات نے اس خلا کو پر کرنے کی اپنے اپنے طور پر کوشش کی لیکن تنفیذی اور اجتماعی اجتہاد و استنباط کے فقدان اور شخصیات و مراکز کے انفرادی اجتہاد و استنباط میں فطری اختلاف کے باعث وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جو اس اجتہاد و استنباط کا اصل مقصد وہدف تھے اور باہمی ربط و مفاہمت کا کوئی سسٹم موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ نظری و فکری خلفشار کا عنوان بن گئے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور اقوام متحدہ کے تحت اس کے منشور کے حوالے سے نئے عالمی نظام کے آغاز کے بعد دنیا کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی تھی اور بین الاقوامی تعلقات کے ساتھ ساتھ ہمارے داخلی اجتماعی نظام کے احکام و قوانین کا بھی ایک بڑا حصہ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد و استنباط کے ایک نئے اور ہمہ گیر عمل سے گزارے جانے کا متقاضی تھا لیکن عالمی سطح پر ملت اسلامیہ کے پاس اس کا کوئی فورم موجود نہیں تھا، مسلم حکومتوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور انفرادی طور پر اس عمل کا اہتمام کرنے والے مراکز و شخصیات پر علاقائی، گروہی اور طبقاتی رجحانات کا غلبہ فطری امر ہے اس لیے یہ خلا نہ صرف باقی چلا آ رہا ہے بلکہ فطری انداز میں نہ ہونے کی وجہ سے فکری خلفشار اور انتشار کی کیفیت نمایاں نظر آ رہی ہے اور اس وقت ہماری صورتحال یہ ہے کہ:

  • ایک طرف عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات مدوجزر کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں اور وہ مسلم ممالک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ اور عالمی سطح پر خلافت کے احیا کی خواہاں ہیں۔
  • دوسری طرف مغرب کے سیکولر فلسفہ، نظام اور ثقافت کی مسلم ممالک میں ترویج و نفاذ کے لیے اقتصادی، سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ، نیز مسلمان کہلانے والی حکومتوں کے تعاون سے پیش رفت جاری ہے۔
  • تیسری طرف کم و بیش تمام مسلم ممالک اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے اور اس کے منشور و قوانین پر دستخط کرنے کے باعث قانونی اور اخلاقی طور پر آج کے عالمی نظام کا حصہ ہیں جس کا بڑا حصہ اپنے مقاصد و اہداف اور قوانین و ضوابط دونوں حوالوں سے اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔
  • چوتھی جانب عالم اسلام میں دینی بیداری کے رجحانات، اسلامی تعلیمات کے مراکز، قرآن و سنت کے ساتھ غیر مشروط اور بے لچک کمٹمنٹ کے جذبات اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے عالمی سطح پر احیا کے لیے اسلامی تحریکات کے عزائم مبینہ دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ کا براہ راست ہدف ہیں جس کی فوج کشی کا شکار اسی وجہ سے افغانستان بن چکا ہے اور مذکورہ بالا عزائم و جذبات رکھنے والی ہر تحریک اور ہر طبقہ اس جنگ کی ’’ہٹ لسٹ‘‘ میں شامل ہے۔
  • ان کے علاوہ معروضی حقائق و حالات کا ایک پانچواں دائرہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے وسائل خود مسلمانوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں، مسلم ممالک اقتصادی اور معاشی طور پر پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تہہ در تہہ جال میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، مسلم حکومتیں سیاسی، معاشی، عسکری اور انتظامی شعبوں میں کوئی بنیادی فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ہیں اور دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی مسلم حکومت کے اختیارات و معاملات کے گرد ایک غیر مرئی ’’ریڈ لائن‘‘ موجود ہے جس کو کراس کرنا اس کے بس میں نہیں ہے۔

اس وسیع تناظر میں دہشت گردی کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لینا یقیناً ایک اہم بات ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس جزوی مسئلہ سے پہلے بہت سے اصولی معاملات اہل علم کی توجہات کے مستحق ہیں اور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ مسئلہ ہے کہ عالم اسلام کو اس مخمصہ سے نکالنے اور اس کی آزادی و خودمختاری بحال کرنے کے لیے ہمارے ارباب علم و دانش جہد و عمل کا کون سا خاکہ تجویز کرتے ہیں؟ اور وہ ملت اسلامیہ کو موجودہ صورتحال پر قناعت کرنے یا اس سے جان چھڑانے کے لیے کچھ کر گزرنے میں سے کون سا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں؟ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دہشت گردی کی اسلامی حیثیت اور اس کے بارے میں شرعی احکام و قوانین کی وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اور اس کی اصل غرض کیا ہے؟ اگر تو اس کا مقصد عالم اسلام کی دینی تحریکات کی راہنمائی کرنا ہے اور ان کو یہ بتلانا ہے کہ ملت اسلامیہ کی خود مختاری کی بحالی، خلافت اسلامیہ کے احیا، عالم اسلام کے وسائل کی بازیابی اور مسلم اقوام و ممالک کے گرد عالمی استعمار کے حصار کو توڑنے کے لیے ان کی جدوجہد کو ان شرعی حدود کا پابند رہنا چاہیے اور انہیں ارباب علم و دانش کی راہنمائی کے دائرے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تو یہ ایک مفید اور مثبت عمل ہے جس کی ضرورت مسلم ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر اس سارے عمل کی غرض دہشت گردی کے حوالے سے عالمی استعمار کو مطمئن کرنا اور قاعدین و متخلفین کو ان کے قعود و تخلف کے لیے جواز اور اس کے دلائل فراہم کرنا ہے تو اس سے زیادہ قابل نفرین عمل کا موجودہ حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں تک عالم اسلام کی بعض عسکری تحریکات پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کرنے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ایک اصولی بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ عمل کے احکام سے رد عمل کے احکام مختلف ہوتے ہیں اور کسی ایکشن پر جن قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے، اس کے ری ایکشن پر انہی قواعد و ضوابط کا کلیتاً اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول دنیا کے ہر قانونی نظام میں تسلیم شدہ ہے اور قرآن کریم نے بھی سورۃ النساء آیت ۱۴۸ میں اس اصول کو اس حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ کسی شخص کا بری بات کو ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے مگر مظلوم کو اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم و زیادتی کو روا رکھنے والے ظالم کی برائی کو ظاہر کرے۔ گویا جس بات کی ایکشن اور عمل میں شرعاً اجازت نہیں ہے، ری ایکشن اور رد عمل میں قرآن کریم اس کی اجازت دے رہا ہے۔ اس سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ کوئی مظلوم رد عمل میں کوئی ایسی بات کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اجازت نہیں ہے تو اس کی مظلومیت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس معاملے میں اس سے درگزر کر دینا ہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔

اس لیے واقعاتی پس منظر کی تفصیل میں جائے بغیر اصولی طور پر یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی جن تحریکات اور گروپوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، ان کے بارے میں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ اگر وہ غلبہ اور اقتدار کے شوق میں ایسا کر رہے ہیں اور حکمرانی کی حرص نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ہے تو ان کے ’’دہشت گرد‘‘ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اگر انہیں کسی طرف سے ہونے والے مظالم اور جبر نے رد عمل کے طور پر اس راستے پر ڈالا ہے اور جبر و استبداد کے حصار کو توڑنے میں دیگر کسی متبادل حربہ اور کوشش میں کامیابی کا کوئی امکان نہ دیکھتے ہوئے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں تو انہیں اس رعایت سے محروم کر دینے کا کوئی جواز نہیں ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت ۱۴۸ میں مظلوموں کے لیے بیان فرمائی ہے۔

ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو مذکورہ بالا سوال نامہ میں اٹھائے گئے ہیں۔

ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ قرآن کریم نے سورۃ المائدہ کی آیت ۳۳ میں ’’محاربہ‘‘ کا جو حکم بیان فرمایا ہے، ہمیں اس پر غور کر لینا چاہیے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو سزا کا مستحق بتایا ہے، ان کے دو وصف بیان فرمائے ہیں:

  • ایک ’’یحاربون اللہ ورسولہ‘‘ کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑتے ہیں جس سے مراد ہمارے خیال میں یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے قائم کردہ نظام سے بغاوت کرتے ہیں۔
  • دوسرا ’’ویسعون فی الارض فسادا‘‘ کہ وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں جس کا معنی آج کی معروف زبان میں یہ ہوگا کہ وہ امن عامہ کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہمارے ناقص فہم کے مطابق جو لوگ کسی جائز اور قانونی سسٹم کے خلاف ناجائز طور پر بغاوت کرتے ہیں اور عام شہریوں کی جان و مال کے لیے بلاوجہ خطرہ بن جاتے ہیں، وہ ’’دہشت گرد‘‘ کہلائیں گے۔ کسی حکومت کے جائز اور قانونی ہونے کے لیے اس دور کے عرف کو دیکھا جائے گا کہ اس وقت بین الاقوامی تعامل اور عرف کی رو سے کون سی حکومت کو جائز اور قانونی سمجھا جاتا ہے جبکہ بغاوت کے جائز یا ناجائز ہونے میں بھی اسی بین الاقوامی عرف کا اعتبار ہوگا لیکن اس میں ایک بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ عرف اور تعامل اور چیز ہے اور کسی مخصوص مسئلہ پر عالمی برادری کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف معاملہ ہے جس کا تجربہ ہمیں حال ہی میں افغانستان کے حوالے سے ہوا ہے کہ وہاں طالبان کی حکومت نے ملک کے ۹۰ فیصد علاقہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا، دارالحکومت کابل بھی ان کے کنٹرول میں تھا اور ان کے زیر اثر علاقہ میں امن کا قیام اور ان کے احکام کی عمل داری بھی تسلیم شدہ ہے۔ آج کے بین الاقوامی عرف میں کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے یہ باتیں کافی سمجھی جاتی ہیں بلکہ اس سے کم تر اہداف حاصل کرنے والی حکومتیں بھی تسلیم کر لی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود عالمی برادری نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس پر فوج کشی کر کے اسے جبراً ختم کر دیا۔ اس لیے ہمیں حقیقی عرف و تعامل اور وقتی طرز عمل میں فرق کو ملحوظ رکھنا ہوگا اور اب تو یہ فرق اس قدر واضح ہو گیا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین و ضوابط، اخلاقیات اور عالمی سیاسیات کی بیشتر اقدار و روایات کا مفہوم و معیار تک بدل کر رہ گیا ہے۔

دوسرا سوال اس حوالے سے ہے کہ کوئی حکومت اپنے ملک کے کسی طبقہ کے ساتھ انصاف نہیں کرتی اور ان کے سیاسی حقوق اور جان و مال تک کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو کیا اس حکومت کے ایسے طرز عمل کو بھی ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس کے جواب میں گزارش ہے کہ کوئی حکومت اپنی رعیت کے کسی طبقے کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھتی ہے اور اس محروم رکھنے میں ریاستی جبر کا ایسا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے جس سے اس طبقہ کے وجود اور اس کے افراد کی جان و مال کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں تو یہ بات یقیناً ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کہلائے گی۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہو تو اس پر احتجاج اور رد عمل کی کیا حیثیت ہے؟ اور کیا مظلوم کا ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی ’’دہشت گردی‘‘ کہلائے گا؟

اس سلسلے میں گزارش ہے کہ مظلوم کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا دنیا کے ہر قانون میں حق حاصل ہے اور اسلام بھی اسے یہ حق دیتا ہے۔ اب اس حق کی درجہ بندی کہ یہ جائز ہے یا واجب، اس کا انحصار اس وقت کے حالات پر اور مظلوم کی صواب دید پر ہے۔ اسلام نے اس میں دو درجے رکھے ہیں: عزیمت اور رخصت۔ اگر وہ عزیمت پر عمل کرتا ہے اور اپنے حق کے لیے ظالم کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو اسے اس کا حق حاصل ہے اور اگر صبر و تحمل کے ساتھ رخصت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے اس کا جواز بھی ہے چنانچہ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اپنی جان کی حفاظت میں مارا گیا ، وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا، وہ شہید ہے اور جو شخص اپنی عزت کی حفاظت میں مارا گیا، وہ بھی شہید ہے۔ اس ارشاد نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رخصت پر عمل کی اجازت ہے، لیکن ترجیح بہرحال عزیمت ہی کو حاصل ہے۔

باقی رہی بات ہتھیار اٹھانے کی تو فقہائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ شخصی اور انفرادی معاملات میں تو قانون کو ہاتھ میں لینے اور ہتھیار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنا بغاوت کے زمرے میں آئے گا البتہ اجتماعی معاملات میں (۱) مسلم حکمران کی طرف سے کفر بواح کے ارتکاب اور (۲) مسلم اکثریت پر غیر مسلم اقلیت کا جبری اقتدار قائم ہو جانے کی صورت میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہے جو بسا اوقات فرض کا درجہ بھی اختیار کر جاتا ہے جیسا کہ دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ اور دیگر اکابر علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ صادر کیا تھا۔

حملہ آور قوت کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے ہتھیار اٹھانے کے حق کو دنیا کے ہر قانون میں تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے حریت اور آزادی کی جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے ’’دہشت گردی‘‘ قرار دینا ایسا ہے جیسے یہ کہہ دیا جائے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے جن امریکی حریت پسندوں نے ہتھیار اٹھائے تھے اور اس جنگ میں انہوں نے متعلقہ اور غیر متعلقہ ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، وہ حریت پسند نہیں بلکہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے اور اسی طرح دنیا بھر کی وہ تمام اقوام و ممالک دہشت گرد قرار پائیں گے جنہوں نے غیر ملکی قابضین اور نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی ہے۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی طبقہ کے کچھ افراد نے ظلم کیا ہے تو کیا مظلوموں کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طبقے کے دوسرے افراد کو انتقام کا نشانہ بنائیں جو اس عمل میں شریک نہیں تھے؟

اس سلسلے میں عرض ہے کہ جہاں تک غیر متعلقہ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے، اسلام اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ یہ بھی اسی طرح کا ظلم ہوگا جس کا وہ مظلوم خود نشانہ بن چکے ہیں۔ البتہ ظالموں کے خلاف کارروائی کے دوران کچھ لوگ ناگزیر طور پر زد میں آتے ہوں تو ان کا معاملہ مختلف ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے جہاد میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور غیر متعلقہ افراد کو قتل کرنے سے صراحتاً منع کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلم شریف کتاب الجہاد میں حضرت صعب بن جثامہؓ کی یہ روایت بھی موجود ہے کہ آنحضرتؐ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ہم ایک جگہ شب خون مارنا چاہتے ہیں مگر وہاں عورتیں اور بچے بھی ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ: ہم منہم ’’وہ انہی میں سے ہیں‘‘ یعنی اگر وہ شب خون (چھاپہ مار کارروائی) کی زد میں ناگزیر طور پر آتے ہیں تو وہ انہی میں شمار ہوں گے اور ان کی وجہ سے کارروائی روکی نہیں جائے گی۔

پانچواں سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں جو غیر مسلم شہری آباد ہیں، ان کو اپنے مذہبی معاملات یعنی عقیدہ، عبادت، شخصی قوانین وغیرہ میں کس حد تک آزادی حاصل ہے؟

اس کے جواب میں ہمارا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں کوئی مسلم حکومت ایسی نہیں ہے جس پر خالص اسلامی حکومت کا اطلاق کیا جا سکے یا جسے خلافت کا قائم مقام قرار دیا جائے اور اس کے دائرے میں رہنے والے غیر مسلموں کو ذمیوں کا درجہ دینا شرعاً ضروری ہو جبکہ کم و بیش تمام مسلم ممالک اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط کرنے کے علاوہ اس حوالے سے دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی قبول کر چکے ہیں اس لیے جب تک خلافت کا احیا نہیں ہوتا اور خالصتاً اسلامی شرعی حکومت قائم نہیں ہو جاتی، ہم ’’میثاق مدینہ‘‘ کی طرز پر بین الاقوامی معاہدات کے پابند ہیں اور ہمیں ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے الا یہ کہ ان میں سے کوئی بات کسی مسلمان ملک کی خود مختاری و سالمیت اور مسلمانوں کے ملی مفاد کے لیے صریحاً خطرے کا باعث ہو تو اس میں وہ ملک ضروری تحفظات اختیار کر سکتا ہے۔

چھٹا سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے ہر جگہ کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ اسلام ان اسباب کے تدارک کے لیے کیا ہدایات دیتا ہے؟

اس سلسلے میں عرض ہے کہ دہشت گردی فی الواقع بہت بڑا جرم ہے۔ اسلام تو عام معاشرتی جرائم میں بھی مجرم کے لیے سخت سزائیں تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ جرم کے اسباب و عوامل کے تدارک کا حکم دیتا ہے اور ان دواعی کا راستہ روکتا ہے جو کسی شخص کو جرم تک لے جاتے ہیں۔ اسلام کا یہی اصول دہشت گردی کے بارے میں بھی ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے نزدیک دہشت گردی کے حوالے سے دو محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک محاذ یہ ہے کہ جو عالمی قوتیں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عنوان اختیار کرکے دنیا بھر کی دینی تحریکات کو ٹارگٹ بنائے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ جس کو تم دہشت گردی قرار دے رہے ہو، یہ دراصل رد عمل ہے ان مظالم اور جبر و ناانصافی کا جو ان اقوام و ممالک اور طبقات پر مسلسل روا رکھے جا رہے ہیں اور اس رد عمل کو جبر اور تشدد کے ذریعے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کی صورتحال میں جبر و تشدد سے مزید منافرت بڑھتی ہے اور جذبات میں شدت پیدا ہوتی ہے اس لیے اگر تم دہشت گردی کو ختم کرنے میں سنجیدہ اور مخلص ہو تو تمہیں جبر و تشدد اور عسکری جنگ کا راستہ ترک کر کے مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ظالم اور مظلوم کے فرق کو محسوس کرو، مظلوم کی مظلومیت کو تسلیم کرو، ظالم کو ظالم قرار دو اور مسلمہ اصولوں کی روشنی میں مظلوم اقوام و طبقات کو ظلم و استحصال سے نجات دلانے کے لیے سنجیدہ پیش قدمی کرو ورنہ تمہاری یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے متصور ہوگی اور دہشت گردی کا جواب اس سے بڑی دہشت گردی کے ذریعہ دے کر تم خود سب سے بڑے دہشت گرد قرار پاؤ گے۔

دوسری طرف عالم اسلام کی ان عسکری تحریکات سے بھی گفتگو کی ضرورت ہے جو مختلف محاذوں پر مصروف کار ہیں اور جنہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کو کچلنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ ان تحریکات کی قیادتوں کو دو باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہر مسئلے کا حل ہتھیار نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر جگہ ہتھیار اٹھانا ضروری ہے۔ جہاں کسی مسئلہ کے حل کا کوئی متبادل راستہ موجود ہے، اگرچہ وہ لمبا اور صبر آزما ہی کیوں نہ ہو، وہاں ہتھیار سے کام لینا ضروری نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں شاید شرعاً جائز بھی نہ ہو۔ ہتھیار تو آخری حربہ ہے۔ جہاں اور کوئی ذریعہ کام نہ دیتا ہو اور کسی جگہ مسلمانوں کا وجود اور دینی تشخص حقیقی خطرات سے دوچار ہو گیا ہو تو آخری اور اضطراری حالت میں ہتھیار اٹھانے کی گنجائش نکل سکتی ہے اس لیے اضطرار بلکہ ناگزیر اضطرار کے بغیر ہتھیار کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔

دوسری بات ان سے یہ عرض کرنے کی ہے کہ آزادی، قومی تشخص اور خود مختاری کے لیے اضطرار کی حالت میں قومیں ہتھیار اٹھایا کرتی ہیں۔ یہ زندہ قوموں کا شعار ہے اور آزادی کی عسکری تحریکات سے دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن غیر متعلقہ لوگوں کو نشانہ بنانا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی اور قانون و ضابطہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ ان تحریکات کو اس حوالے سے شرعی احکام و قوانین کی پابندی کا ایک بار پھر عہد کرنا چاہیے اور شرعی احکام بھی وہ نہیں جو خود ان کے ذہن میں آ جائیں بلکہ وہ قوانین و ضوابط جو امت کے اجماعی تعامل و توارث کے ساتھ تسلیم شدہ چلے آ رہے ہیں اور جنہیں وقت کے اکابر علماء و فقہاء کی طرف سے ضروری قرار دیا جا رہا ہو۔ اس کے بغیر کوئی بھی تحریک اور جدوجہد تمام تر خلوص و جذبہ اور ایثار و قربانی کے باوجود خلفشار پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور اس سے اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہوگی اس لیے ایسی تحریکات کو کسی بھی ایسی بات سے قطعی طور پر گریز کرنا چاہیے جو:

  • معروف اور مسلمہ شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہو۔
  • جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں بلاوجہ اضافہ ہوتا ہو۔
  • جو اسلام کے لیے بدنامی کا باعث بن سکتی ہو۔
  • اور جس سے خود ان تحریکات کی قوت کار اور دائرہ عمل متاثر ہوتا ہو۔

ساتواں سوال یہ ہے کہ کسی گروہ یا فرد کی جان و مال اور عزت و آبرو پر حملہ کیا جائے تو اس کے دفاع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ دفاع واجب ہے یا مستحب؟

اس سلسلے میں اصولی طور پر یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے جب اپنی جان، مال، اور آبرو کی حفاظت میں مارے جانے والے مسلمان کو شہید قرار دیا ہے تو ان تینوں حوالوں سے دفاع کا حق اور اس کی فضیلت میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہ جاتی البتہ ایک اور بات عرض کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ جان بچانے کو فقہاء کرام نے فرض قرار دیا ہے اور جہاں جان کے تحفظ کا مسئلہ آ جائے، وہاں اضطرار کی حالت میں خنزیر کا گوشت بقدر ضرورت کھانے کو بھی بعض فقہاء نے فرض بتایا ہے تو اس اصول کی رو سے کسی فرد یا گروہ کے لیے یہ بات بھی فرض ہی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ اگر اسے اپنے وجود اور جان کا خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ اسے بچانے کے لیے جو صورت دفاع کی ناگزیر ہو، وہ اسے اختیار کرے اور اس دفاع کی حد بھی وہی ہے جو حالت اضطرار کی دیگر صورتوں میں ہے کہ جتنی کارروائی سے جان بچ سکتی ہو، اسی حد تک اجازت ہے، اس سے زیادہ کی نہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter