صدر باراک حسین اوباما کے لیے اصل چیلنج

   
تاریخ اشاعت: 
۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء

فتح مکہ کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم دیا تو مکہ میں کہرام مچ گیا۔ حضرت بلالؓ نے اسی مکہ مکرمہ میں غلامی کی حیثیت سے زندگی بسر کی تھی، انہیں اسی سرزمین میں سنگریزوں پر گھسیٹا گیا تھا، وہ قریشی نہیں بلکہ حبشی تھے اور ان کا رنگ بھی کالا تھا۔ حرم مکہ میں قریش کے بڑے بڑے لوگ جمع تھے، ابو سفیان بن الحرب، حارث بن ہشام اور عتاب بن اسید اکٹھے بیٹھے صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے، انہوں نے حضرت بلالؓ کو بیت اللہ کی چھت پر کھڑے اللہ اکبر پکارتے سنا تو عتاب بن اسید نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور اپنے آنجہانی باپ کے بارے میں کہا کہ وہ بڑا خوش نصیب تھا جو اس منظر کو دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہا۔ حارث بن ہشام نے کہا کہ اگر محمد حق پر ہوتے تو خدا کی قسم میں ان کی ضرور پیروی کرتا۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں کچھ بھی نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں جو بات بھی کروں گا یہ پتھر اس کی خبر محمد کو ضرور دے دیں گے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے بعد ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا تم تینوں نے جو کچھ کہا ہے مجھے اس کی خبر مل گئی ہے۔ حارث بن ہشامؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اس لیے کہ یہ باتیں ہم تینوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں ہیں۔ ابو سفیان تو پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے۔ عتاب بن اسیدؓ، ان کے بھائی خالد بن اسیدؓ اور حارث بن ہشامؓ نے کلمۂ شہادت پڑھا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

عتاب بن اسیدؓ اکیس سالہ نوجوان تھے، جناب نبی اکرمؐ غزوہ حنین اور طائف کے محاصرہ کے بعد جب مدینہ منورہ واپس جانے لگے تو عتابؓ کو مکہ مکرمہ کا امیر مقرر کر دیا اور وہ حضرت ابوبکر کی وفات تک مکہ مکرمہ کے امیر رہے۔ فتح مکہ کے بعد ۸ ہجری میں اسلام کا فریضۂ حج سب سے پہلے انہی کی امارت میں ادا کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی وفات کی خبر جب مکہ مکرمہ پہنچی تو امیر مکہ عتاب بن اسیدؓ کے جنازے کی تیاری ہو رہی تھی۔ عتاب بن اسیدؓ کے بارے میں آنحضرتؐ کا یہ ارشاد گرامی بھی بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ میں تمہیں بہترین لوگوں پر امیر بنا رہا ہوں اور اگر تم سے کوئی اور شخص میری نظر میں بہتر ہوتا تو اس کو امیر مقرر کرتا۔ لیکن اسلام قبول کرنے سے چند لمحے قبل عتاب بن اسیدؓ کی کیفیت یہ تھی کہ ایک سیاہ فام شخص کو بیت اللہ کی چھت پر کھڑا دیکھنا انہیں گوارا نہیں تھا اور وہ اپنے آنجہانی باپ کو اس حوالے سے خوش قسمت قرار دے رہے تھے کہ وہ اس منظر کو دیکھنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تھا۔ بعض مؤرخین نے اس قسم کا جملہ حکم بن العاص کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے بھی حضرت بلالؓ کو بیت اللہ کی چھت پر اذان دیتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا کہ میرا باپ خوش نصیب تھا جو یہ منظر دیکھنے سے پہلے دنیا سے چلا گیا۔ حکم بن العاصؓ بعد میں مسلمان ہوئے اور ان کا شمار صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں قریش کی اشرافیہ کے درمیان بیت اللہ کی چھت پر حضرت بلالؓ کا کھڑا ہونا اور اذان دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک نئے دور کا آغاز تھا اور ایک انقلاب کی نوید تھا جس میں معاشرہ میں کالے اور گورے کا فرق ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا تھا اور کالوں کو نسل انسانی کے دوسرے لوگوں کے ساتھ برابر کی زندگی اور برابر کی عزت کا حقدار قرار دے دیا گیا تھا۔

آج کی دنیا امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں باراک حسین اوباما کو داخل ہوتے دیکھ کر نسل و رنگ کے امتیاز کے جس خاتمے کی بات کر رہی ہے اسلام نے اس کا اعلان چودہ سو برس پہلے کر دیا تھا۔ اس لیے ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ بالآخر مغرب کو بھی رنگ و نسل کے مکمل خاتمے کی اس شاہراہ پر آنا پڑا جو اسلام نے چودہ سو برس پہلے انسانوں کو دکھائی تھی البتہ یہ فرق تاریخ کے ریکارڈ میں ضرور موجود رہے گا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے اور گورے کے جس فرق کو ختم کرنے کا فتح مکہ کے موقع پر عملی مظاہرہ کیا تھا اور اس کے دو سال بعد حجۃ الوداع کے خطبہ میں اسے مستقل قانون اور اصول کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا، آج کی مہذب دنیا کے تہذیبی قائد امریکہ نے یہ قانون ۱۹۶۵ء میں پاس کیا کہ کالوں کو بھی گوروں کے ساتھ برابر کی سطح پر زندگی گزارنے کا حق ہے، وہ بھی ووٹ دینے اور قومی زندگی میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور اسکولوں، ہسپتالوں، ٹرینوں، بسوں اور ہوٹلوں میں انہیں بھی گوروں کے برابر سیٹوں اور میزوں پر بیٹھنے کی اجازت ہے۔

حضرت بلالؓ صرف رنگ کے کالے نہیں تھے بلکہ آزاد ہونے والے غلام بھی تھے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس غلامی کے خاتمے کا بھی اسی وقت اعلان کر دیا تھا۔ اس دور میں یہ رواج عام تھا کہ کوئی طاقتور کسی کمزور کو پکڑ کر بیچ دیتا اور وہ زندگی بھر کے لیے غلام بن جاتا۔ حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ اسی طرح غلام بنے تھے۔ لیکن آنحضرتؐ نے ’’بیع الحر حرام‘‘ اور ’’ثمن الحر حرام‘‘ کا تاریخی اعلان فرما کر اس بردہ فروشی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جس کا کاروبار آج کی مہذب دنیا میں انیسویں صدی کے وسط تک جاری رہا اور غلامی کے جواز اور عدم جواز پر امریکہ کی شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان سالہا سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے خاتمے پر ۱۸۶۳ء میں امریکی صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے باضابطہ خاتمہ کا اعلان کیا۔ ورنہ اس سے قبل تک امریکہ میں غلاموں کے اسی طرح بازار لگتے تھے جیسے ہمارے ہاں بھیڑ بکریوں اور دیگر جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ اور امریکہ کی جنوبی ریاستیں اس وقت تک غلامی کا کاروبار باقی رکھنے پر بضد تھیں اور اس کے جواز پر امریکی دانشور دلائل پیش کر رہے تھے جب تک کہ شمالی ریاستوں نے انہیں میدان جنگ میں شکست دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر دیا۔ مجھے امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں وہ میدان دیکھنے کا موقع ملا ہے جہاں امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے کمانڈر جنرل لی نے شمالی ریاستوں کی کمانڈ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور اس کے بعد امریکہ میں غلامی کو قانوناً ممنوع قرار دینے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

آج اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے غلامی کو باقی رکھا ہے۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس بردہ فروشی کو چودہ سو سال قبل ممنوع قرار دے دیا تھا جس کے خاتمہ کے لیے امریکی ریاستوں کو انیسویں صدی میں ایک طویل خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑا اور تب جا کر وہ غلاموں کی منڈیاں ختم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ پرانے زمانے میں کسی شخص کو غلام بنانے کے عام طور پر تین طریقے ہوتے تھے:

  1. کسی آزاد کو پکڑ کر طاقتور لوگ غلام بنا لیا کرتے تھے۔
  2. کسی مقدمہ میں سزا یا تاوان کے طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا۔
  3. جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاتا تھا۔

ان میں سے پہلی دو کو سب سے پہلے اسلام نے ممنوع قرار دیا، البتہ جنگی قیدیوں کو بطور غلام بنانے کی گنجائش باقی رہنے دی اور وہ بھی حکم کے طور پر نہیں بلکہ جنگی قیدیوں کے بارے میں تین چار مختلف آپشنز میں سے ایک آپشن کے طور پر۔

بہرحال باراک حسین اوباما کا امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہونا بلاشبہ ایک تاریخی واقعہ ہے جسے نسل انسانی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت حاصل ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے باراک حسین اوباما سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں ان کا داخلہ نسلی امتیاز اور غلامی کے تابوت میں آخری میخ کی حیثیت رکھتا ہے اور انسانیت کی تاریخ اس مرحلہ کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ لیکن انہیں ایک اور معروضی حقیقت پر بھی نظر رکھنا ہو گی کہ غلامی اور نسلی امتیاز کی بیماری صرف افراد کے دائرے میں نہیں تھی بلکہ اقوام کی سطح پر بھی تھی اور اس سطح پر یہ آج بھی موجود ہے۔ آج جن قوموں کا رنگ سفید نہیں ہے وہ نسلی عصبیت کا شکار ہیں، گوری قومیں اب بھی انہیں اپنے برابر کی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور زبانی دعوؤں کے باوجود انہیں قدم قدم پر رنگ و نسل کے اس امتیاز اور عصبیت کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ افراد کی غلامی کا دور اگرچہ بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن قوموں کی غلامی کا سلسلہ جاری ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مستحکم ہوگیا ہے اور اقوام و ممالک کو غلام بنانے اور غلام رکھنے کی اس پالیسی کی قیادت خود امریکہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کی بنیاد ہی نسلی امتیاز اور برتری پر ہے اور اسرائیلی قیادت نے اس نسلی امتیاز اور برتری کے زبانی اور عملی اظہار میں کبھی حجاب محسوس نہیں کیا۔ اس لیے ہم صدر باراک حسین اوباما کو مبارکباد کے ساتھ یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ نسلی امتیاز اور غلامی دونوں میں سے ابھی تک کسی کا خاتمہ نہیں ہوا، دونوں انسانی معاشرہ میں موجود ہیں البتہ صرف جگہ بدلی ہے کہ یہ غلامی اور نسلی امتیاز افراد کی بجائے اقوام و ممالک کے دائرہ میں منتقل ہوگئے ہیں اور ہمارے نزدیک اوباما کے لیے اصل لمحۂ فکریہ اور چیلنج یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter