اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک

   
تاریخ اشاعت: 
مارچ ۱۹۹۰ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۰ فروری ۱۹۹۰ء کی اشاعت میں ہانگ کانگ کی ڈیٹ لائن سے ’’ایشیا ویک‘‘ کی ایک رپورٹ کا خلاصہ خبر کے طور پر شائع کیا ہے جس میں مغربی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اور ان کے مذہبی رجحانات میں روز افزوں اضافہ کو ’’مغرب میں اسلام کی خوفناک پیش قدمی‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • صدیوں قبل اسلام مغرب میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے داخل ہوا تھا اور پھر نکل بھی گیا تھا لیکن اب اسلام مغرب میں عقیدہ کی تبدیلی، نقل مکانی اور شرح پیدائش میں اضافہ کے حوالہ سے پیش قدمی کر رہا ہے۔
  • یورپ اور مغرب میں کمیونزم کا ہوّا ختم ہونے کے بعد اب اسلام کا ہوّا اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور نہ صرف مغربی یورپ کے ممالک میں مسلمان اپنا تشخص دریافت کر رہے ہیں بلکہ یوگوسلاویہ، بلغاریہ اور سوویت یونین میں بھی ایسا ہو رہا ہے جہاں مسلمان اور غیر مسلمانوں کے درمیان خونی تصادم کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
  • گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی مسلمانوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا، مقامی مسلمانوں کی تعداد میں ۱۹۸۰ء کے بعد سے ۲۴ فیصد اضافہ ہوا اور آئندہ ۳۰ برس سے بھی پہلے مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے بڑھ جائے گی اور اس طرح مسلمان امریکہ میں دوسرے نمبر پر آجائیں گے۔ ڈیربورن کے شہر میں مسلمان آبادی کا دس فیصد حصہ ہیں جہاں سرکاری اسکولوں میں مسلمانوں کے تہواروں پر چھٹی کی جاتی ہے اور ہوٹلوں میں سور کا گوشت پیش نہیں کیا جاتا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں مسلمان طلبہ نے رمضان کے دوران کھانے کے الگ اوقات کا مطالبہ منوا لیا ہے۔

یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے اس دینی بیداری کی جو مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے دل و دماغ میں کروٹ لے رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کے ستائے ہوئے معاشروں میں اسلامی بیداری کی یہ لہر جہاں اسلام کی صداقت کی دلیل ہے وہاں عالمی معاشرے میں اسلام کے درخشاں مستقبل کی نوید بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور نام نہاد مسلم حکومتیں بھی قائم ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اس عالمی لہر میں خود ان کا رخ کس جانب ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ملا اعلی میں ’’وان تتولوا یستبدل قوماً غیرکم‘‘ کے اٹل قانون پر عمل کا فیصلہ ہو چکا ہو اور ہم اپنے گروہی، طبقاتی، شخصی، نسلی اور علاقائی تشخصات و تعصبات کی بھول بھلیوں میں اندلس کی تاریخ دہرانے کے کردار پر ہی قناعت کر بیٹھیں۔

شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات
   
2016ء سے
Flag Counter