تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں مجوزہ ترامیم ۔ آل پارٹیز کانفرنس لاہور کے مطالبات

   
تاریخ : 
۳ فروری ۲۰۱۱ء

لاہور میں کل جماعتی کانفرنس اور عوامی ریلی کے بعد تحریک تحفظ ناموس رسالت کے راہنما اب شاید پشاور کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور فروری کے تیسرے ہفتہ کے دوران پشاور میں کل جماعتی کانفرنس اور عوامی ریلی کا پروگرام تشکیل پا رہا ہے۔ منصورہ لاہور میں ۲۹ جنوری کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں پاکستان شریعت کونسل کے دیگر راہنماؤں مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور حافظ ذکاء الرحمان اختر کے ہمراہ مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ بالخصوص جمعیۃ علماء پاکستان (نورانی گروپ) کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر کی گفتگو سن کر حوصلہ ہوا کہ بریلوی مکتب فکر میں مولانا شاہ احمد نورانی کی طرز پر سوچنے اور گفتگو کرنے والے ابھی موجود ہیں۔ عوامی ریلی میں البتہ میں شریک نہیں ہو سکا اور اس میں میری نمائندگی پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی امیر برادر عزیز مولانا عبد الحق خان بشیر نے کی۔

کانفرنس کی صدارت جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سید منور حسن نے کی اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔ جبکہ شرکاء میں مولانا فضل الرحمان، چودھری پرویز الٰہی، ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، پروفیسر ساجد میر، حافظ عبد الغفار روپڑی، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا قاری زوار بہادر، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا اللہ وسایا، مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، جناب اعجاز الحق، خواجہ سعد رفیق، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عبد المالک خان، صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، پیر سیف اللہ خالد، علامہ علی غضنفر کراروی، علامہ ساجد نقوی اور آغا مرتضٰی پویا کے علاوہ خانقاہ کوٹ مٹھن شریف کے سجادہ نشین بھی شامل تھے۔ کانفرنس میں تحفظ ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں حکومت کی اب تک کی وضاحتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ:

  1. وزیراعظم قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کریں کہ ناموس رسالت کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
  2. وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی سربراہی میں جو کمیٹی قانون ناموس رسالت میں ترمیم کے لیے قائم کی گئی ہے اسے ختم کرنے کا اعلان کیا جائے۔
  3. حکمران پارٹی کی رکن اسمبلی شیریں رحمان نے جو ترمیمی بل اس سلسلہ میں ایوان میں پیش کیا ہے اسے واپس لینے کا اعلان کیا جائے۔
  4. آسیہ مسیح کیس کو عدالتی پراسیس کے مطابق چلنے دیا جائے اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے۔

ان مطالبات کا اعلان تحریک تحفظ ناموس رسالت کے کنوینر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کیا جس کی تمام راہنماؤں نے تائید کی۔ کانفرنس میں تحریک کی حدود اور دائرۂ کار بھی زیر بحث آیا۔ بعض راہنماؤں کا خیال ہے کہ اسے صرف ایک نکتہ تک محدود رکھا جائے اور تحفظ ناموس رسالت کے علاوہ کسی مسئلہ کو اس تحریک میں زیر بحث نہ لایا جائے۔ جبکہ بہت سے قائدین نے اس نقطۂ نظر کا اظہار کیا کہ اصل مسئلہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کا ہے کیونکہ جو قوتیں ناموس رسالت کے قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں، ان کا اصل ہدف اور ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کر کے اسے ایک سیکولر ریاست کی حیثیت دی جائے۔ وہ ناموس رسالت کے قانون کو ایک علامتی مسئلہ کے طور پر سامنے لا رہے ہیں اور اس میں خدانخواستہ کسی پیش رفت کی صورت میں وہ تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کی دستوری دفعات سمیت دستور و قانون کی تمام اسلامی شقوں کو زیر بحث لانے اور ان کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے تحریک ناموس رسالت کا اصل ہدف دستور کی تمام اسلامی دفعات کا تحفظ اور پاکستان کے اسلامی تشخص کی بقا و حفاظت ہونی چاہیے، دونوں طرف سے اس سلسلہ میں کھل کر اظہار خیال کیا گیا۔

کانفرنس کے بعد مجھ سے ایک دوست نے اس سلسلہ میں بات کی تو میں نے عرض کیا کہ کسی ایک دینی مسئلہ پر قومی وحدت کا کھل کر اظہار ہو جائے اور استعماری قوتوں کی یلغار کو کسی ایک مسئلہ پر بھی روک دیا جائے تو باقی مسائل خود بخود پس منظر میں چلے جائیں گے، اس لیے اس تحریک کو دین کے حوالہ سے قومی وحدت کے بھرپور اظہار کا ذریعہ بنایا جائے۔ ہر دور میں حق کے اظہار کے لیے ایک آدھ ہی مسئلہ عنوان بنا ہے، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے دور میں ’’خلقِ قرآن‘‘ کا مسئلہ معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان معرکہ کا عنوان بن گیا تھا، اس مسئلہ پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے علماء کرام کی قربانی اور مسلمانوں کی استقامت کی وجہ سے معتزلہ کو شکست ہوگئی تو باقی سارے مسئلے اسی میں دب کر رہ گئے۔ اس لیے تحریک کا سارا زور قومی وحدت کے اظہار اور دین کے ساتھ قوم کی اجتماعی وابستگی اور کمٹمنٹ کے مظاہرہ پر ہونی چاہیے، باقی سارے مسئلے اس سے حل ہو جائیں گے۔

کانفرنس میں انسدادِ توہین رسالت کے قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور خواجہ سعد رفیق نے بطور خاص اس پر گفتگو کی۔ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے شرکائے اجلاس کو مسیحی راہنماؤں کے ساتھ اپنی گفتگو کے حوالہ سے بتایا کہ ہم نے مسیحی راہنماؤں سے کہا ہے کہ مبینہ طور پر اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے جو بھی قابل عمل تجویز ان کی طرف سے آئے گی ہم اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اصل قانون اس سے متاثر نہ ہو اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے عنوان سے سرے سے اس کا استعمال ہی ختم نہ ہو جائے۔

کانفرنس میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں تین پاکستانی شہریوں کے کھلے بندوں قتل کا بھی تذکرہ ہوا اور اس بات پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا کہ سفارتی استثنا کے عنوان سے تین پاکستانیوں کے قاتل کو چھڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ مغرب کی تہذیبی یلغار ہماری دینی شناخت اور تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنے کے لیے ہے اور ہمیں اس عمومی تناظر کو سامنے رکھ کر دینی جدوجہد کی ترجیحات اور حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔

صدرِ اجلاس سید منور حسن نے اس نکتہ پر زیادہ زور دیا کہ وسیع تر دینی اتحاد مغرب کے وسیع تر ایجنڈے اور اہداف کے پیش نظر ضروری ہے اور تمام دینی مکاتب فکر کو اس سلسلہ میں وسعت ظرفی اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے مقابلہ میں متحد ہو جانا چاہیے۔

سب سے زیادہ دلچسپ اور اہم بات کوٹ مٹھن کی حضرت خواجہ غلام فرید کی خانقاہ کے محترم سجادہ نشین نے کی کہ کیا ایک مسئلہ کے حل کے بعد ہم منتشر ہو جائیں گے اور پھر اس کا انتظار ہوگا کہ حکومت یا مغربی لابی کوئی اور حرکت کرے تو ہم اس کے لیے دوبارہ مل بیٹھیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی مستقل فورم اس مقصد کے لیے تشکیل دینا چاہیے تاکہ عام حالات میں بھی ہم مل بیٹھیں اور مشترکہ دینی و قومی مقاصد میں قوم کی راہنمائی کریں۔

۲۹ جنوری کی آل پارٹیز کانفرنس کی مختصر باتیں ہم نے ذکر کر دی ہیں، مجموعی طور پر اے پی سی اور اس سے اگلے روز لاہور کی سڑکوں پر نکلنے والی عوامی ریلی حوصلہ افزا رہی اور توقع ہے کہ ۲۰ فروری کو پشاور میں ہونے والا اگلا پروگرام ان شاء اللہ تعالٰی اس سے بھی زیادہ کامیاب ہوگا۔ ویسے اس حوالہ سے اپنا ایک تاثر ضرور ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ اللہ تعالٰی کی قدرت اور بے نیازی ہے کہ حالات کا رخ دو اچانک واقعات سے تبدیل ہوگیا ہے۔ ممتاز قادری نے جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے کوئی پلاننگ دکھائی نہیں دیتی اور ریمنڈ ڈیوس کی حرکت بھی کسی پیشگی منصوبہ بندی کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتی۔ دونوں واقعات اچانک ہوئے ہیں اور ان واقعات نے نہ صرف حالات کا رخ بدل دیا ہے بلکہ ان واقعات کی اثر اندازی بہت دیر تک اور بہت دور تک نظر آتی رہے گی۔ اللہ تعالٰی اس قسم کے واقعات کے ذریعے نہ صرف اپنی قدرت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اس سے اللہ تعالٰی کی بے نیازی پر بھی ایمان مزید بڑھتا ہے اور دینی کارکنوں کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی طاقت و قوت موجود ہے جو ان کو دیکھ رہی ہے اور حسب توقع ان کی مدد کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتی ہے۔ ہمارا کام اپنی بساط کی حد تک خلوص کے ساتھ محنت کرتے رہنا ہے، یہ دین کا کام اللہ تعالٰی کا کام ہے اور اللہ تعالٰی ہی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter