حمید اختر صاحب! حقائق کو تو مسخ نہ کریں

   
تاریخ : 
۱۶ فروری ۲۰۱۱ء

کوئی دانشور حالات کی ترتیب اور معروضی حقائق سے اس قدر بھی بے خبر ہو سکتا ہے، روزنامہ ایکسپریس میں ۸ فروری کو محترم جناب حمید اختر صاحب کا ’’پرسش احوال‘‘ کے عنوان سے کالم پڑھنے سے قبل مجھے اس بات کا اندازہ نہ تھا۔ حمید اختر صاحب پرانے دانشوروں سے ہیں، ان کا تعلق لیفٹ سے ہے اور وہ بائیں بازو کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کالم میں انہوں نے حالات سے باخبر ہونے کے حوالے سے بہت مایوس کیا ہے۔ پہلے ان کا ارشاد ملاحظہ فرما لیجئے پھر اس پر ہم کچھ گزارشات پیش کریں گے، وہ لکھتے ہیں:

’’پاکستان میں بدقسمتی سے اسلام نافذ کرنے کے نام پر اپنے اقتدار کو طول دینے کے سلسلہ میں آمر ضیاء الحق نے مسلمانوں کو کٹر مسلمان بنانے اور کفار کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کے جو اقدامات کیے ان کی وجہ سے انتہا پسندی اور مذہبی جنون نے شدت اختیار کر لی۔ اگر مختلف فرقوں، اقلیتوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اپنے مسائل، اپنی روایات اور مذہبی عقائد کے مطابق حل کرنے کی روایت قائم رہتی تو ہم آج انتہاپسندی کا شکار نہ ہوتے۔ عیسائیوں اور ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوششوں نے صورتحال کو بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ عیسائی ہوں، ہندو ہوں یا کوئی اور سبھی کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق مل جائے تو باہمی تنازعات یقیناً ختم ہو سکتے ہیں۔ بھٹو دور میں احمدی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، مگر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ضیاء دور میں اپریل ۱۹۸۴ء میں ان پر مزید ایسی پابندیاں عائد کی گئیں جن کی وجہ سے وہ اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک سے بھی محروم ہو گئے۔ ہمارے خیال میں کسی بھی اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا درست نہیں۔ انہیں عام ریاستی قوانین کی پابندی پر تو مجبور کیا جا سکتا ہے مگر مذہبی عقائد یا ان کے روایتی رسم و رواج سے روکنا اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہے۔ آج جب اسلامی ریاست یا خلافت کے نام کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس کے پس پردہ غیر مسلموں کو جبرًا مسلمان بنانے کا جذبہ یا خواہش بھی موجود ہوتی ہے۔ جب تک اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔‘‘

یہ طویل اقتباس اس لیے نقل کیا گیا ہے تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ بات ادھوری نقل کی گئی ہے اور سیاق و سباق سے ہٹ کر مفہوم سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

  • جہاں تک پاکستان میں نفاذ اسلام اور وطن عزیز کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا تعلق ہے اگر اس سلسلہ میں قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے دیگر ذمہ دار قائدین کے صریح اعلانات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو اس کا آغاز ضیاء الحق مرحوم نے نہیں کیا تھا بلکہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کے دور میں منتخب دستور ساز اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کر کے کر دیا تھا۔ ضیاء الحق مرحوم نے صرف اتنا کیا تھا کہ عدالتِ عظمٰی کی طرف سے دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کو دیباچے سے نکال کر دستور کے واجب العمل حصے میں شامل کر دیا تھا کہ جو فیصلہ ہم متفقہ طور پر کر چکے ہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔
  • پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے کا عمل ۱۹۵۶ء کے دستور میں سامنے آیا تھا اور اسے چودھری محمد علی مرحوم کی وزارت عظمٰی کے دور میں منظور کیا گیا تھا۔
  • ۱۹۶۲ء کے عبوری دستور میں جنرل محمد ایوب خان مرحوم نے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے ملک کو ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دیا تو اس پر ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا تھا اور بھرپور عوامی احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے جنرل محمد ایوب خان کو ’’اسلامی‘‘ کا لفظ دوبارہ ملک کے نام میں شامل کرنا پڑا تھا۔ راقم الحروف کی عمر اس وقت چودہ برس تھی اور مجھے یاد ہے کہ جب جنرل محمد ایوب خان مرحوم کے اس اقدام کے خلاف پبلک کی طرف سے عرضداشتیں بھجوائی جا رہی تھیں تو اس کے لیے میں لوگوں سے دستخط کرانے کی مہم چلانے والوں میں شامل تھا اور ملک کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کرنے کے خلاف عوامی جلسوں میں پڑھی جانے والی نظموں میں سے ایک نظم کا یہ شعر آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ:
    ملک سے نام اسلام کا غائب، مرکز ہے اسلام آباد
    پاک حکمراں زندہ باد، پاک حکمراں زندہ باد
  • اسلام کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دینے کا دستوری فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں اور ان کی قیادت میں ہوا تھا۔ جب دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۷۳ء کا دستور منظور کرتے ہوئے دستوری دفعات کے طور پر بھی واضح فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے تمام قوانین کو نافذ کیا جائے گا، قرآن و سنت کے منافی قوانین کو بتدریج ختم کیا جائے گا اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون منظور کرنے کی مجاز نہیں ہوگی۔
  • قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ بھی بھٹو مرحوم کے وزارت عظمٰی کے دور میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے کیا تھا جسے قبول کرنے سے قادیانیوں نے انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنے اس انکار پر آج بھی قائم ہیں اور انہوں نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق مرحوم کو ۱۹۸۴ء میں وہ قانون نافذ کرنا پڑا تھا جس کا حمید اختر صاحب نے ذکر کیا ہے اور اس قانون میں قادیانیوں کو ایک اقلیت کے طور پر ان کے کسی جائز حق سے محروم نہیں کیا گیا۔ بلکہ انہیں مسلم اکثریت کی شناخت کو مجروح کرنے اور اسلام کو ٹائٹل کے طور پر استعمال کرنے کے غیر دستوری اور غیر قانونی عمل سے روکا گیا تھا، جبکہ قادیانی گروہ امت مسلمہ کے اجتماعی موقف اور پاکستانی پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے سے آج بھی منحرف ہے۔

اس لیے پاکستان میں اسلامائزیشن کے عمل کو جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے کھاتے میں ڈال کر اور ایک آمر کا اقدام قرار دے کر اس کی نفی کرنا نہ صرف معروضی حقائق اور واقعات کی صحیح ترتیب کے خلاف ہے بلکہ ملک کی ان منتخب اسمبلیوں کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے مترادف بھی ہے جو عوام کے ووٹوں سے تشکیل پائی تھیں اور انہوں نے عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ملک میں نفاذ اسلام کے لیے یہ اقدامات کیے تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سے پہلے منتخب اسمبلیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان دستوری فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، جبکہ اس سے قبل اور اب بھی ملک کے حکمران طبقوں کی یہ پالیسی چلی آرہی ہے کہ عوام کو خوش کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اسلام کا نام لے لیا جائے، دستور و قانون میں اسلامی دفعات بھی شامل رکھی جائیں مگر ان پر عملدرآمد کی کوئی صورت قائم نہ ہونے دی جائے۔

محترم حمید اختر صاحب نے انتہاپسندی اور مبینہ دہشت گردی کی موجودہ صورتحال کے ڈانڈے اسلامائزیشن کے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ وہ اس بات سے یقیناً باخبر ہوں گے کہ جسے انتہاپسندی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ عالمی استعمار کی اس منافقت کا ردعمل ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تو اس نے پاکستان کے عوام کے دینی جذبات سے بھرپور فائدہ اٹھایا، لیکن جب اس جنگ میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور عوامی محاذ پر یہ جنگ لڑنے والوں نے انہی دینی جذبات کو اپنے ہاں بروئے کار لانا چاہا اور یہ حق مانگا کہ جن جذبات کے ساتھ ہم نے سوویت یونین کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے انہی جذبات کو اپنی عملی زندگی اور معاشرتی ماحول میں فروغ دینے کا موقع دیا جائے، تو عالمی استعمار نے انہیں ان کا یہ حق دینے سے انکار کر دیا اور استعمار کی یہ دھاندلی اب تک پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ لیفٹ کے وہ دانشور جو سوویت یونین کی شکست و ریخت سے پہلے امریکی استعمار کے خلاف اپنی دانش اور قلم کو مسلسل استعمال کیا کرتے تھے، اب انہوں نے اپنا قبلہ تبدیل کر لیا ہے اور وہی دانش اور قلم امریکی استعمار کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتے نظر آنے لگے ہیں۔

حمید اختر صاحب کا یہ ارشاد بھی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کہ پاکستان میں ہندوؤں، مسیحیوں اور غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کی مہم نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اس لیے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کبھی اور کہیں ایسا نہیں ہوا کہ غیر مسلموں کو جبرًا مسلمان بنانے کی کوئی آواز لگائی گئی ہو یا مہم چلائی گئی ہو۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو دستور میں مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور پاکستان بننے کے فورًا بعد تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علمائے کرام نے متفقہ ۲۲ نکات کی صورت میں اسلامی ریاست کا جو ڈھانچہ تجویز کیا تھا اس میں پوری صراحت کے ساتھ تمام اقلیتوں کے مسلّمہ حقوق کے مکمل تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ جبکہ پاکستان کی کسی دینی جماعت نے نہ تو کبھی غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کا نعرہ لگایا ہے اور نہ ہی کبھی ایسی کوئی عملی کوشش تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مسیحی مشنریاں نصف صدی سے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں لگی ہوئی ہیں، ہماری دینی تنظیموں کے پاس تو اس طرف توجہ کرنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔

حمید اختر صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنا موقف ضرور پیش کریں یہ ان کا حق ہے لیکن اس کے لیے حقائق کو مسخ کر کے اور واقعات کی ترتیب بدل کر کی جانے والی کوئی بات بہرحال ’’دانش‘‘ کے دائرے میں نہیں آتی۔

   
2016ء سے
Flag Counter