قادیانی مسئلہ ۔ چند شبہات کا ازالہ

   
تاریخ اشاعت: 
۱۱ اپریل ۲۰۱۱ء

۶ اپریل کو جہلم میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، اس کا اہتمام میونسپل گراؤنڈ میں کیا گیا تھا اور اس کے لیے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے مہتمم عزیزم مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق اور ان کے رفقاء کی ٹیم نے خاصی محنت کی اور کانفرنس کی میزبانی اور انتظام کے فرائض سرانجام دیے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا اللہ وسایا، تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر مولانا قاضی ظہور الحسن اظہر اور پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر نے جہلم اور اردگرد کے اضلاع کا دورہ کر کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کو توجہ دلائی اور ان سب کی محنت سے عوام کا ایک جم غفیر مغرب کی نماز کے بعد سے فجر کی اذان تک عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے علمائے کرام کے ارشادات سے مستفید ہوتا رہا۔ جبکہ خطباء میں مذکورہ بالا حضرات اور راقم الحروف کے علاوہ مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا عالم طارق، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، صاحبزادہ عزیز احمد، مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی، مولانا قاضی ارشد الحسینی، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور مولانا سعید یوسف خان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس حوالے سے سب اہل دین کے شکریہ کی مستحق ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کر کے اس تحریک کو عوامی سطح پر زندہ رکھے ہوئے ہے۔

اس سے اگلے روز ۷ اپریل کو میں نے چیچہ وطنی میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سالانہ شہدائے ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی سعادت حاصل کی جس کی صدارت صاحبزادہ مولانا رشید احمد آف کندیاں شریف نے کی اور مقررین میں پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری، مولانا محمد رفیق جامی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، سید محمد کفیل شاہ بخاری، حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ اور دیگر سرکردہ علمائے کرام کے علاوہ راقم الحروف اور مجلس احرار اسلام جرمنی کے امیر سید منیر احمد بخاری بھی شامل تھے۔ سید منیر احمد بخاری نے، جو قادیانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اپنے قبول اسلام کی تفصیل سنانے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں قادیانیوں کے کام کرنے کے انداز کا ذکر کیا جو میرے خیال میں اس کانفرنس کا حاصل تھا۔ بخاری صاحب قبولِ اسلام کے بعد سے مسلسل اس محاذ پر سرگرم ہیں، اللہ تعالٰی قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

راقم الحروف نے ان دونوں کانفرنسوں میں حاضری دی کہ ’’میری دونوں سے آشنائی ہے‘‘۔ اس موقع پر جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ، قارئین ہے۔ قادیانیت کے حوالے سے چار سوالات اس وقت بڑے اہم ہیں:

  1. ایک سوال یہ کہ کسی شخص کو نبی کہہ دینے سے آخر کیا فرق پڑ جاتا ہے؟ ہم بھی تو اپنے بزرگوں کو بھاری بھر کم القابات سے نوازتے رہتے ہیں جو بسا اوقات خوفناک حد تک بھاری بھر کم ہو جاتے ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو علماء کرام علمی حوالوں سے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ایک صدی سے دیتے آرہے ہیں اور بڑے بڑے اہل علم نے اس کے لیے محنت کی ہے۔ یہ علمی اور تحقیقی جوابات اپنی جگہ درست اور ضروری ہیں لیکن ایک جواب علامہ محمد اقبالؒ نے دیا تھا جو کامن سینس میں ہے اور آج کی دنیا کے لیے زیادہ قابل فہم ہے۔ انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ خط و کتابت میں کہا تھا کہ نبی چونکہ اللہ تعالٰی کا براہ راست نمائندہ ہوتا ہے اور اس کی ہر بات حجت ہوتی ہے اس لیے کسی کو نبی مان لینے سے وفاداری کا مرکز تبدیل ہو جاتا ہے اور پہلا نبی وفاداری کا مرکز نہیں رہتا۔

    اس کی مثال عرض کرتا ہوں کہ جیسے ہم سب حضرت موسٰی علیہ السلام کو نبی اور رسول مانتے ہیں اور بحیثیت نبی اور رسول ان پر ایمان رکھتے ہیں، ان کی کتاب توراۃ کو بھی مانتے ہیں اور کتابِ حق تصور کرتے ہیں، لیکن وہ ہمارا مرکزِ وفاداری نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ہم ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے ہیں اور ہماری تمام تر وفاداری کا مرکز آپؐ کی ذات گرامی ہے۔ حتٰی کہ ہم قرآن کریم کی آیات بھی وہی مانتے ہیں جن کو آنحضرتؐ نے قرآن کریم کی آیات قرار دیا ہے، اور حضرت موسٰیؑ اور تورات کی بھی وہی باتیں مانتے ہیں جن کی جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات میں تصدیق موجود ہے۔

    علامہ اقبالؒ نے کہا کہ چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا کہ وہ نبی ہے، اس پر وحی آتی ہے اور وہ خدا کا نمائندہ ہے، اس لیے اس کو ماننے والوں کا مرکز وفاداری وہی ہے اور وہ قرآن و سنت کی باتوں کو اسی معنٰی و مفہوم میں مانتے ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ ان کا مرکزِ وفاداری مرزا غلام احمد ہے، حتٰی کہ اس طرح قادیانی جماعت نے ملت اسلامیہ کے مرکز وفاداری کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ امت مسلمہ کا مرکز وفاداری جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، کل بھی وہی تھے، آج بھی وہی ہیں اور قیامت تک وہی رہیں گے۔ وحی اور نبوت کے عنوان سے امت کا مرکز وفاداری تبدیل کرنے کوئی کوشش امت کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ قادیانی گروہ پاکستان میں ایک چھوٹی سی اقلیت ہے اور مسلمان بہت زیادہ اکثریت میں ہیں، اس لیے ملک کی غالب اکثریت کو ایک چھوٹی سی اقلیت سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اتنی لمبی چوڑی تگ و دو اور محنت کی آخر کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے دینا چاہوں گا جن کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے دستوری طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ اقلیت جب تک اقلیت رہے کوئی خطرے کی بات نہیں ہوتی لیکن کوئی اقلیت اگر سازشی ٹولے کا روپ دھار لے تو وہ کتنی ہی چھوٹی اقلیت کیوں نہ ہو ملک کے لیے مسلسل خطرہ ہوتی ہے اور قوم کو اس سے خبردار کرنا اور خبردار کرتے رہنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی اس بات پر غور کریں جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہی کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہی پوزیشن حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ وہاں کی کوئی پالیسی یہودیوں کی مرضی کے بغیر تشکیل نہیں ہو پاتی۔

    یہودی بھی امریکہ میں ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں اور اب سے ایک صدی قبل امریکہ میں ان کی ایسی ہی حیثیت تھی جو اس وقت پاکستان میں قادیانیوں کی ہے۔ مگر انہوں نے رفتہ رفتہ محنت کی اور تعلیم، سیاست، معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت حاصل کر کے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور کم و بیش نصف صدی کی محنت سے امریکہ کی صنعت و حرفت، سیاست، معیشت اور میڈیا کے میدانوں میں اپنا اثر و رسوخ اس قدر بڑھا لیا کہ آج پورا امریکہ ان کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ کا کوئی طاقتور ترین صدر بھی یہودیوں کی منشا کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا بلکہ امریکہ پر کنٹرول حاصل کر کے اس کے ذریعے یہودی پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہاں بھی قادیانیوں کا رخ اسی جانب تھا جسے تحریک ختم نبوت کے ہزاروں کارکنوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بریک لگا دی۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس خطرے کی بو سونگھ لی اور قوم کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا راستہ روک دیا۔ قادیانیوں کا ایجنڈا آج بھی یہی ہے جس کے لیے انہیں عالمی استعمار کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے اس محاذ پر خبردار رہنا اور قوم کو خبردار کرتے رہنا ہم سب کی دینی و قومی ذمہ داری ہے۔

  3. تیسرا سوال میں اپنے حکمرانوں سے کر رہا ہوں کہ انہیں آج کل حکومتی رٹ قائم رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے اور وہ اس کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا مگر میرا سوال یہ ہے کہ قادیانیوں نے گزشتہ تین عشروں سے ملک کی منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ دستوری فیصلے کو مسترد کر رکھا ہے، وہ اپنے بارے میں دستور و قانون کو ماننے سے انکاری ہیں اور تین عشروں سے ملک کے اندر اور باہر عالمی سطح پر دستور و قانون کی ان شقوں کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی آبادی کی حدود میں ملک کا قانون بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیا یہ ساری صورتحال ہمارے حکمرانوں کے نزدیک حکومتی رٹ کے لیے چیلنج نہیں ہے؟ اور اس گروہ کی کھلی بغاوت کو روکنے کے لیے وہ کون سے اقدامات کر رہے ہیں؟
  4. میرا چوتھا سوال عوام سے ہے، علماء کرام سے ہے، دینی کارکنوں سے ہے اور محب وطن شہریوں سے ہے کہ کیا قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد ہماری جدوجہد مکمل ہوگئی ہے؟ ہم بڑی خوش فہم قوم ہیں کہ ایک مورچہ جیتنے کے بعد مکمل فتح کا بگل بجا دیتے ہیں اور چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ ابھی ہم نے تحفظ ناموس رسالت کی جدوجہد میں ایک کامیابی حاصل کی ہے کہ دینی حلقوں کی طرف سے اتحاد کے بھرپور مظاہرے اور عوام کے سڑکوں پر آجانے کی وجہ سے حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہی، اس کے لیے پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے لیکن یہ کامیابی مکمل کامیابی نہیں ہے اس لیے کہ جدوجہد ابھی جاری ہے۔ میں اس کی مثال یوں دوں گا کہ ہم نے ایک اچھی وکٹ حاصل کر لی ہے لیکن میچ ابھی جاری ہے، اس لیے کہ قوم کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے مغربی ملکوں نے انکار کر رکھا ہے اور اس فیصلے کے بعد بھی یورپی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو ختم کر دیا جائے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اس سلسلہ میں پاکستانی عوام اور حکومت کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہر قیمت پر اپنا فیصلہ ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

    اس لیے تحریک ابھی جاری ہے اور بڑے لمبے عرصے تک جاری رہے گی۔ عالمی استعمار ہمارے دستور سے نہ صرف ان دو قوانین کو ختم کرانا چاہتا ہے بلکہ قرارداد مقاصد کو ختم کرانا چاہتا ہے، اسلامی دفعات کو ختم کرانا چاہتا ہے، نفاذ اسلام کے وعدوں اور کوشش کو ختم کرانا چاہتا ہے، حتٰی کہ سرے سے پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کو ختم کرا کر اسے ایک سیکولر ریاست میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک عالمی استعمار کا ایجنڈا باقی ہے ہماری جدوجہد بھی جاری رہے گی اور اس کے لیے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اللہ تعالٰی ہمیں ہمت عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter