اسلامی خلافت ۔ دلیل و قانون کی حکمرانی

   
تاریخ اشاعت: 
۳۰ جنوری تا یکم فروری ۲۰۱۲ء

۲ تا ۴ جنوری کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی مجلس صوت الاسلام کے زیر اہتمام فضلائے درس نظامی کے ایک تربیتی کورس میں مسلسل تین روز تک ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر گفتگو کا موقع ملا۔ یہ کورس ایک تعلیمی سال کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے اور کئی سالوں سے جاری ہے، مختلف اصحاب فکر و دانش اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر اس میں گفتگو کرتے ہیں، مجھے بھی ہر سال دو تین روز کے لیے حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور منتظمین کے ساتھ ساتھ فضلائے درس نظامی کا ذوق اور طلب دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سال کراچی میں حاضری کے موقع پر مجھے تین نشستوں میں بات کرنا تھی، میں نے خود ہی اپنے لیے یہ موضوع منتخب کیا کہ ’’خلافت‘‘ کے بارے میں کچھ عرض کرنا زیادہ مناسب بات ہوگی۔ اس کے بعد ۱۲ جنوری کو اسلام آباد کے آبپارہ کمیونٹی سنٹر میں ’’مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں بھی اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر گزارشات پیش کیں، کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ان معروضات کو قلمبند ہو جانا چاہیے چنانچہ ان حضرات کی فرمائش بلکہ اصرار پر مذکورہ محافل میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کو ترتیب کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔

’’خلافت‘‘ کا لفظی معنٰی نیابت ہیں، خَلفَ کے معنی ہیں ’’وہ کسی کے پیچھے چلا‘‘۔ اور کسی کے جانے کے بعد اس کی جگہ سنبھالنے والے کو ’’خلیفہ‘‘ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں خلیفہ کا لفظ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے جس کی ایک تعبیر یہ ہے کہ حضرت آدمؑ اور ان کی نسل نے زمین پر بسنے والی پیشرو مخلوق یعنی جنوں کی جگہ سنبھالی ہے اور وہ ان کے خلیفہ ہیں۔ ایک مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو زمین میں اپنی خلافت عطا فرمائی ہے کہ زمین میں انسان اللہ تعالٰی کا خلیفہ ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں:

  • ایک یہ کہ زمین پر بسنے والے ہزاروں قسم کے جانوروں میں سے زمین پر تصرف کا ملکہ اور مواقع انسان ہی کو عطا ہوئے ہیں۔ زمین کی سطح پر، اس کے اندر، فضا میں اور سمندر میں بسنے والی مخلوقات کو شمار کیا جائے تو اس کی ہزاروں انواع گنی جاتی ہیں لیکن ان سب میں زمین کے اندر، سطح، فضا اور سمندر میں تصور کی صلاحیت انسان کو ہی حاصل ہے اور وہی سارے نظام کو کنٹرول کر رہا ہے، گویا زمین پر تکوینی تصرف کی ایک صورت انسان کے پاس ہے۔
  • جبکہ انسان کے اللہ تعالٰی کا خلیفہ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالٰی نے نسلِ انسانی اور دوسری زمینی مخلوقات کے لیے جو نظام اور قوانین مقرر فرمائے ہیں ان کے نفاذ کی ذمہ داری انسان پر ہے۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے پر مامور ہے اور اس کی ڈیوٹی ہے کہ انسانی سوسائٹی اور زمین کا نظام اللہ تعالٰی کے احکام و قوانین کے مطابق چلائے۔

قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ کہا گیا ہے اور ارشاد ربانی ہے کہ:

’’اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں۔‘‘

یہاں خلیفہ کا لفظ حکمرانی اور قوانین و نظام کے حوالے سے استعمال ہوا ہے اور سیدنا حضرت داؤدؑ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواہشات کی پیروی اللہ تعالٰی کی راہ سے ہٹا دیتی ہے اور گمراہ کر دیتی ہے۔ گویا حضرت داؤدؑ کو خطاب کر کے یہ کہا گیا ہے کہ صحیح قانون وہی ہے جو حق یعنی وحی کی روشنی میں ہو جبکہ انسانی خواہشات پر بننے والا قانون و نظام گمراہی کا نظام و قانون ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں خلافت کا مفہوم اور پس منظر یوں بیان فرمایا ہے کہ:

’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، ایک نبی فوت ہو جاتا تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے۔‘‘ (بخاری شریف)

بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کی مختلف صورتیں تھیں۔ بعض پیغمبر خود ہی حکمران ہوتے تھے جیسے حضرت یوسف، حضرت موسٰی، حضرت یوشع بن نون، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام۔ اور بعض نبی بادشاہ گر تھے جیسے حضرت سموئیلؑ سے بنی اسرائیل نے درخواست کی کہ ان پر کسی کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ وہ اس کی قیادت میں ظالم بادشاہ جالوت کے خلاف جہاد کر سکیں، چنانچہ انہوں نے اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق حضرت طالوت کو بادشاہ بنا دیا جن کی قیادت میں بنی اسرائیل نے جالوت کے خلاف فلسطین میں جنگ لڑی۔ اس جہاد کی تفصیلات سورۃ البقرہ کی آیات میں بیان ہوئی ہیں۔

جناب نبی اکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کی رو سے ’’خلافت‘‘ سیاسی معاملات میں آنحضرتؐ کی نیابت کا نام ہے۔ اور اسلام کے سیاسی نظام کا بنیادی اصول یہ قرار پاتا ہے کہ وہ سیاسی قیادت جو اس سے پہلے حضرات انبیاء کرامؑ کیا کرتے تھے وہ جناب نبی اکرمؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کے باعث اب خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی اور یہ خلفاء آپؐ کی نیابت کریں گے۔ چنانچہ فقہاء کرام جب خلافت کی تعریف کرتے ہیں تو یہ فرماتے ہیں کہ ’’نیابتاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ امت کے اجتماعی معاملات کو جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کرتے ہوئے چلانا۔ اسی وجہ سے خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ (اللہ کے رسول کا جانشین) کہا جاتا تھا۔ لیکن ان کے بعد ان کے جانشین حضرت عمرؓ کو ’’خلیفۃ خلیفۃ رسول اللہ‘‘ (اللہ کے رسول کے جانشین کا جانشین) کہا جانے لگا تو ان کو الجھن ہوئی کہ تیسرے اور چوتھے خلیفہ کو کس لقب سے یاد کیا جائے گا؟ ایک دن غالباً حضرت عمرو بن العاصؓ نے انہیں ’’امیر المؤمنین‘‘ کے لقب سے خطاب کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ خطاب صحیح ہے، اب اس کے بعد انہیں امیر المؤمنین ہی کہا جائے۔

یہاں ایک نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اسلامی نظام میں ’’خلیفہ‘‘ اللہ تعالٰی کا خلیفہ نہیں کہلاتا بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا حامل تصور کیا جاتا ہے، جیسا کہ فقہاء کرام نے خلیفہ کی تعریف میں لکھا ہے۔ بلکہ قاضی ابو یعلٰی نے ’’الاحکام السلطانیۃ‘‘ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ کہہ کر خطاب کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے ٹوک دیا کہ ’’لست بخلیفۃ اللہ، انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘ یعنی میں اللہ تعالٰی کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں۔ اسلامی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میرا خیال ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ فرما کر خلافت کا ایک بڑا اصول بیان فرمایا ہے اور پاپائیت کی جڑ کاٹ دی ہے۔

پاپائیت کا تصور یہ ہے کہ پاپائے روم جو کیتھولک مسیحیوں کے عالمی مذہبی پیشوا کے طور پر اللہ تعالٰی کے نمائندہ ہیں اور وہ مذہب کی کسی بات کی جو تشریح کریں اسے اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھا جائے۔ وہ مذہب کی تعبیر کی فائنل اتھارٹی ہیں اور ان کے کسی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر خلیفہ کو بھی اللہ تعالٰی کا خلیفہ قرار دیا جائے تو وہ اللہ تعالٰی کے نمائندہ کی حیثیت سے فائنل اتھارٹی تصور کیا جائے گا اور اس کی بات کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کے برعکس جناب رسول اکرمؐ کے خلیفہ کے طور پر خلیفۂ وقت قرآن و سنت کا پابند ہوتا ہے کہ اس کی ہر بات کی دلیل قرآن کریم سے یا آنحضرتؐ کی سنت و حدیث سے تلاش کرنا ہوگی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کو واضح کر دیا اور فرمایا کہ میں قرآن و سنت کی اتباع کا وعدہ کرتا ہوں اور تمہیں حق دیتا ہوں کہ اگر مجھے قرآن کریم یا سنت نبویؐ کے خلاف چلتا ہو دیکھو تو مجھے سیدھا کر دو۔ اسے دلیل اور قانون کی حکومت کہا جاتا ہے کہ خلیفہ ایک ایسے قانون و دستور کی پابندی کا اعلان کر رہا ہے جو نہ اس نے خود بنایا ہے اور نہ ہی اسے اس میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔

بادشاہت میں بادشاہ خود قانون بنانے والا ہوتا ہے اور خود ہی اس میں ترمیم کا اختیار رکھتا ہے، اس لیے اگر بادشاہ قانون کی پابندی کی بات کرتا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ دستور و قانون بناتی ہے اور وہ اس میں ترمیم بھی کر سکتی ہے، اس لیے اس کی طرف سے دستور و قانون کی پابندی کا دعوٰی محل نظر ہے۔ ان دونوں کے برعکس اسلامی خلیفہ قرآن و سنت کا پابند ہوتا ہے اور خود حکمران کہلانے کی بجائے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا منصب رکھتا ہے۔ جبکہ اسے قرآن و سنت میں رد و بدل یا اس کی من مانی تشریح کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے صحیح معنوں میں اگر کسی حکومت کو قانون کی حکومت کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف اسلامی خلافت ہے جس کی بنیاد قوت یا خاندانی بالادستی پر نہیں بلکہ دلیل پر ہوتی ہے۔ اس لیے دنیا کی تاریخ میں حضرات انبیاء کرامؑ کے بعد اگر دلیل اور قانون کی بنیاد پر کوئی حکومت قائم ہوئی ہے تو وہ اسلامی خلافت ہے جس کے بنیادی اصول خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلے خطبہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد ان کی جانشینی کے بارے میں دو مکتب فکر پائے جاتے ہیں۔ ایک امامت کا اور دوسرا خلافت کا۔ اہل تشیع امامت کے علمبردار ہیں اور اہل سنت خلافت کی بات کرتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ان دونوں میں بنیادی فرق بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میری طالبعلمانہ رائے میں خلافت اور امامت میں درج ذیل فرق پائے جاتے ہیں:

  • امامت منصوص ہے یعنی اس کا قیام نص اور مبینہ طور پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے ذریعے عمل میں آیا اور اس میں امت کی رائے کا کوئی دخل نہیں۔ اس لیے اہل تشیع حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ’’وصی رسول اللہ‘‘ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جبکہ خلافت منصوص نہیں ہے، یعنی خلیفہ کا تقرر کسی نص یا وصیت کے ذریعے نہیں ہوا بلکہ خلیفہ اول کا انتخاب امت کی اجتماعی صوابدید کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو صحابہ کرامؓ نے باہمی مشاورت اور عمومی بحث و مباحثہ کے بعد آزادانہ رائے کے ذریعے جناب رسول اللہ کا جانشین منتخب کیا تھا۔
  • امامت نسبی اور خاندانی ہے کہ جن بزرگوں کو اہل تشیع بارہ اماموں کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک دوسرے کے نسبی وارث تھے۔ جبکہ خلافت راشدہ کے چاروں بزرگوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا نسبی وارث نہیں ہے۔
  • اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق امام معصوم ہوتا ہے۔ اہل سنت خلیفہ کو معصوم نہیں سمجھتے بلکہ وہ شرعی طور پر مجتہد کا درجہ رکھتا ہے۔ معصوم سے خطا کا احتمال نہیں ہوتا اس لیے اس کی بات حتمی ہوتی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ مجتہد کے فیصلوں میں خطا و صواب دونوں کا احتمال موجود ہوتا ہے، اس کے کسی بھی فیصلے سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خلفاء راشدین کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاتا رہا ہے۔
  • خلیفہ اپنی رعیت اور رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں نے اپنے ابتدائی خطبوں میں اس کی وضاحت کی ہے۔ جبکہ امام کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔
  • عوام کو خلیفہ کے احتساب کا حق حاصل ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عمرؓ سے ایک بدوی نے کھلے اجتماع میں چادر کے بارے میں پوچھ لیا تھا اور حضرت عثمانؓ خود پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں حج کے موقع پر کھلی عدالت لگا کر اپنے حکام سمیت عوامی احتساب کے لیے پیش ہوگئے تھے، بلکہ اس عوامی احتساب کا خود سرکاری طور پر اہتمام کیا تھا۔ مگر عوام امام کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ وہ اللہ تعالٰی کا نمائندہ تصور ہوتا ہے اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا۔
  • اثنا عشری اہل تشیع کے ہاں امامت کا تسلسل بارہویں امام پر رک گیا ہے، جو ان کے خیال میں زندہ ہیں اور ان کے عقیدہ کے مطابق آخری دور میں انہیں واپس آنا ہے اور اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن نہیں ہے۔ جبکہ خلافت کا تسلسل ہر دور میں قائم رہا ہے اور آج بھی شرعی شرائط اور طریق کار کے مطابق کسی بھی مسلمان کو خلیفہ منتخب کیا جا سکتا ہے۔

اس لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ’’پاپائیت‘‘ اور ’’تھیاکریسی‘‘ کا یہ تصور کہ ایک شخص خدا کے نمائندہ کے طور پر حکومت کرے، قانون و دستور کی تعبیر میں حتمی اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہو اور کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو، یہ تصور اہل سنت کے نظام خلافت میں تو سرے سے موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ البتہ اہل تشیع کے فلسفہ امامت میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

اس حوالہ سے ایک اور بات بھی ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ آج کے دور میں امامت اور خلافت کے ان دونوں فلسفوں کو دستوری شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے اور خلافت و امامت کی معروف اصطلاحات پر زور دیے بغیر یہ دونوں دستوری ڈھانچے آج موجود ہیں:

  • مثلاً ایران کا دستور امامت کے تصور پر تشکیل دیا گیا ہے کہ اصل حاکم تو ’’امام غائب‘‘ ہیں لیکن چونکہ ان کی غیبوبت کا زمانہ ہے اس لیے ان کی نمائندگی وقت کے سب سے بڑے فقیہ کریں گے جو امام غائب کی نمائندگی اور اختیارات کے ساتھ اصل حاکم ہوں گے۔ اسے ’’ولایت فقیہ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، ایرانی انقلاب کے بعد ولایت فقیہ کا یہ منصب جناب خمینی کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد سے جناب خامنہ ای اس منصب پر فائز ہیں، انہیں ایران کے دستوری و قانونی نظام میں فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے۔ وہ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کے فیصلے کو ویٹو کر سکتے ہیں اور ان کے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔ گویا وہ ’’امام معصوم‘‘ کہلائے بغیر عملاً امام معصوم ہی ہیں اور میرے خیال میں ’’پاپائیت‘‘ کا تصور بھی کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے۔
  • دوسری طرف پاکستان میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے ذریعے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلٰی اللہ تعالٰی کی ہے، حکومت عوام کے منتخب نمائندے کریں گے مگر وہ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حدود کے پابند ہوں گے اور قرآن و سنت کے دائرے سے تجاوز نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں اگر آج ’’خلافت‘‘ کو دستوری شکل دی جائے تو اس کی بنیاد یہی ہوگی کہ (۱) اعلٰی حاکمیت اللہ تعالٰی کی ہے (۲) خلیفۂ وقت اللہ تعالٰی کے احکام و قوانین نافذ کرنے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے (۳) خلیفہ کا انتخاب عوامی رائے سے ہوگا (۴) خلیفہ اور اس کی حکومت قرآن و سنت کے مطابق حکومت کرنے کی پابند ہوں گے (۵) خلیفہ اور اس کے حکّام عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں یہ اصول ’’خلافت‘‘ کی اصطلاح اختیار کیے بغیر شامل کر لیے گئے ہیں، اگر ان پر عمل ہو جائے تو ایک صحیح اسلامی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایران کی قیادت اپنے فلسفہ کے ساتھ مخلص معلوم ہوتی ہے اور پورے خلوص و دیانت کے ساتھ اس پر عمل کر رہی ہے، جبکہ پاکستان کے مقتدر طبقات کے نزدیک دستور کی اسلامی حیثیت اور دفعات و قوانین کی پوزیشن صرف ’’شوپیس‘‘ اور نمائش کی ہے اس لیے دستور کے ساتھ مسلسل منافقت روا رکھی جا رہی ہے۔

اس کے بعد میں اس طرف آؤں گا کہ آج کے دور میں اسلامی خلافت کس طرح قائم کی جا سکتی ہے؟ ہمارے فقہاء کرام نے انعقادِ خلافت کی جو عملی صورتیں بیان کی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  1. امت اپنی اجتماعی صوابدید پر خلیفہ کا انتخاب کرے۔ یہ عوامی رائے سے ہو یا ارباب حل و عقد خلیفہ کا انتخاب کریں اس کے بارے میں بحث کی گنجائش موجود ہے۔
  2. خلیفۂ وقت کسی کو ارباب حل و عقد کی مشاورت کے ساتھ اپنا جانشین نامزد کر دے۔
  3. خلیفہ براہ راست جانشین نامزد کرنے کی بجائے کوئی کمیٹی بنا دے جو اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لے۔
  4. مجلس شورٰی خلیفہ کا انتخاب کر لے۔
  5. کوئی شخص جو خلافت کی اہلیت رکھتا ہو بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے۔

فقہاء کرام کے ہاں مسلّمہ فقہی اصولوں کے مطابق خلافت کے انعقاد کی یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں سے کسی ایک صورت کے ذریعے خلافت قائم ہو سکتی ہے اور خلیفہ کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے آج کے حالات میں دوسری، تیسری اور چوتھی صورت قابل عمل نہیں ہے اس لیے کہ اس وقت کوئی شرعی خلیفہ موجود نہیں ہے جو کسی کو نامزد کر سکے یا کمیٹی بنا سکے اور کسی شرعی خلیفہ کی مقرر کردہ کوئی شورٰی بھی موجود نہیں ہے جو انتخابِ خلیفہ کا حق رکھتی ہو۔ آج کے دور میں خلافت کے قیام کی پہلی اور آخری صورت ہی قابل عمل ہے کہ امت خود کسی خلیفہ کا انتخاب کرے یا کوئی اہل شخص طاقت کے ذریعے کسی مسلم ملک کے اقتدار پر قبضہ کر کے خلافت کا اعلان کر دے اور ملک کے عوام اسے قبول کر لیں۔ اس لیے میرے خیال میں اب اگر ہم خلافت قائم کرنا چاہیں تو عملی صورت یہ ہوگی کسی مسلم ملک کی منتخب پارلیمنٹ خلافت کے نظام کو اپنانے کا فیصلہ کرے اور اس کے تمام شرعی و دستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ملک کو ’’اسلامی امارت‘‘ قرار دے۔ اور چند اسلامی ریاستیں وجود میں آجانے کے بعد وہ آپس میں مل کر ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ قائم کر کے خلیفہ کا انتخاب کر لیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے خلافت کے نظام کو عالمی نظام قرار دیا ہے جو مختلف ریاستوں اور حکومتوں کے درمیان انصاف کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ اس لیے علاقائی اسلامی حکومتوں کو خلافت کی بجائے ’’امارتِ اسلامیہ‘‘ کا نام دینا ہی زیادہ مناسب ہے جیسا کہ طالبان نے افغانستان میں شرعی حکومت قائم کرنے کے بعد خلافت کے اعلان کی بجائے اسے ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ قرار دے دیا تھا۔ اور میرے خیال میں یہ انتہائی دانشمندانہ فیصلہ تھا اس لیے کہ ہر علاقے میں الگ الگ خلافت قائم ہوگی تو باہمی ٹکراؤ اور خلفشار کی انتہائی افسوسناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔

اس وقت عالم اسلام میں خلافت کی بحالی کی بیسیوں تحریکات موجود ہیں جن کے ساتھ حالات کے مطابق مناسب مواقع پر تعاون کرتا رہتا ہوں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ہم خلافت کی بحالی کی جدوجہد میں تعاون کریں گے جبکہ خلیفہ کا انتخاب اپنے وقت پر منطقی طریقہ کار کے مطابق ہوگا اس لیے ہم خلافت کے کسی موجودہ امیدوار کی حمایت نہیں کرتے۔ چند سال قبل لندن میں جبہ قبہ پہنے ہوئے ایک صاحب ایک اجتماع میں ملے، انہوں نے اپنی ہیئت اس طرح کی بنا رکھی تھی جیسے وہ واقعتاً ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جرمنی میں رہتے ہیں، ترکی کے خاندانِ خلافت سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے خلافت کے استحقاق کا دعوٰی کیا ہے، کچھ لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں، مجھ سے انہوں نے بیعت کا تقاضا کیا۔ عربی میں گفتگو کر رہے تھے، ان کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ خلافت کی بحالی کے موقف سے ہم متفق ہیں لیکن خلیفہ کے انتخاب کے اس طریق کار سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اسباق کے دوران ایک بزرگ تشریف لائے جو پاکستان ہی کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان سے ملا تو انہوں نے بیعت کا تقاضا رکھ دیا کہ میں امیر المؤمنین ہوں آپ میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔ میں نے معذرت کر دی کہ اس طرح کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ لاہور میں خلافت کے موضوع پر سیمینار تھا جس میں مجھے بھی بلایا گیا، میں نے خلافت کی اہمیت و ضرورت اور برکات و ثمرات کے حوالہ سے گزارشات پیش کیں جن کے آخر میں دل لگی کے انداز میں عرض کیا کہ مجھے اس ہال میں پانچ چھ خلیفہ نظر آرہے ہیں، اگر لاہور میں اتنے ہیں تو پاکستان میں کتنے ہوں گے، پھر عالم اسلام کی کیا صورتحال ہوگی اور خلافت کے نام پر کتنی خوفناک دھماچوکڑی مچ جائے گی۔

ایسی صورتحال میں جبکہ پورا مغرب ’’خلافت‘‘ کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور عالمی قوتوں نے طے کر رکھا ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دی جائے گی، اس ماحول میں خلافت کا قیام بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ہماری شرعی و دینی ذمہ داری بھی ہے کہ جلد از جلد خلافت قائم ہو جائے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ خلافت کے نام پر امت میں کوئی نیا خلفشار پیدا نہ ہو جائے اور ہم پہلے مسائل کو سمیٹتے سمیٹتے عالم اسلام کے لیے کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہ کر دیں۔

جہاں تک خلافت کی ضرورت اور اس کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے، فقہاء کرام نے اسے امت کی اجتماعی ذمہ داری اور فرض کفایہ قرار دیا ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلافت شرعیہ موجود ہو جس سے امت کے افراد متعلقہ امور و معاملات میں رجوع کر سکتے ہوں تو گزارہ ہو جائے گا لیکن اگر کہیں بھی خلافت اسلامیہ کا وجود نہیں ہے تو امت مسلمہ بحیثیت امت مجموعی طور پر دینی فریضہ کی تارک اور گناہگار ہوگی۔ میرے خیال میں آج کی صورتحال یہی ہے کہ ہم سب دینی فریضہ کے تارک اور گناہگار ہیں۔ فقہاء کرام نے خلافت کے وجوب پر ایک دلیل یہ دی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد سب سے پہلے یہی کام کیا تھا حتٰی کہ آنحضرتؐ کی تجہیز و تدفین سے بھی اس کو مقدم کیا۔ اس لیے یہ صرف واجب نہیں بلکہ اہم الواجبات ہے۔ فقہاء کرام خلافت کے وجوب کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن و سنت کے بہت سے صریح احکام مثلاً جہاد، قیامِ عدل، حدود کا نفاذ اور بیت المال وغیرہ اس بات پر موقوف ہیں کہ کوئی صاحب اقتدار انہیں قائم و نافذ کرے۔ اور اصول یہ ہے کہ فرض کا موقوف علیہ بھی فرض ہوتا ہے، اس لیے قرآن و سنت کے اجتماعی اور معاشرتی احکام کے نفاذ کے لیے خلافت کا قیام فرض اور واجب ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں ہم سب خلافت کے تارک ہیں۔ حکمران اس درجہ میں کہ ان کے پاس اختیار ہے مگر وہ نہیں کر رہے، جبکہ سیاسی راہنما اور علماء کرام اس طور پر کہ وہ منظم محنت کر کے ملک میں ایسی فضا قائم کر سکتے ہیں مگر ان کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔ اسی طرح خلافت کے احیا کی جو تحریکیں اس وقت عالم اسلام میں موجود ہیں ان میں سے ہر ایک کا ہدف صرف یہ ہے کہ کسی طرح وہ دنیا کے کسی خطہ میں اقتدار حاصل کر لیں اور خلافت کے قیام میں ان کی طرف سے پہل ہو جائے، لیکن جو اصل ضرورت ہے کہ امت میں عمومی طور پر خلافت کی بحالی کا ذوق بیدار ہو، آج کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے رائے عامہ کو خلافت کی بحالی کے لیے منظم کیا جائے اور بھرپور عوامی قوت کے ساتھ خلافت کے قیام کی جدوجہد کی جائے، یہ کام دنیائے اسلام میں کسی جگہ نہیں ہو رہا۔

اس کے برعکس ’’امامت‘‘ کا تصور رکھنے والوں نے مربوط اور منظم محنت کر کے اسے نہ صرف عملاً قائم کر لیا ہے بلکہ کامیابی کے ساتھ اسے چلا بھی رہے ہیں۔ ایران میں شاہ کے خلاف مذہبی طبقہ نے بیداری اور بیزاری دونوں کا پوری قوت کے ساتھ اظہار کیا، جناب خمینی صاحب نے اپنی جدوجہد اور محنت کا ہدف یونیورسٹیوں کو بنایا، ان کے اساتذہ و طلبہ کی ذہن سازی کی، انہیں اپنے مذہبی فلسفہ کے مطابق حکومت کی تشکیل اور اس میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار کیا، رائے عامہ کو منظم کیا، شاہ ایران کے خلاف ذہن رکھنے والے تمام طبقوں حتٰی کہ قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کو بھی ساتھ ملایا اور پہلے شاہ کو شکست دی اور پھر اپنی تربیت، ذہن سازی اور منظم تیاری کی بنیاد پر حکومت پر قبضہ کر کے کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کو دھیرے دھیرے پس منظر کی طرف دھکیل دیا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس انقلاب کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں کو سنبھالنے اور ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ اور ذہنی طور پر پختہ افراد کی کھیپ موجود تھی جس نے انقلاب کے بعد ملک کے نظام کو سنبھال لیا اور اب تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس سب کچھ کی تیاری انقلاب کے بعد نہیں کی گئی بلکہ انقلاب سے پہلے یہ سارے کام درجہ بدرجہ مکمل ہو چکے تھے، اس لیے ان کا انقلاب کامیاب ہوا اور کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔

مگر ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے؟ مجھے اگر اس گستاخی پر معاف کر دیا جائے تو عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں خلافت کی تمام تر بحث صرف ایک دو نقطوں کے گرد گھومتی ہے کہ ’’خلیفہ اول‘‘ کون تھے اور خلافت راشدہ میں کون کون بزرگ شامل ہیں؟ ان دو باتوں سے ہٹ کر خلافت کا کوئی اور پہلو ہمارے ہاں سرے سے زیربحث نہیں آتا اور نہ ہی ہم اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، حالانکہ خلافت کا اپنا ایک مستقل نظام ہے جو سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، قانونی بھی ہے، انتظامی بھی ہے اور معاشرتی بھی ہے۔

آج کی دنیا جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے خود دنیا نے اس کے معاشرتی پہلو کا حل یہ نکالا ہے کہ حضرت عمرؓ کی طرح ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کا اصول اپنایا ہے۔ برطانیہ اور ناروے سمیت بعض مغربی ملکوں نے حضرت عمرؓ کے بیت المال کے نظام پر ریسرچ کی ہے اور اس کا بہت سا حصہ اپنے نظام میں شامل کیا ہے جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں کے علمی و سیاسی حلقوں کو اس کی توفیق نہیں ہے کہ وہ آج کے حالات اور معاشرتی ضروریات کو سامنے رکھ کر خلافت راشدہ کے معاشی نظام اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کے بیت المال کے سسٹم کو اسٹڈی کریں اور اسے آج کی اصطلاحات میں ایک پورے نظام کی شکل دیں۔ میں مثال کے طور پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں، امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ بیت المال کے دو تہائی سے زیادہ اثاثے حکمران خاندان کے قبضے میں تھے اور قومی خزانہ خالی تھا۔ انہوں نے قومی خزانے کے یہ اثاثے واپس لینے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے فدک کا باغ واپس کیا جو اُن کے ذاتی قبضہ میں تھا، پھر اپنی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملک کے زیورات اتروا کر بیت المال کو واپس بھجوائے اور پھر حکمران خاندان کا اجتماع کر کے ان سے تقاضا کیا اور چند ہفتوں کے اندر وہ بیت المال کے اثاثے واپس لینے میں کامیاب ہوگئے۔

ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے اور ملکی دولت بڑے بڑے لوگوں کے بیرونی اکاؤنٹس میں منتقل ہو چکی ہے اور اس کی واپسی کے لیے چیخ و پکار جاری ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اگر ہم آج کے مسائل کو سامنے رکھ کر خلافت راشدہ کے نظام کو ان کے حل کے طور پر پیش کریں اور عام لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں تو خلافت کے نظام کے لیے امت کو تیار کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter