عائلی قوانین کا مسئلہ ‒ جلیل القدر پیغمبرؑ کے خلاف ہرزہ سرائی

   
تاریخ اشاعت: 
۲۹ جنوری ۱۹۸۲ء

بعض اخباری خبروں کے مطابق وفاقی مجلس شوریٰ کی بعض خواتین ارکان نے صدر جنرل محمد ضیاء الحق سے مطالبہ کیا ہے کہ عائلی قوانین کے سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قبول نہ کیا جائے اور صدر نے خواتین کے اس مطالبہ کو پذیرائی بھی بخشی ہے۔

ہم اس ضمن میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ عائلی قوانین کی بیشتر دفعات کے قطعی غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل نے نہیں کیا بلکہ اس پر ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء متفق ہیں اور اس نکتہ پر اس قدر بحث ہو چکی ہے کہ مزید کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے جب تمام غیر اسلامی قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی بات ہو رہی ہے تو چند ایسی خواتین کے کہنے پر جو ملک کی ۹۰ فیصد پردہ نشین خواتین کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتیں، عائلی قوانین کو خصوصی تحفظ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اور ہمیں امید ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں دینی حلقوں کی متفقہ رائے کو نظر انداز نہیں کرے گی۔

جلیل القدر پیغمبرؑ کے خلاف ہرزہ سرائی

لاہور کے ایک موقر روزنامہ میں شائع ہونے والے ایک مراسلہ میں سید انور علی ضامن نامی کسی مصنف کی تصنیف ’’معارف سرائیکی‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سرائیکی کی تاریخ اور اس کے متعلقات پر بحث کی گئی ہے۔ جہاں تک کسی علاقائی زبان یا تہذیب و ثقافت کے بارے میں تحقیق کا تعلق ہے اس پر کسی کو کلام نہیں ہو سکتا، یہ ہر زبان اور ثقافت کا حق ہے کہ تاریخ میں اسے اس کا صحیح مقام دیا جائے۔ مگر ہمیں مذکورہ کتاب کے ان مندرجات پر شدید اعتراض ہے جن میں حضرات انبیاء کرامؑ کے بارے میں بے سروپا باتیں لکھی گئی ہیں اور بالخصوص ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ وہ معاذ اللہ سورج پرست تھے اور انہیں نعوذ باللہ کوڑھ ہوگیا تھا اور پھر سورج پرستی کے ذریعے انہیں شفا حاصل ہوئی۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کتاب کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے اور حضرات انبیاء کرامؑ کی توہین کے الزام میں قانون کے مطابق ضروری کاروائی بلاتاخیر عمل میں لائی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter