حدود آرڈیننس میں ترامیم کا نیا بل

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۶ء

قومی اسمبلی میں ’’تحفظ خواتین بل‘‘ کے نام سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا بل پیش کیا گیا ہے اور متحدہ مجلس عمل نے اسے مسترد کرتے ہوئے ایوان کے اندر اور باہر اس کے خلاف شدید احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حدود آرڈیننس میں ترامیم کا عندیہ ایک عرصہ سے دیا جا رہا تھا اور بعض ملکی اور بین الاقوامی حلقوں کے مطالبہ پر ان ترامیم کی تیاری پر مسلسل کام ہو رہا تھا جس کا نتیجہ تحفظ خواتین بل کی صورت میں سامنے آیا ہے اور اس سے ملک میں حدود شرعیہ کے نفاذ و بقا کا مسئلہ بحث و مباحثہ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور میں ۲۳ اگست ۲۰۰۶ء کو شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق نئے بل کے ذریعے جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ان میں چند اہم امور درج ذیل ہیں:

  • بداخلاقی (زنا) سے متعلق تعزیری سزاؤں کی دفعات حدود آرڈیننس سے حذف کرکے تعزیرات پاکستان میں شامل کر دی گئی ہیں جن میں ’’زنا بالجبر‘‘ سے متعلقہ دفعہ بھی شامل ہے۔
  • ان جرائم کی سزاؤں میں کوڑوں کی سزا ختم کر دی گئی ہے۔
  • ان ترامیم سے حدود آرڈیننس میں شامل سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا اختیار سماعت ختم ہوجائے گا اور ان اپیلوں کی سماعت ہائی کورٹس کریں گے۔
  • اسی طرح عملی طور پر حدود آرڈیننس کو غیر مؤثر قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے، ایک ہی جرم کے بارے میں دو قانون بنا دیے گئے ہیں، اب بداخلاقی (زنا ) کی ایف آئی آر درج کرتے وقت تھانوں کے محرر اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ان میں تعزیرات پاکستان کی دفعات شامل کرنی ہیں یا حدود آرڈیننس کے تحت کاروائی کرنی ہے۔
  • ایک نئی دفعہ کے تحت زنا یا زنا بالجبر کی تشہیر، جس کے ذریعے کسی عورت یا اس کے خاندان کی شناخت ظاہر کی گئی ہو، اس پر چھ ماہ قید تک کی سزا مقرر کی گئی ہے جو آزادی صحافت سے متصادم بتائی جاتی ہے۔
  • اس بل کی منظوری سے حدود آرڈیننس مجریہ ۱۹۷۹ء محض ایک شو پیس کے طور پر باقی رہ جائے گا۔

روزنامہ پاکستان کی تجزیاتی رپورٹ کے یہ چند حصے اس لیے درج کیے گئے ہیں تاکہ تحفظ خواتین بل کا اصل مقصد قارئین کے سامنے آجائے کہ اس بل کے نفاذ سے اصل غرض خواتین کا تحفظ یا حدود آرڈیننس کی اصلاح نہیں بلکہ حدود آرڈیننس کے نام سے جو شرعی قوانین ۱۹۷۹ء سے رسمی طور پر نافذ چلے آرہے تھے، انہیں غیر مؤثر بنانا ہے۔ ’حدود آرڈیننس اس حوالے سے تو پہلے ہی غیر مؤثر تھے کہ ان کے اردگرد نو آبادیاتی عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کا جو پیچیدہ جال بن دیا گیا تھا اس کی موجودگی میں کسی شرعی حد کا عملاً نفاذ بظاہر ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ لیکن قوانین کی حد تک شرعی حدود بہرحال رسمی طور پر موجود تھیں اور عدالتی نظام میں ضروری اصلاحات کے ساتھ ان حدود کے مؤثر نفاذ کا کسی وقت بھی اہتمام ہوسکتا تھا مگر اب اس نئے بل کی صورت میں خود ان قوانین کو ہی تضادات اور پیچیدگیوں کی نذر کر دیا گیا ہے اور اس طرح پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کا راستہ روکنے کے لیے عالمی اور ملکی سیکولر حلقوں کے ایجنڈے میں پیشرفت کا اہتمام کیا گیا ہے۔

اس پس منظر میں متحدہ مجلس عمل کا احتجاج اس نئے قانونی مسودہ کے خلاف ایک فطری ردعمل ہے۔ ہم حکومت پاکستان اور ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اسے سیاسی کشمکش اور گروہ بندی کے پس منظر میں دیکھنے کی بجائے نفاذ اسلام کے قومی تقاضوں کے حوالے سے دیکھیں۔ جبکہ حکومت اور متحدہ مجلس عمل سے ہماری استدعا ہے کہ اقتدار کی کشمکش اور ترجیحات سے بالاتر ہو کر پاکستان میں شرعی قوانین کے عملی نفاذ کے لیے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ لائحہ عمل اختیار کریں، اقتدار آنی جانی چیز ہے مگر ان حوالوں سے حکومتوں کے کردار تاریخ کا حصہ بن جایا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ حکمران جماعت اس سلسلہ میں ہوشمندی سے کام لے گی اور اپنے منہ پر شرعی قوانین کی منسوخی کی کالک ملنے کی بجائے حدود شرعیہ کے تحفظ اور مؤثر نفاذ کے لیے مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات کی نیک نامی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter