اقوام متحدہ میں ’’بین المذاہب کانفرنس ‘‘

   
تاریخ : 
دسمبر ۲۰۰۸ء

گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’’بین المذاہب کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جو دو روز جاری رہی اور اس میں کم و بیش ۷۰ ممالک کے سربراہوں، وزرائے خارجہ، سفیروں اور دیگر حکام نے شرکت کی جن میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، پاکستانی صدر آصف علی زرداری، برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن، اسرائیلی صدر شمعون پیریز، افغان صدر حامد کرزئی، اردن کے شاہ عبد اللہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ کانفرنس سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبد اللہ کی تحریک پر ہوئی جو اس سے چند ماہ قبل اسپین میں مختلف مذاہب اور ممالک کے وفود کے ساتھ اسی طرح کی ایک کانفرنس کر چکے ہیں اور اسی کے تسلسل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ دو روزہ ’’بین المذاہب کانفرنس‘‘ انعقاد پذیر ہوئی ہے۔

اس کانفرنس کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کے صدر شمعون پیریز، سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ اور دیگر مسلمان ممالک کے سربراہوں بالخصوص پاکستان کے صدر کے ساتھ ایک فورم پر اکٹھے ہوئے ہیں، اور اسی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے اس کانفرنس کو مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کا ایک حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مختلف مذاہب کے راہنماؤں کے درمیان ملاقاتوں اور کانفرنسوں کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور اس کا سب سے بڑا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مذہب کے نام پر دنیا کے مختلف حصوں میں مبینہ طور پر جو تشدد ہو رہا ہے، اور یہ کہا جا رہا ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب انتہاپسندانہ مذہبی جذبات ہیں جس سے مذہب بدنام ہو رہا ہے، اسے روکا جائے اور مختلف مذاہب کے پیر و کاروں کے درمیان مفاہمت اور رواداری کے جذبات کو فروغ دیا جائے۔ چنانچہ اس کانفرنس میں بھی سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ اور دیگر راہنماؤں نے اسی قسم کے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے اور کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے، دہشت گردی اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مختلف مذاہب کے درمیان گفت و شنید اور تحمل و برداشت کے فروغ پر زور دیا گیا ہے۔

بین المذاہب کانفرنس میں اکثر عالمی راہنماؤں کی طرف سے جن خیالات و جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ہمیں اصولی طور پر ان سے اتفاق ہے اور ہم کانفرنس کی قرارداد کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن یہ سب باتیں ہمارے خیال میں ادھوری اور یکطرفہ ہیں جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کو کانفرنس کے حوالہ سے سامنے لانے سے گریز کرکے کانفرنس کی افادیت کو محل نظر بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ جس مبینہ انتہاپسندی، دہشت گردی اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اس کی روک تھام کو کانفرنس کے اہداف میں نمایاں حیثیت دی گئی ہے وہ بذات خود کوئی مستقل عمل نہیں ہے بلکہ عالم اسلام میں مغربی ممالک کے گزشتہ ایک صدی کے منفی کردار کا ردعمل ہے، اور کسی بھی رد عمل کو روکنے کے لیے اصل عمل کو روکنا ضروری ہوتا ہے۔

دریں اثنا روزنامہ وقت لاہور نے ۱۶ نومبر کے اداریہ میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر جناب سیگل بروک مین کے مذکورہ کانفرنس سے خطاب کے دوران مغربی اخلاقیات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو اس وقت مذہب کے مثبت اسباق سمجھنے کی ضرورت ہے اور اجارہ دار مغربی کلچر کی اندھادھند تقلید متعدد تنازعات کی جڑ ہے۔

ہماری رائے میں جناب سیگل بروک مین کے خطاب کا یہ حصہ تصویر کے دوسرے رخ کی نشاندہی کی ایک کوشش ہے جسے کانفرنس کی قرارداد اور مجموعی ماحول میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی، جبکہ اس حوالہ سے سب سے زیادہ طلب پہلو یہی تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک مغرب:

  • آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی نفی کے طرز عمل پر نظر ثانی کر کے مذہب کے معاشرتی کردار کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتا،
  • مغربی تہذیب کی اجارہ داری اور دنیا بھر پر اس کے بزور تسلط کا ذہن ترک کر کے دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے وجود اور ان کے زندہ رہنے کے حق کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا،
  • اور خاص طور پر اسلام اور عالم اسلام کے بارے میں اپنے معاندانہ رویہ سے دستبردار نہیں ہوتا،
  • تب تک ایسی کانفرنسوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ بھاگنے والے اصل شخص کی بجائے اس کے سائے کو پکڑنے کی کوشش آج تک کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔
   
2016ء سے
Flag Counter