کشمیری عوام کی جد و جہد اور ہماری ذمہ داریاں

   
تاریخ: 
۵ فروری ۲۰۱۹ء

(میونسپل گراؤنڈ پتوکی میں بزم اہل سنت کے زیر اہتمام جلسہ سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزم اہل سنت پتوکی کا شکر گزار ہوں کہ آج کی اس تقریب میں حاضری اور کچھ گزارشات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ تقریب دو حوالوں سے ہے۔ پہلا حوالہ یہ ہے کہ آج یوم کشمیر ہے اور پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی بہت سے مقامات پر پاکستانی شہری اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا رہے ہیں۔ جلسے، ریلیاں، اجتماعات، تقریبات اور سیمینارز منعقد کرکے آزادکشمیر کی جد و جہد میں کشمیری عوام کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مسئلہ کشمیر کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت تقسیم کے فارمولا میں ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ دونوں ملکوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ اس موقع پر جموں و کشمیر کے ہندو راجہ نے ریاست کی غالب مسلم اکثریت کے جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا جسے کشمیری عوام نے مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کی جدوجہد شروع کر دی اور جہاد کے ذریعے مظفر آباد، باغ اور دیگر علاقوں کو آزاد کراتے ہوئے جب وہ سری نگر تک پہنچ گئے تو ان سے یہ کہہ کر جنگ بندی کرائی گئی کہ ریاست کا فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کرایا جائے گا۔ چنانچہ اقوام متحدہ درمیان میں آئی اور بین الاقوامی سطح پر طے پایا کہ جموں و کشمیر اور دیگر متعلقہ علاقوں میں آزادانہ استصواب کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنی آزاد مرضی کے ساتھ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ شامل ہونا چاہیں خود اس کا فیصلہ کریں۔

کشمیری عوام کے ساتھ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے یہ وعدہ کیا تھا جس کے لیے اقوام متحدہ کا دفتر آج بھی اسلام آباد میں موجود ہے مگر بھارت اس وعدہ کو پورا کرنے سے انکاری ہے۔ جبکہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس سلسلہ میں زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی پیشرفت نہیں کر رہی جس سے تنگ آکر کشمیری عوام کی ایک بڑی تعداد ہتھیار بکف ہے اور مسلسل قربانیاں دے رہی ہے جسے دبانے کے لیے بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر کا دائرہ بڑھاتا جا رہا ہے۔ کشمیری عوام کے ساتھ یہ ناانصافی اور سراسر ظلم و جبر ہے جس میں پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کے موقف اور جدوجہد کی حمایت کر رہے ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے سے خطہ میں مذہب کی بنیاد پر تفریق میں اضافہ ہو گا اور میں آج اس پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

۱۹۴۷ء میں خود اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے اس فیصلہ پر بھی اقوام متحدہ ابھی تک اس لحاظ سے عمل نہیں کرا سکی کہ فلسطین کی مکمل اور خود مختار ریاست کا قیام ہنوز مکمل نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تقسیم مذہب کی بنیاد پر نہیں تھی؟ ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف یہودی ہیں جنہیں دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے کیا ہے اور اگرچہ فلسطینیوں نے، بعض عرب ممالک نے اور پاکستان نے بھی فلسطین کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا جن پر عالمی حلقوں کی طرف سے مسلسل زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اس تقسیم کو قبول کر لیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے انڈونیشیا کے جزیرہ مشرقی تیمور میں ریفرنڈم کرا کے اسے دو ریاستوں میں تقسیم کیا اور اس کے ایک علاقہ میں مسیحی اکثریت کی بنیاد پر نئی مسیحی ریاست قائم کی، اس کی بنیاد بھی مذہب پر ہے اور یہ سارا کام اقوام متحدہ کے سائے میں مکمل کیا گیا ہے۔ پھر سوڈان کی تقسیم کا باعث بھی مذہب بنا ہے، وہاں اقوام متحدہ نے خود ریفرنڈم کرا کے جنوبی سوڈان کو مسیحی اکثریت کی بنیاد پر ایک نئی مسیحی ریاست کی شکل دی ہے۔

میں اقوام متحدہ اور عالمی لیڈروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اسرائیل، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی نئی ریاستیں اکثریت کے حوالہ سے وجود میں آ سکتی ہیں اور خود اقوام متحدہ اس کا اہتمام کر رہا ہے تو کشمیر کے مظلوم عوام کا کیا قصور ہے کہ انہیں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے واضح فیصلوں کے باوجود اپنا فیصلہ خود کرنے کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور آزادانہ استصواب رائے سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے؟ اگر ریفرنڈم مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کا حق ہے تو کشمیری عوام کا بھی یہ اسی طرح طے شدہ حق ہے جس میں ٹال مٹول کر کے خود اقوام متحدہ کشمیریوں پر ظلم کر رہی ہے اور اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

دوسری بات میں حکومت پاکستان سے کرنا چاہوں گا کہ ہم پورے ملک میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منا رہے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بھرپور آواز بلند کی جا رہی ہے جو خوش آئند ہے مگر اتنی بات کافی نہیں ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر میں صرف کشمیری عوام کے حمایتی نہیں بلکہ ان کے وکیل ہیں اور اس سے آگے بڑھ کر مدعی بھی ہیں کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور یہ بات دریاؤں کے پانی کے حوالہ سے دن بدن بڑھتے چلے جانے والے تنازعات کی فضا میں عملاً بھی نظر آرہی ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اس کے بغیر پاکستان نہ صرف یہ کہ مکمل نہیں ہو گا بلکہ اس کی معیشت و زراعت بھی غیر محفوظ رہے گی۔ اس لیے کشمیر پاکستان کی نظریاتی اور تہذیبی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ مگر مسئلہ کشمیر کے مدعی اور وکیل ہونے کی حیثیت سے عالمی سطح پر ہمارا وہ قومی کردار دکھائی نہیں دے رہا جو اس مسئلہ میں مؤثر پیشرفت کے لیے ضروری ہے۔

اس صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان کی قومی پالیسی کی ترجیحات اور سفارتی جد و جہد کو اس کے ضروریات کے مطابق پھر سے مرتب کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ نہ حکومتی پارٹی کا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا، یہ قومی مسئلہ ہے، وطن عزیز کا مسئلہ ہے اور پوری قوم کا مسئلہ ہے، اسے اسی دائرہ اور اسی سطح پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

آج کی اس تقریب کا دوسرا حوالہ یہ ہے کہ ہمارے فاضل دوست مولانا محمد اسلم زاہد نے ’’آغوش پیغمبرؐ‘‘ کے نام سے ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے جس پر انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ آج کی تقریب میں اس کی رونمائی ہو گی، مولانا موصوف کا تعلق پتوکی سے ہے اور وہ ہمارے ان فاضل دوستوں میں سے ہیں جو تدریس و خطابت کے ساتھ ساتھ تحریری میدان میں بھی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی متعدد تصنیفات اہل علم کے ہاں داد وصول کر چکی ہیں اور ’’آغوش پیغمبرؐ‘‘ میں انہوں نے بچوں کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت کے واقعات ذخیرہ احادیث سے جمع کر کے مرتب کیے ہیں جو قابل قدر کاوش ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت کو قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter