تجارت میں عورت کی نمائش اور تضحیک

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۱۲ء

روزنامہ جنگ لاہور (۱۳ فروری ۲۰۱۲ء) کی ایک خبر کے مطابق جیو ٹی وی کے پروگرام ’’عوام کی عدالت‘‘ میں جیوری نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ۶۵ فیصد کی واضح اکثریت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ اشتہارات میں عورت کی غیر ضروری نمائش خواتین کی تضحیک ہے۔ اس موضوع پر عوام کو رائے دینے کے لیے کہا گیا تھا جس پر اس قرارداد کے حق میں اور اس کے خلاف لوگوں نے رائے دی اور جیوری کے مطابق ۶۵ فیصد عوام نے اس موقف سے اتفاق کیا کہ اشتہارات میں عورت کی نمائش اس کی تضحیک ہے۔

جبکہ گزشتہ ماہ ۱۰ جنوری کو راولپنڈی میں ’’بین الاقوامی رفاہ یونیورسٹی‘‘ کے زیر اہتمام اس موضوع پر ایک سیمینار میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملا، راقم الحروف نے اس سلسلہ میں عرض کیا کہ ہمارے تجارتی اشتہارات عام طور پر دو حوالوں سے محل نظر ہیں:

  • ایک اس وجہ سے کہ اس میں عورت کی تشہیر کو ضروری قرار دے دیا گیا ہے اور عورت کے حسن اور زیبائش کو، جو اپنی جگہ قابلِ احترام ہے، تجارتی اشیا کی فروخت کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، جس میں کم و بیش ہر جگہ مصنوعات کی فروخت کے لیے عورت کی تصویر اور اس کے حسن و زیبائش کو پیش کیا جاتا ہے۔اسے دوسرے لوگ کسی بھی نظر سے دیکھیں مگر ہمارے خیال میں یہ عورت کی توہین اور اس کا استخفاف ہے۔
  • اس کے ساتھ ساتھ ہمارے نزدیک تجارتی اشتہارات کا دوسرا قابل اعتراض پہلو یہ ہے کہ لگژری اور تعیش کی مصنوعات کو ان اشتہارات کے ذریعہ لوگوں کی ضروریات بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جس سے عام آدمی کا بجٹ بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور تعیشات کی ریس میں بد دیانتی اور کرپشن بھی عروج پر پہنچ گئی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے معیشت کو تین دائروں میں تقسیم کیا ہے:

  1. پہلا درجہ ضروریات کا ہے جو بہرحال ضروری اور ناگزیر ہے۔
  2. دوسرا درجہ سہولیات کا ہے جنہیں مناسب حد تک اختیار کرنے کی اجازت ہے۔
  3. جبکہ تیسرا درجہ تعیشات، نمود و نمائش اور تفاخر کا ہے جس کی اسلامی معاشرہ میں اجازت نہیں ہے۔

مگر ہمارے ہاں اس تجارتی نمائش اور اشتہارات کی وجہ سے تعیشات کو ضروریات میں شامل سمجھا جانے لگا ہے جس سے عام آدمی کا بجٹ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی معاشی توازن بھی بگڑ کر رہ گیا ہے۔ اور یہ بھی جدید تہذیب اور ویسٹرن سولائزیشن کا کرشمہ ہے کہ عورت کو جس کا نام ہی اسلامی معاشرت میں ’’عورت‘‘ چلا آرہا ہے اسے زینت خانہ کے دائرہ سے نکال کر رونقِ محفل بلکہ اوپن تھیٹر کا کردار بنا دیا گیا ہے اور اس کے حسن و زیبائش کی کھلی نمائش ہماری تجارت کا لازمی حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ جس طرح مرد نے عورت کے فطری فرائض میں سے کوئی فریضہ اپنے ذمے لیے بغیر اسے اپنے فرائض میں شریک کر لینے کو ’’عورت کا حق‘‘ قرار دے رکھا ہے اسی طرح اسے کوئی کمیشن ادا کیے بغیر تجارت کی ہر سطح پر ’’کمیشن ایجنٹ‘‘ بنا لیا ہے اور وہ ’’عقل کی پوری‘‘ اس بات پر خوش ہے کہ اسے مردوں کے مساوی قرار دے کر اس کا معاشرتی درجہ بڑھا دیا گیا ہے، فیا أسفاہ و یا ویلاہ۔

   
2016ء سے
Flag Counter