بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشمکش

   
تاریخ : 
۲۳ فروری ۲۰۱۳ء

شیخ الازہر کا شمار عالمِ اسلام کی ممتاز علمی و دینی شخصیات میں ہوتا ہے اور ’’الامام الاکبر‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ اس منصب پر سرکردہ اصحابِ علم و فضل وقتاً فوقتاً فائز ہوتے آرہے ہیں، ان کی علمی و دینی رائے اور فتویٰ کو نہ صرف مصر میں بلکہ عالمِ اسلام اور خاص طور پر عرب دنیا میں اہمیت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، مصر اور عالم اسلام کے مختلف مسائل پر وقیع رائے کا اظہار ان کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے، ان دنوں اس منصب پر فضیلۃ الدکتور احمد الطیب حفظہ اللہ تعالیٰ فائز ہیں جو مصر کی معروف علمی شخصیات میں سے ہیں۔ گزشتہ دنوں قاہرہ میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے ایران کے صدر جناب محمود احمدی نژاد وہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے شیخ الازہر سے بھی ملاقات کی اور ان سے عالم اسلام کے مسائل پر تبادلۂ خیالات کیا۔

اس موقع پر شیخ الازہر نے ان سے ایرانی حکومت کی بعض پالیسیوں کے حوالہ سے اہل سنت کے علمی و دینی تحفظات کے مسئلہ پر گفتگو کی اور انہیں اپنی شکایات سے آگاہ کیا، اس سلسلہ میں روزنامہ ’’کائنات‘‘ اسلام آباد میں ۷ فروری ۲۰۱۳ء کو شائع ہونے والی خبر یوں ہے:

’’مصر کی معروف تاریخی دینی درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر زور دیا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے معاملات میں مداخلت سے گریز اور بحرین کا برادر ہمسایہ عرب ملک کے طور پر احترام کریں۔ اہل السنۃ والجماعۃ مسلک کے پیروکار ملکوں میں شیعہ ازم کے فروغ کی کوششیں ناپسندیدہ ہیں۔ ایران کے صدر اور شیخ الازہر کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے یونیورسٹی کے بیان میں ڈاکٹر احمد الطیب نے محمود احمدی نژاد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحرین کا برادر عرب ہمسایہ ملک کے طور پر احترام کریں اور خلیجی ملکوں کے معاملات میں مداخلت نہ کریں، شیخ الازہر نے کہا کہ میں اہل السنۃ والجماعۃ مسلک کے پیروکار ملکوں میں شیعہ ازم کے پھیلاؤ کو مسترد کرتا ہوں۔ ایرانی صدر سے اپنی ملاقات میں شیخ الازہر نے سنی مسلک کے پیروکار ممالک میں مداخلت اور اہل السنۃ والجماعۃ مسلک کو گزند پہنچانے کی کوششوں کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مصر ماضی میں اور اب بھی اہل السنۃ والجماعۃ کا گڑھ ہے، الازہر الشریف اہالیان مصر اور بالخصوص نوجوانوں میں شیعہ ازم کو فروغ دینے کی کوششوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ احمد الطیب نے ایران میں بعض لوگوں کی طرف سے امہات المومنین بالخصوص حضرت عائشہؓ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے خلاف نازیبا کلمات کی شدید مذمت کی۔ شیخ الازہر نے ایرانی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ برادر ملک شام میں خون خرابہ رکوانے اور وہاں امن قائم کرنے میں مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ انہوں نے احمدی نژاد سے ایران میں اہل السنۃ کو مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کیا۔‘‘

روزنامہ ’’کائنات‘‘ کی یہ خبر جامعہ ازہر کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے حوالہ سے ہے جس سے اس مسئلہ پر شیخ الازہر، الازہر الشریف اور مصر کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ صرف الازہر الشریف اور مصر کے علماء اور عوام کی ترجمانی نہیں ہے بلکہ عالم اسلام کے بہت سے دیگر ممالک بھی اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن وہاں کی کسی سرکردہ علمی شخصیت کو شاید شیخ الازہر کی طرح اپنے موقف و جذبات کو بیان کرنے کا حوصلہ یا موقع نہیں مل رہا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے بزرگ عالم دین اور مسجد نبویؐ کے امام محترم الشیخ حذیفی حفظ اللہ تعالیٰ نے بعض مواقع پر اس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا تھا لیکن حوصلہ افزائی کا مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے بات صرف ان کی ذات تک محدود رہی۔ مگر جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے وہ تو کم و بیش ہر جگہ موجود ہے بلکہ اس کے توسع، تنوع اور سنگینی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پاکستان کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، ہمارے ہاں سنی شیعہ اختلافات اور کشمکش صدیوں سے چلے آرہے ہیں لیکن ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد سے اس کی نوعیت بدل گئی ہے اور اس میں بہت سے نئے پہلوؤں کا اضافہ ہوا ہے۔ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد انقلابی راہ نما جناب خمینی کی نمائندگی کے ٹائٹل کے ساتھ یہاں ایک نئی جماعت ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ وجود میں آئی تھی اور اس کی طرف سے ملک میں فقہ جعفریہ کے نفاذ کے مطالبہ نے ایک ایسا خلفشار جنم دیا تھا جس کے تلخ نتائج ابھی تک سمیٹنا پڑ رہے ہیں حتیٰ کہ اس کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی طرف سے اسلام آباد کے وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کیا گیا اور وہاں دھرنا دیا گیا جس کے رد عمل میں دوسری طرف بھی شدت کا عنصر ابھرا اور معاملات بگڑتے چلے گئے۔ اس صورت حال کے گہرے تجزیہ اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کی طرف ہماری سرے سے توجہ ہی نہیں ہے۔ اہل السنۃ کے عقائد و مسلک اور مفادات و معاملات کے تحفظ کے حوالہ سے ہم (۱) چند عقائد اور ان کی تعبیرات کی بحث اور (۲) حضرات صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت و عقیدت کے جذباتی اظہار کے دو دائروں سے باہر دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، حالانکہ خود ان دو دائروں کا تقاضہ ہے کہ ہم معروضی صورت حال اور زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور حال و مستقبل کے خدشات، خطرات، ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی اور طریق کار وضع کریں۔

سنی شیعہ کشمکش اور اس سلسلہ میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ اب صرف پاکستان، مصر یا سعودی عرب کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں آرہا ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں یہ کشمکش ایک نیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور کویت، یمن، بحرین، لبنان، عراق، اردن اور شام سے اٹھنے والا دھواں کسی نئے آتش فشاں کے بے قابو ہوجانے کی خبر دے رہا ہے۔ اس لیے ہم احباب کو توجہ دلانے کے لیے چند تجاویز ارباب فکر و دانش کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

  • شیخ الازہر اور شیخ حذیفی سے کسی مؤثر صورت میں درخواست کی جائے کہ وہ اسے پورے عالم اسلام کا مسئلہ سمجھتے ہوئے مسلمان ممالک کے سرکردہ راہ نماؤں اور علماء کرام کے درمیان باہمی مشاورت کا اہتمام کریں۔
  • پاکستان کے دینی و علمی حلقے بالخصوص سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کی قیادتیں اس سلسلہ میں زمینی حقائق، معروضی صورت حال اور پیش آمدہ خطرات و خدشات کا وسیع تناظر میں ادراک و احساس کریں اور نصف صدی قبل کے ماحول سے باہر نکل کر آج کے حالات میں اپنی حکمت عملی اور طریق کار کا از سر نو تعین کریں۔
  • اسے صرف دیوبندیوں کا مسئلہ بنائے رکھنے کی بجائے اہل سنت کے تمام حلقوں اور مکاتب فکر کے مشترکہ مسئلہ کے طور پر دیکھا جائے اور دوسرے مذہبی مکاتب فکر کو بھی اس میں شریک کرنے کی کوشش کی جائے۔
  • وکلاء، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کو مسئلہ کی نوعیت اور سنگینی سے آگاہ کرنے کی مہم چلائی جائے اور قوم کے تمام طبقات کو اس مہم کا حصہ بنایا جائے۔
  • مجھے اس میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا کہ سنی شیعہ کشمکش کے کھلے طور پر سامنے آنے والے تلخ ثمرات و نتائج اور ملی و قومی نقصانات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ شیعہ راہ نماؤں سے بھی بات کی جائے اور معاملات کو کسی قابل قبول دائرے میں رکھنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی کوئی صورت نکالی جائے۔
   
2016ء سے
Flag Counter