گوجرانوالہ کے دو دینی مدارس کے خلاف پولیس ایکشن

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۱۳ء

گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے دو دینی مدرسوں مدرسہ انوار العلوم اور مدرسہ مظاہر العلوم کے خلاف پولیس ایکشن سے ملک بھر کے دینی حلقوں میں تشویش و اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ رمضان المبارک کے دوران چلاس ضلع دیامر میں ایک حملہ کے دوران ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہلال خان اور ان کے رفقاء جاں بحق ہوئے، ہلال خان گوجرانوالہ میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور اچھے پولیس افسروں میں ان کا شمار ہوتا تھا، ان کی شہادت پر خود ہمیں بھی بہت دکھ ہوا۔ اس کیس میں چلاس ہی کے رہنے والے دو طالب علم پولیس کی نظر میں مشکوک تھے اور تفتیش کے لیے اسے مطلوب تھے، چلاس پولیس ان طلبہ کی تلاش میں گوجرانوالہ پہنچی، اس کے خیال میں وہ مدرسہ انوار العلوم میں زیر تعلیم تھے اور ابھی ایک ماہ قبل انہوں نے داخلہ لیا تھا۔

یہاں تک تو بات ٹھیک تھی کہ ایک پولیس افسر اور اس کے رفقاء کے قتل کے کیس میں دو افراد پولیس کو شک کی وجہ سے تفتیش کے لیے مطلوب تھے اور یہ پولیس کا حق تھا کہ وہ انہیں طلب کرتی، اس سے مدرسہ انوار العلوم کی انتظامیہ کو بھی کوئی انکار نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ان طلبہ کو پولیس کے حوالہ کر دیتی۔ لیکن اس کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا وہ انتہائی افسوسناک تھا، صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ پولیس کے بھاری نفری نے مدرسہ انوار العلوم اور مدرسہ مظاہر العلوم دونوں کا محاصرہ کر لیا اور بخاری شریف کے سبق کے دوران کلاس میں جا کر چلاس اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے بائیس طلبہ کو الگ کر کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اگرچہ متعلقہ پولیس افسران کا رویہ مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ معقول تھا اور شام سے قبل بیس طلبہ کو رہا بھی کر دیا گیا جس کا ہم نے شکریہ ادا کیا۔ لیکن کسی کیس میں تفتیش کے لیے مطلوب دو طلبہ کی گرفتاری کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا وہ بہرحال قابل افسوس ہے۔

جبکہ اس سے زیادہ قابل افسوس بلکہ قابل مذمت رویہ میڈیا کا تھا کہ اس کے مختلف چینلز سے مسلسل دو روز تک یہ کہا جاتا رہا کہ خفیہ اداروں نے مدرسہ انوار العلوم اور مدرسہ مظاہر العلوم پر چھاپہ مار کر اکیس غیر ملکی طلبہ اور دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور پھر ان دونوں مدرسوں کے سابق مہتمم حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کو افغان طالبان کے امیر ملا عمر مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ کا استاذ قرار دے کر جو ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی وہ دینی مدارس کے بارے میں عالمی استعمار کے منفی ایجنڈے کی ایک کڑی ہے۔جبکہ صورتحال یہ ہے کہ نہ تو مدارس پر چھاپے مارنے والی فورس کسی خفیہ ادارے کی تھی کیونکہ باضابطہ پولیس نے ایس پی سٹی کی سرکردگی میں یہ کاروائی کی، اور نہ ہی گرفتار ہونے والے بائیس طلبہ میں سے کوئی غیر ملکی ہے، یہ سب پاکستانی ہیں اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کے شناختی کارڈ پولیس کے ساتھ ساتھ مدرسہ انوار العلوم کے ریکارڈ میں بھی درج ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں سے دوست اس واقعہ کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں اس لیے اصل صورتحال مختصراً ہم نے عرض کر دی ہے۔ جہاں تک دینی مدارس کا تعلق ہے وہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے اس قسم کی کاروائیوں کو سامنا کر رہے ہیں اس لیے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی استعمار کی فکری، علمی اور دینی یلغار کے خلاف مدارس ہی سب سے بڑا تہذیبی اور ثقافتی مورچہ ہیں جو بحمد اللہ تعالیٰ پورے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ مغرب کی تعلیمی، ثقافتی اور فکری جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں، اس قسم کی حرکات ان کے کردار پر نہ اس سے قبل اثر انداز ہو سکی ہیں اور نہ ہی آئندہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کی علمی و دینی جد و جہد کا راستہ اس طرح روکا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter