نفاذ اسلام کے دستوری اداروں کو درپیش خطرہ !

   
تاریخ اشاعت: 
۳ اکتوبر ۲۰۱۹ء

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۶ ستمبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے:

’’اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت کی طرف سے اداروں کی تشکیل نو کے حوالہ سے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت اور ہیئت تبدیل کرنے کی سفارش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کو چیف ایگزیکٹو اور بورڈ آف گورنر کے سپرد کرنا ۱۹۷۳ء کے آئین کی خلاف ورزی ہے، اصلاحات کمیٹی کی سفارش کو واپس لیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے وزارت سائنس کی طرف سے بھیجے گئے قمری کیلنڈر کا معاملہ وزارت مذہبی امور کے سپرد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت مذہبی امور کے ساتھ مل کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور رویت ہلال کمیٹی کے اشتراک سے وحدت رمضان و عیدین کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کونسل نے کہا کہ پاکستان کے بہتر امیج کو اجاگر کرنے کے لیے مذہبی آزادی کے لیے خصوصی سفیر تعینات کیا جائے۔ حکومت کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ ملک بھر کی سیاسی و قومی قیادت کو اعتماد میں لے کر کشمیر پر قومی موقف اور بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے دو روزہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کونسل نے ڈاکٹر عشرت حسین کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا ہے اور اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، کمیٹی نے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں ۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعات ۲۲۷ تا ۲۳۱ کو نظر انداز کیا ہے، کونسل کی ہیئت و حیثیت میں کوئی بھی تبدیلی آئین سے انحراف ہو گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے اداروں کے ذریعے اسلامی قوانین کے نفاذ کے مقصد کے حصول کے لیے غیر دستوری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے پر امن اور آئینی طریقوں کی موثر میکنزم پیش کیا گیا ہے، اسی میکنزم سے محرومی پاکستان کے آئندہ معاملات کے لیے تشویشناک صورتحال کا باعث بنے گی۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی پریس کانفرنس کے مندرجات پر ایک بار پھر نظر ڈال لیں کہ ایک طرف تو بعض سرکاری ڈھنڈورچی مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ ملک میں تحفظ ختم نبوت اور اسلامائزیشن کے قوانین کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور بعض لوگ بلاوجہ انتشار پیدا کرنے کے لیے دستور کی اسلامی دفعات اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین کو خطرہ کا شور مچا رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا کونسل کے دو روزہ باقاعدہ اجلاس کے بعد یہ کہنا ہے کہ دستور پاکستان کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی ہیئت و حیثیت کو تبدیل کرنے کی سفارشات ایک سرکاری کمیٹی نے طے کر لی ہیں اور ان سفارشات کے حوالہ سے دستور پاکستان کی واضح دفعات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈا میں یہ بات باقاعدہ طور پر شامل بتائی جا رہی ہے کہ پاکستان کی حکومت سے قادیانیوں کے بارے میں ملک میں رائج قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے کہا جائے اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق جنرل اسمبلی کی ایک کمیٹی اس تجویز کا جائزہ لے رہی ہے۔ جبکہ ہم نے پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نور الحق قادری سے باقاعدہ درخواست کر رکھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں مبینہ طور پر شامل قادیانی مسئلہ پر حکومت پاکستان کے موقف کی وضاحت اور وکالت کے لیے سرکردہ علماء کرام اور ممتاز قانون دانوں کا باقاعدہ وفد وہاں بھیجا جائے جیسا کہ جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کے ایک کیس میں حکومت پاکستان کی طرف سے سرکاری وفد بھیجا گیا تھا، مگر وفاقی وزارت مذہبی امور نے اس درخواست کا نہ کوئی جواب دیا ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں وزارت کے ماحول میں کوئی سرگرمی دکھائی دے رہی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ عالمی استعماری ممالک اسلام کے نام پر اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور تہذیبی امتیاز کو ہی قبول کرنے سے انکاری ہیں اور پاکستان کی اسلامی حیثیت کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات اور نفاذِ اسلام کے لیے قائم دستوری اداروں کو غیر موثر بنانے کے لیے بین الاقوامی اور قومی سطح پر سازشوں کا ایک وسیع نیٹ ورک مسلسل مصروف کار ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت چونکہ ملک میں رائج قوانین کی شرعی حیثیت کے تعین اور ان کی اصلاح کا ایک ایسا قابل قبول اور قابل عمل نظم اور طریقِ کار مہیا کرتی ہیں جو دستوری اور جمہوری تقاضوں کے ساتھ ساتھ اسلامیان پاکستان کے جذبات و احساسات کی بھی ترجمانی کرتا ہے، اس لیے یہ دونوں ادارے عالمی اور ملکی سیکولر حلقوں کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں، مگر چونکہ یہ ادارے جمہوری طریقہ سے سیاسی اور دستوری عمل کے ذریعے وجود میں آئے ہیں اس لیے سیکولر لابیاں اس حوالہ سے رائے عامہ کا براہ راست سامنا کرنے کا حوصلہ اور اخلاقی جرأت نہ پاتے ہوئے درپردہ سازشوں کے ذریعے انہیں غیر موثر بنانے کے لیے عجیب و غریب حرکات کرتی جا رہی ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے یہ اچھا کیا ہے کہ کونسل کے اجلاس کے بعد اس کے فیصلوں اور سفارشات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے پریس کانفرنس کے ذریعے مذکورہ بالا حقائق کا اظہار کر دیا ہے۔ ہم کونسل کی ان قراردادوں کی حمایت کرتے ہوئے ایک طرف حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور دستور پاکستان کے تقاضوں کے خلاف کسی اقدام سے قطعی گریز کرے، اور اس کے ساتھ ملک بھر کی دینی و سیاسی قوتوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال پر خاموش تماشائی بنے رہنے کی بجائے اس کا نوٹس لیں اور باہمی مشاورت و ہم آہنگی کے ساتھ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے تحفظ بلکہ عملی نفاذ کے لیے موثر کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter