اسلامی نظام، انسانی حقوق اور قادیانیت

   
تاریخ: 
۲۴ جولائی ۱۹۹۳ء

(۲۴ جولائی ۱۹۹۳ء کو مرکزی جامع مسجد گلاسکو اور ۱۶ اگست ۱۹۹۳ء کو مرکزی جامع مسجد برمنگھم (برطانیہ) میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیراہتمام منعقدہ اجتماعات سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوۃ۔ حضرت الامیر! قابل احترام علماء کرام، بزرگو، دوستو اور ساتھیو! ایک دور تھا جب مرزا غلام احمد قادیانی کی امت کا ہیڈ کوارٹر قادیان میں تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب قادیانیت کے خلاف کوئی بات کہنا برطانوی حکومت کے غیظ و غضب کو دعوت دینا تھا۔ تب مجلس احرار اسلام کے شعبہ تبلیغ نے قادیان میں کانفرنس کا اہتمام کیا جہاں قادیانی امت اپنا سالانہ اجتماع منعقد کیا کرتی تھی اور اسے مبینہ طور پر معاذ اللہ حج کی طرح مقدس اجتماع کی حیثیت دی جاتی تھی۔ اس دور میں قادیان میں مسلمانوں کا اجتماع منعقد کرنے میں احرار کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ بہرحال اس دور میں یہ روایت قائم ہو گئی کہ قادیانی گروہ کے سالانہ اجتماع کے ساتھ مسلمان بھی اپنا اجتماع قادیان میں منعقد کرنے لگے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کا سالانہ اجتماع ربوہ میں منتقل ہوا تو مجلس تحفظ ختم نبوت نے ربوہ سے چند میل کے فاصلہ پر چنیوٹ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کا سلسلہ شروع کر دیا، پھر جب ۱۹۸۴ء میں قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ربوہ کو چھوڑ کر اپنا ہیڈکوارٹر لندن میں منتقل کر لیا اور سالانہ اجتماع بھی لندن میں منعقد ہونے لگا تو ۱۹۸۵ء سے سالانہ ختم نبوت کانفرنس بھی برطانیہ میں منتقل ہو گئی۔ پہلے چند سال لندن کے ویمبلے کانفرنس سنٹر میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوتا رہا، پھر برطانیہ کے مسلمانوں کے اصرار پر مختلف شہروں میں اس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔

حضرات محترم! مجھ سے پہلے فاضل مقررین نے عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور اس کے تقاضوں پر مفید اور معلوماتی گفتگو کی ہے، لیکن میں اس روایتی انداز سے کچھ ہٹ کر اس سلسلہ میں آپ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں اور ان سوالات و اشکالات کے بارے میں کچھ عرض کرنے کا خواہش مند ہوں جو مغربی میڈیا اور قادیانیت کی سرپرست لابیاں قادیانیت کے حوالہ سے اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل ابھار رہی ہیں، آپ حضرات چونکہ ویسٹرن میڈیا کی براہ راست زد میں ہیں، اس لیے آپ دوستوں کے سامنے ان امور کا تجزیہ انتہائی ضروری ہے۔ لہٰذا میری گزارشات چار امور کے بارے میں ہوں گی:

  1. سب سے پہلے اس سوال کا جائزہ لوں گا کہ جب مسلمان اسے کہتے ہیں جو قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں، اور قادیانی ان دونوں پر ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو آپ لوگوں کے پاس انہیں غیر مسلم کہنے کا آخر کیا جواز ہے؟
  2. دوسرے نمبر پر میں یہ واضح کروں گا کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اصل جھگڑا کیا ہے؟
  3. تیسرے نمبر پر اس سوال پر اظہار خیال کروں گا کہ جب آپ لوگ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے اور ایک آرڈیننس کے ذریعے ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا چکے تو اب ان کے پیچھے لٹھ لیے کیوں پھر رہے ہیں، اور انہیں ان انسانی اور شہری حقوق سے کیوں محروم رکھے ہوئے ہیں جو ملک کے شہری کی حیثیت سے انہیں حاصل ہونے چاہئیں؟
  4. اور آخر میں تحریک ختم نبوت کی تازہ ترین صورتحال سے آپ حضرات کو آگاہ کرنا چاہوں گا کہ قادیانیت کے خلاف جس تحریک کا آغاز حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ، حضرت سید انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے کیا تھا، وہ آج کس مرحلہ میں ہے اور حضرت مولانا خان محمد صاحب کی زیر قیادت کون سے مورچوں پر صف آرا ہے۔

محترم بزرگو اور دوستو! قادیانیوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے اور آج کی نئی مسلمان نسل کے لیے یہ سوال بظاہر خاصا پیچیدہ ہے کہ قادیانی گروہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا اظہار کرتا ہے اور قرآن کریم کو بھی ماننے کا دعویدار ہے تو پھر وہ غیر مسلم کیوں ہے؟ جواب میں یہ عرض کروں گا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف قرآن کریم اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینا کافی نہیں ہے۔ اور دلیل میں دو واقعات پیش کرنا چاہوں گا جو خود جناب نبی اکرمؐ کے دور میں پیش آئے اور جن میں صرف رسول اللہ کی رسالت کا اقرار کافی نہیں سمجھا گیا۔

ایک واقعہ حافظ ابن البرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کے ایک نوجوان صحابی حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو مسیلمہ کذاب کے کچھ ساتھی پکڑ کر لے گئے۔ مسیلمہ یمامہ کے علاقہ میں بنو حنیفہ کا سردار تھا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ اس کا نام مسیلمہ تھا، کذاب کا خطاب اسے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ حبیب بن زیدؓ کو مسیلمہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مسیلمہ نے ان سے سوال کیا کہ تم حضرت محمدؐ کو اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے ہو؟ جواب دیا: ہاں مانتا ہوں۔ دوسرا سوال کیا کہ کیا تم مجھے اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے ہو؟ جواب میں اس نوجوان صحابی نے جو جملہ کہا، وہ ایمان و استقامت اور عشق و محبت کا کمال اظہار ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’ان فی اذنی صمماً عن سماع ما تقول‘‘۔ اس جملہ میں جو زور اور وزن ہے، ترجمہ میں شاید اس کا دسواں حصہ بھی ادا نہ کر سکوں مگر اس محاورہ کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میرے کان تمہاری یہ بات سننے سے انکار کرتے ہیں‘‘۔ روایات میں ہے کہ مسیلمہ نے اس عاشق رسول نوجوان صحابی کا ایک بازو کاٹنے کا حکم دیا جو کاٹ دیا گیا۔ پھر مسیلمہ نے اپنا سوال دہرایا، مگر جواب وہی ملا۔ پھر دوسرا بازو کاٹا گیا، مگر سوال دہرانے پر جواب حسب سابق تھا۔ حتیٰ کہ حضرت حبیب بن زیدؓ کے جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انہیں شہید کر دیا گیا، مگر ختم نبوت کے اس سب سے پہلے شہید نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بعد کسی اور کے لیے رسالت و نبوت کا جملہ سننے کے لیے اپنے کانوں کو آمادہ نہیں کیا۔

دوسرا واقعہ امام حاکمؒ نے ’’المستدرک‘‘ میں بیان کیا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں مسیلمہ کذاب کی طرف سے دو قاصد آئے۔ انہوں نے مسیلمہ کا خط پیش کیا جس کا عنوان تھا: ’’محمد رسول اللہ کے نام مسیلمہ رسول اللہ (معاذ اللہ) کی طرف سے‘‘، اور خط میں یہ کہا گیا تھا کہ ’’آپ اپنے بعد مجھے اپنا جانشین نامزد کر دیں یا شہروں کی نبوت اپنے پاس رکھیں اور دیہات کی نبوت میرے حوالہ کر دیں، پھر میرا اور آپ کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خط کا جواب تو یہ دیا کہ میں مسیلمہ کو ایک تنکا دینے کا روادار نہیں ہوں۔ زمین خدا کی ہے، وہ جسے چاہے اس کا وارث بنا دے۔ البتہ مسیلمہ کے قاصدوں سے پوچھا کہ کیا تم مجھے اللہ تعالٰی کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ پھر پوچھا کہ مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو؟ انہوں نے جواب ہاں میں دیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر قاصدوں کا قتل سفارتی آداب کے منافی نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ یہاں ضمناً ایک بات اور بھی عرض کرتا جاؤں کہ آنحضرتؐ نے تو سفارتی آداب کا لحاظ رکھا اور صاف طور پر فرما دیا کہ سفارتی آداب کی وجہ سے تمہاری جان بخشی ہو گئی ہے، ورنہ میرے پاس تمہارے لیے قتل کے سوا کوئی سزا نہ تھی، جبکہ مسیلمہ کذاب نے سفارتی آداب کو پامال کر دیا اور جب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جنگ سے پہلے قاصد مسیلمہ کے پاس بھیجا تو مسیلمہ نے اسے شہید کرا دیا۔

میں نے دو واقعات آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ دونوں دور رسالت کے ہیں اور دونوں میں مسیلمہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار کے بعد ثانوی حیثیت سے اپنی رسالت کی بات کر رہا ہے، لیکن اس کی بات قبول نہیں کی گئی، حتیٰ کہ ایک نوجوان صحابیؓ نے اس تصور کو رد کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف حضرت محمدؐ کی رسالت کا اقرار کافی نہیں بلکہ آپ کو آخری نبی ماننا اور آپ کے بعد کسی بھی شخص کے لیے رسالت و نبوت کے تصور کو رد کرنا بھی ضروری ہے۔

اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اصل جھگڑا کیا ہے؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے نئی نبوت اور نئی وحی کے ساتھ اپنے لیے ایک نئے مذہب کا انتخاب کیا ہے اور مسلمانوں سے اپنا مذہب الگ کر لیا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ہمارا نام اور ہماری اصطلاحات اور شعائر استعمال کر کے دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ جھگڑا یہ ہے کہ قادیانی مذہب، اسلام سے الگ ایک مذہب ہے لیکن نام ہمارا استعمال کرتا ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

حضرات محترم! ایک مسلمہ اصول کے حوالے سے مسئلہ کا جائزہ لیجیے۔ مذاہب کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ نبی کے بدلنے سے مذہب بدل جاتا ہے۔ جب کوئی قوم نئے نبی اور اس کے ساتھ نئی شریعت پر ایمان لائے گی، اس کا مذہب پہلے سے چلے آنے والے مذہب سے الگ ہو جائے گا۔ آپ کے ہاں برطانیہ میں یہودی بھی رہتے ہیں، عیسائی بھی رہتے ہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ کو مانتے ہیں اور تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔ عیسائی بھی حضرت موسیٰ کو مانتے ہیں اور تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ اور تورات پر دونوں کا ایمان ہے لیکن چونکہ عیسائی حضرت عیسیٰ اور انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں یہودی تسلیم نہیں کرتے، اس لیے عیسائیوں کا مذہب یہودیوں سے الگ ہو گیا، اور دونوں قومیں الگ الگ مذاہب کے پیروکار کی حیثیت سے دنیا میں آباد ہیں۔ اب اگر کوئی عیسائی حضرت عیسیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے یہودی کہلائے گا، یا اپنا تعارف یہودیت کے حوالے سے کرائے گا، یا یہودیوں کے مخصوص مذہبی شعائر اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے استعمال کرے گا، تو جھگڑا پیدا ہو گا اور دنیا کا کوئی یہودی کسی عیسائی کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ خود کو یہودی کہلائے اور عیسائی مذہب کے پرچار کے لیے یہودیوں کے مذہبی شعائر و علامات کا استعمال کرے۔

اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا، اپنے لیے رسول اللہ کا لقب اختیار کیا، اسلام کے احکام کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کیا، نئی وحی اور نئے احکام کی بات کی، تو اس کے ماننے والے، مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار بن گئے اور اس گروہ کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے الگ ہو گیا۔ اور یہ بات تو قادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے ایک ارب مسلمانوں کے مذہب سے مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کا مذہب الگ ہے۔ اس لیے ایک سادہ سی بات ہے کہ جب دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں تو دونوں کا نام بھی الگ الگ ہونا چاہیے اور قادیانیوں کو اپنے لیے اسلام اور مسلمانوں سے الگ کوئی اور نام اختیار کرنا چاہیے۔

حضرات محترم! اس حقیقت کو قادیانی گروہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کا مذہب الگ الگ ہے اور تاریخ کے ریکارڈ میں اس کی متعدد دستاویزی شہادتیں موجود ہیں جن میں سے بعض کا میں اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

جب پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی تو پنجاب کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کمیشن بیٹھا تھا۔ پنجاب کو اس بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گے، اور جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہ بھارت کا حصہ ہوں گے۔ گورداسپور کا علاقہ جہاں قادیان واقع ہے، اس علاقے کی صورتحال یہ تھی کہ اگر قادیانی آبادی خود کو مسلمانوں میں شامل کراتی ہے تو یہ خطہ زمین پاکستان کے حصہ میں آتا ہے، اور اگر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ شمار ہوتا ہے تو گورداسپور کا یہ علاقہ بھارت کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس وقت قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کا فرزند اور مرزا طاہر احمد کا باپ تھا، اپنا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کر کے یہ فیصلہ تاریخ میں ریکارڈ کرا دیا کہ قادیانی خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ چودھری ظفر اللہ خان نے مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر قادیانیوں کی فائل مسلمانوں سے الگ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کی جس کی بنیاد پر گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پایا اور بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اسی کے نتیجے میں بھارت کو کشمیر کے لیے راستہ ملا اور اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور آج بھی لاکھوں کشمیری عوام بھارتی تسلط اور وحشت و درندگی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا جنازہ تھا۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ جنازہ پڑھا رہے تھے۔ ملک بھر کے سرکردہ حضرات اور غیرملکی سفراء جنازہ میں شریک تھے۔ حکومت پاکستان کا قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان بھی موجود تھا لیکن جنازہ میں شریک نہیں ہوا اور غیر مسلم سفیروں کے ساتھ الگ بیٹھا رہا۔ یہ بات قومی پریس کے ریکارڈ میں ہے کہ چودھری ظفر اللہ خان سے پوچھا گیا کہ آپ وزیرخارجہ ہیں، آپ کا گورنر جنرل فوت ہوا ہے، آپ کے ملک کا بانی اور سرپرست فوت ہوا ہے، آپ جنازہ کے وقت موجود ہیں لیکن جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس پر ظفر اللہ خان نے کہا کہ: ’’مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیا جائے یا مسلمان حکومت کا کافر وزیر خارجہ‘‘۔ اس طرح چودھری ظفر اللہ خان نے بھی تاریخ میں اپنی شہادت ریکارڈ کروائی کہ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے اور قادیانی ان سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔

۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی ترمیم پر بحث کر رہی تھی تو اسمبلی نے یکطرفہ فیصلہ کرنے کے بجائے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو اسمبلی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے گیارہ روز تک اور لاہوری گروپ کے سربراہ مولوی صدر الدین نے دو روز تک اسمبلی کے سامنے اپنے موقف کی وضاحت کی اور ان کا موقف پوری طرح سننے کے بعد اسمبلی نے اپنا فیصلہ صادر کیا۔ اس موقع پر مرزا ناصر احمد سے پوچھا گیا کہ وہ دنیا بھر کے ایک ارب کے لگ بھگ ان مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے؟ مرزا ناصر احمد نے پہلے اس سوال کو گول کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر پارلیمنٹ کے فلور پر انہیں اپنے اس عقیدہ کا دوٹوک اظہار کرنا پڑا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے دنیا بھر کے ایک ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اور اس طرح مرزا طاہر احمد کے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد نے بھی تاریخ کی عدالت میں اپنی یہ شہادت ریکارڈ کرا دی کہ وہ قادیانیت کو مسلمانوں سے الگ مذہب قرار دیتے ہیں۔

حضرات محترم! جب یہ بات طے شدہ ہے کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے اور دونوں ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو ظاہر بات ہے کہ ’’اسلام‘‘ کا نام ان میں سے ایک ہی فریق استعمال کرے گا، دونوں استعمال نہیں کر سکتے۔ اسلام کا نام اور اس کے شعائر و اصطلاحات مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، امیر المومنین، ام المومنین، خلیفہ اور صحابی جو اسلام کے ساتھ مخصوص ہیں اور مسلمانوں کی پہچان بن چکے ہیں، انہیں استعمال کرنے کا حق ایک امت کو ہو گا۔ آپ حضرات خانہ خدا میں بیٹھے ہیں، آپ ہی انصاف سے کہیں کہ کیا دونوں گروہوں کو اسلام کا نام، اسلام کا لیبل اور اس کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کا حق ہے؟ اگر نہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ نہیں، تو پھر انصاف کے ساتھ فیصلہ یہ بھی کیجیے کہ یہ حق دونوں میں سے کس فریق کا ہے؟ اس کا جو چودہ سو سال سے اس نام اور اصطلاحات کو استعمال کر رہا ہے یا اس کا جو ایک سو سال سے اس کا دعویدار ہے؟

اصل بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک عام کاروباری بات ہے، عام سی مثال ہے، اس حوالہ سے بات عرض کرتا ہوں۔ ایک کمپنی ہے جو سو سال سے کام کر رہی ہے۔ اس کا نام ہے، ایک لیبل ہے، ایک ٹریڈ مارک ہے۔ وہ اسی نام، لیبل اور ٹریڈ مارک کے ساتھ مارکیٹ میں متعارف ہے۔ اس کی ساکھ ہے، اسی حوالہ سے اس کا اعتبار قائم ہے۔ اب کچھ لوگ اس سے الگ ہو کر ایک نئی کمپنی بناتے ہیں۔ ایمان کے ساتھ بتائیے کہ کیا اس نئی کمپنی کو پہلی کمپنی کا نام، ٹریڈ مارک اور لیبل استعمال کرنے کا حق حاصل ہے؟ اگر نہیں اور اس کے باوجود نئی کمپنی اپنا مال مارکیٹ میں لانے کے لیے پہلی کمپنی کا نام استعمال کرتی ہے، اس کا ٹریڈ مارک اور لیبل استعمال کرتی ہے، تو انصاف کی زبان اسے کیا کہتی ہے؟ قانون اسے کیا کہتا ہے؟ میں ان مغربی لابسٹوں سے جو ہمارے خلاف زوروشور سے پراپیگنڈا کرتے ہیں، پوچھتا ہوں کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے؟ قانون کا تقاضا کیا ہے؟ دانش کا تقاضا کیا ہے؟ خدا کے لیے ہمارے موقف بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔

نبوت کا دعویٰ بہاء اللہ نے بھی کیا تھا، اس کے ماننے والے بہائی بھی ہم سے الگ مذہب رکھتے ہیں۔ ہم انہیں کافر کہتے ہیں، لیکن ہمارا ان سے قادیانیوں کی طرز کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، کشکمش کی کوئی فضا نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنا نام اور اصطلاحات الگ کر لی ہیں۔ وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہتے۔ ہم انہیں کافر کہتے ہیں لیکن ہمارا ان سے جھگڑا کوئی نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ساتھ تنازعہ یہ ہے کہ مذہب نیا ہے، کمپنی نئی ہے، لیکن نام ہمارا استعمال کرتے ہیں، لیبل اور ٹریڈمارک ہمارا استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ دھوکہ ہے، فراڈ ہے، اور کھلا فریب ہے۔ ہم دنیا بھر کے قانون دانوں کو دہائی دیتے ہیں کہ خدا کے لیے ہمارے خلاف پراپیگنڈا کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لو کہ اصل قصہ کیا ہے اور تنازعہ کس بات پر ہے؟

محترم بزرگو اور دوستو! اب آئیے تیسرے سوال کی طرف کہ جب پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے، ان کی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے آرڈیننس بھی نافذ العمل ہو چکا ہے تو اب ان کے ساتھ جھگڑا کیا ہے اور انہیں انسانی اور شہری حقوق سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلے آپ حضرات کو قادیانیوں کی اس تگ و دو سے آگاہ کرنا چاہوں گا جو انہوں نے اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے اور اسے مغربی ممالک کے سامنے انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلہ کے طور پر پیش کرنے کے لیے کی ہے، تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ قادیانی گروہ کے کام کا انداز کیا ہے اور اس کا طریقہ واردات کیا ہے۔

۱۹۸۴ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قادیانیوں کی سرگرمیوں پر بعض پابندیاں عائد کر دیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ قادیانی غیرمسلم اقلیت قرار دیے جا چکے ہیں، اس لیے وہ اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے، خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور مسلمانوں کے مخصوص مذہبی شعائر اور علامات کو استعمال نہیں کر سکتے۔ آرڈیننس میں ایسا کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد مرزا طاہر احمد لندن میں آ کر بیٹھ گیا اور مغربی لابیوں کو اپروچ کر کے یہ دہائی دی کہ پاکستان میں امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قادیانیوں کے انسانی حقوق چھین لیے گئے ہیں، ان کے ہیومن رائٹس پامال کر دیے گئے ہیں، انہیں عبادت کے حق سے روک دیا گیا ہے، اور ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ویسٹرن میڈیا بھی اس مہم میں شریک ہو گیا۔ اسے تو انتظار رہتا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف کوئی بات کہنے کو ملے وہ تو بہانہ تلاش کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف کسی بات پر شور اٹھا سکیں۔

پھر بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ جنیوا میں انسانی حقوق کے کمیشن کو اپروچ کیا گیا۔ یہ کمیشن اقوام متحدہ کے تحت قائم ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک پر نظر رکھتا ہے اور جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر مغربی حکومتیں اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے اس کمیشن کے پاس درخواست دائر کی گئی کہ پاکستان میں ان کے شہری حقوق پامال کیے جا رہے ہیں لیکن اس درخواست سے پہلے ایک اور بات کا اہتمام ہو چکا تھا کہ جنیوا میں پاکستان کی سفارت اور نمائندگی مسٹر منصور احمد سنبھال چکا تھا جو معروف قادیانی ڈپلومیٹ ہے، پاکستان کا سینئر سفارت کار ہے اور اس وقت جاپان میں پاکستان کا سفیر ہے۔ اب راستہ صاف تھا۔ درخواست قادیانیوں کی طرف سے تھی اور کمیشن کے سامنے پاکستان کی نمائندگی اور حکومت پاکستان کے موقف کی وضاحت کی ذمہ داری ایک قادیانی سفارت کار پر تھی۔ نتیجہ وہی ہونا تھا جو ہوا اور جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن نے اس مضمون کی قرارداد منظور کر لی کہ پاکستان میں واقعتاً قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال کر دیے گئے ہیں اور حکومت پاکستان اس کی ذمہ دار ہے۔

بات اور آگے بڑھی اور قادیانی گروہ اس قرارداد کو لے کر واشنگٹن پہنچا جہاں پریسلر رہتا ہے، جہاں سولارز رہتا ہے۔ آپ جانتے ہیں ان کو؟ اور پاکستان کا کون سا باشعور شہری ہے جو پریسلر اور سولارز کو نہیں جانتا۔ وہاں لابنگ ہوئی، اس وقت امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد کی بحالی کے لیے شرائط طے کر رہی تھی۔ جنیوا کے انسانی حقوق کے کمیشن کی یہ قرارداد اس کے سامنے پیش ہوئی اور امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امداد کی شرائط والی قرارداد میں قادیانیت کا مسئلہ بھی شامل کر لیا۔ یہ ہے مرزا طاہر احمد کی مہم اور یہ ہے اس کا طریق واردات جسے آپ کے علم میں لانا میں ضروری سمجھا۔

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد کے لیے جن شرائط کو اپنی قرارداد میں شامل کیا، ان کا خلاصہ روزنامہ جنگ لاہور نے ۵ مئی ۱۹۸۷ء کو اور روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کو شائع کیا ہے۔ یہ میرے پاس موجود ہے اور آپ حضرات میں سے اکثر نہیں جانتے کہ ان شرائط میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ عام طور پر صرف ایٹمی تنصیبات کے معائنہ کی شرط کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ وہ بنیادی شرط ہے اور ہم اس مسئلہ پر پاکستانی حکومت اور قوم کے موقف کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں بلکہ ہم تو اس سے بھی آگے کی بات کہتے ہیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ایٹم بم پاکستان اور دیگر مسلم ملکوں کا حق ہے اور اس سلسلہ میں معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ خیر، امریکی شرائط میں صرف ایٹمی تنصیبات کا مسئلہ نہیں، اور امور بھی ہیں جن میں سے دو کا بطور خاص آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی امداد کے لیے ضروری ہو گا کہ امریکی صدر ہر سال ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے جس میں یہ درج ہوگا کہ ’’حکومت پاکستان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ازالہ میں نمایاں ترقی کی ہے‘‘۔ یہ کتنا خوبصورت جملہ ہے لیکن ’’کلمۃ حق ارید بھا الباطل‘‘۔ اس کے اندر جو زہر چھپا ہوا ہے، آپ حضرات نہیں جانتے۔ آپ کہیں تو عرض کر دوں کہ اس شوگر کے پردے میں کون سا زہر ہے؟ اس شرط میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مغربی ملکوں کے ہاں انسانی حقوق کا تصور کیا ہے اور یہ کس چیز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ پاکستان میں مغربی میڈیا کے ’’بوسٹر‘‘ کیا کہتے ہیں؟ مغربی میڈیا کے بوسٹر ہر جگہ موجود ہیں، پاکستان میں بھی ہیں۔ امریکی سینٹ کی اس قرارداد کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن قائم ہوا ہے جس کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس دراب پٹیل ہیں جو پارسی ہیں اور سیکرٹری جنرل بیگم عاصمہ جہانگیر ہیں جو ایک قادیانی ایڈووکیٹ مسٹر جہانگیر کی بیوی ہے۔ یہ لوگ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے عنوان سے فورم منعقد کرتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں اور امریکی سفارت کار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ذرا سنیے، اس کمیشن کے سر براہ مسٹر پٹیل کیا کہتے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کے مطابق مسٹر دراب پٹیل نے کہا کہ:

’’کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یکطرفہ ہیں اور جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا راستہ کھلتا ہے۔ اس سلسلہ میں حدود آرڈیننس، قانون شہادت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت پر سزا دینے کا مسئلہ، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے والا قانون، جداگانہ انتخاب کا قانون، سیاسی جماعتوں کا قانون، یہ سارے قوانین ختم کرنا ہوں گے۔ یہ قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔‘‘

روزنامہ نوائے وقت نے ۲۷ اپریل ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں بیگم عاصمہ جہانگیر کے حوالہ سے کمیشن کے جنرل اجلاس میں کیے جانے والے مطالبات بھی شائع کیے ہیں جن کے مطابق:

’’تعزیرات پاکستان اور حدود آرڈیننس کی بعض سزاؤں کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ سنگسار کرنے، پھانسی پر لٹکانے اور موت کی سزا کو فی الفور ختم کیا جائے، نیز کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے اور قید تنہائی کی سزائیں بھی ختم کر دی جائیں۔ جنرل اجلاس میں منظور کردہ ڈیکلریشن میں تمام مذہبی اقلیتوں کی تائید کی گئی ہے اور اس ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت کسی بھی شخص کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہ کرے۔‘‘

حضرات محترم! اب تو آپ اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ انسانی حقوق سے ان کی مراد کیا ہے اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کو روکنے کے عنوان سے مغربی ممالک اور لابیاں ہم سے کیا تقاضا کر رہی ہیں؟ امریکہ ہم سے یہ ضمانت چاہتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اسلامی قوانین نافذ نہیں کریں گے، قرآن کریم کے احکام نافذ نہیں کریں گے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر موت کی سزا کا قانون منظور کیا ہے؟ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ توہین رسالت کو بھی انسانی حقوق میں شامل کیا جا رہا ہے اور یہ حق مانگا جا رہا ہے کہ کوئی بدبخت توہین رسالت کا ارتکاب کرنا چاہے تو اسے اس کا حق حاصل ہو اور قانون کو حرکت میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہ ہے ان لوگوں کا انسانی حقوق کا تصور اور یہ اسی قسم کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے ہمیں روکنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس وقت کانفرنس کی اسٹیج پر پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جناب نذیر غازی ایڈووکیٹ بھی تشریف فرما ہیں، ان سے معذرت کے ساتھ ایک ’’ریڈلائن‘‘ کراس کرنے لگا ہوں کہ ہم پر انسانی حقوق کا کیسا تصور تھوپا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال چکوال میں اغوا اور قتل کی ایک واردات ہوئی، خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا، عدالت نے قاتل کو موت کی سزا سنائی اور یہ فیصلہ دیا کہ پھانسی برسرعام لوگوں کے سامنے دی جائے۔ اسلام کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ سزا برسر عام دی جائے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ: ‘’ولیشہد عذابھما طائفۃ من المومنین‘‘ (سورۃ النور) مجرموں کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے۔ یہ اسلامی قانون کا تقاضا ہے، لیکن ہماری عدالت عظمی نے اس سزا پر عملدرآمد روک دیا اور سپریم کورٹ میں گزشتہ چار پانچ ماہ سے اس نکتہ پر بحث جاری ہے کہ مجرم کو لوگوں کے سامنے سزا دینا اس کی عزت نفس کے منافی ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے قاتل کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے۔

محترم بزرگو اور دوستو! یہ مثالیں میں نے وضاحت کے ساتھ اس لیے آپ کے سامنے رکھی ہیں تاکہ آپ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ انسانی حقوق سے مغربی ممالک کی مراد کیا ہے اور یہ طاقتیں جب ہم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی ضمانت طلب کرتی ہیں تو اس سے ان کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

اب ایک اور شرط بھی سماعت فرما لیجیے جو امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امریکی امداد کی شرائط کے ضمن میں اپنی قرار داد میں ذکر کی ہے۔ اس کے مطابق امریکی صدر ہر سال اپنے سرٹیفکیٹ میں یہ بھی لکھیں گے کہ:

’’حکومت پاکستان اقلیتی گروہوں مثلاً احمدیوں کو مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز آرہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر رہی ہے جو مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرتی ہیں‘‘۔

آپ حضرات کو کچھ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے اور معاملات کہاں تک آگے پہنچ چکے ہیں۔ آپ میں سے بیشتر حضرات یہ کہہ دیں گے کہ ہمیں تو ان باتوں کا علم نہیں ہے، لیکن کیا آپ کا نہ جاننا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے؟ کیا یہ بھی ہمارا قصور ہے کہ آپ حضرات مغرب میں رہتے ہوئے بھی ان امور سے واقف نہیں ہیں؟ خدا کے لیے آنکھیں کھولیے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کیجیے۔

حضرات محترم! اب میں اس صدارتی آرڈیننس کی طرف آتا ہوں جسے مرزا طاہر احمد اور اس کی سرپرست لابیوں کی طرف سے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا عنوان دے کر بدنام کیا جا رہا ہے یعنی ۱۹۸۴ء کا وہ صدارتی آرڈیننس جس کے تحت صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا ہے اور جس کے بارے میں مغربی لابیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کے ذریعے قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال ہوگئے ہیں۔ لیکن پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ آرڈیننس صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا تیار کردہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے فوجی ہیڈکوارٹر نے ترتیب دیا ہے، بلکہ یہ آرڈیننس تحریک ختم نبوت کے ان مطالبات پر مشتمل ہے جن کے لیے ہم نے ملک بھر میں تحریک چلائی، اسٹریٹ پاور کو منظم کیا، لوگوں کو سڑکوں پر لائے اور راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کیا۔ اس پر مجبور ہو کر ہمارے مطالبات کو آرڈیننس کی شکل دی گئی، اس لیے یہ مارشل لاء ریگولیشن یا کسی ڈکٹیٹر کا نافذ کردہ قانون نہیں بلکہ عوامی مطالبات پر مشتمل ایک قانونی ضابطہ ہے۔ اس آرڈیننس کا مقصد اور منشا صرف یہ ہے کہ چونکہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے، اس لیے قادیانی اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مخصوص مذہبی شعائر استعمال نہ کریں۔ اس کے علاوہ اس آرڈیننس میں کچھ نہیں ہے۔ اس آرڈیننس کی رو سے قادیانیوں کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ:

  1. اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں اور خود کو مسلمان کے طور پر ظاہر نہ کریں۔
  2. اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ نہ کہیں اور اپنی عبادت کے لیے لوگوں کو بلانے کا طریقہ اذان سے الگ اختیار کریں اور اسے ’’اذان‘‘ نہ کہیں۔
  3. جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اور خاتون کو ’’ام المومنین‘‘ نہ کہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خلفاء کے علاوہ کسی اور کے لیے ’’صحابی‘‘ یا ’’خلیفہ‘‘ کی اصطلاح استعمال نہ کریں۔

آرڈیننس میں ان امور کو جرم قرار دیتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر تین سال تک قید یا جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ میں مغربی لابسٹوں سے پوچھتا ہوں کہ اس آرڈیننس میں قادیانیوں کو عبادت گاہ بنانے یا عبادت کرنے سے کہاں روکا گیا ہے؟ انہیں صرف اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے سے روکا گیا ہے، اذان دینے سے روکا گیا ہے اور اسلام کے دیگر شعائر کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اور جب قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے الگ ایک جداگانہ مذہب ہے تو یہ پابندیاں اس کا منطقی تقاضا ہیں، اور ان اصولی اور منطقی پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا سراسر ناانصافی ہے۔ ہماری یہ آواز ویسٹرن میڈیا تک پہنچنی چاہیے اور مغربی لابیوں کے علم میں آنی چاہیے۔

برطانیہ میں رہنے والے مسلمان بھائیو! ہم تو مجبور ہیں، سال میں ایک آدھ بار آتے ہیں اور آواز لگا کر چلے جاتے ہیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر مرزا طاہر احمد یہاں کے ذرائع استعمال کر سکتا ہے تو مغرب کے ذرائع ابلاغ آپ کی دسترس سے باہر نہیں۔ اگر مرزا طاہر احمد مغربی لابیوں کو اپروچ کر سکتا ہے تو آپ حضرات بھی کر سکتے ہیں۔ خدا کے لیے آپ بھی اپنے فرائض پہچانیں اور اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے سائنٹفک بنیادوں پر کام کا طریقہ اختیار کریں۔

حضرات محترم! اگر بات انسانی حقوق کی ہے تو میں یہ بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہم نہیں کر رہے، بلکہ قادیانی کر رہے ہیں اور عملی صورتحال یہ ہے کہ خود ہمارے انسانی حقوق قادیانیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں اس لیے کہ اسلام کا نام، مسجد، اذان، کلمہ طیبہ اور دیگر اسلامی شعائر دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی پہچان ہیں اور ان کی شناخت ہیں۔ اپنی شناخت کا تحفظ مسلمانوں کا حق ہے اور شناخت کی حفاظت انسانی حقوق میں شامل ہے جسے قادیانی مسلسل پامال کر رہے ہیں، لیکن جب قادیانیوں کے خلاف اس جرم میں قانونی کارروائی ہوتی ہے تو مغربی لابسٹ چیخ اٹھتے ہیں کہ قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ مغرب میں بیٹھ کر اسلام اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے لابسٹوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ کچھ انصاف کریں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کریں کہ وہ اپنی شناخت اور پہچان کی حفاظت کر سکیں اور اسلام کا نام اور اس کا لیبل اور ٹریڈ مارک غلط استعمال کرنے والوں کو ایسا کرنے سے باز رکھ سکیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے مذہبی نام کا تحفظ کریں، اپنی شناخت کا تحفظ کریں، اپنی علامات اور نشانیوں کا تحفظ کریں اور اپنی پہچان کو بچائیں۔ قادیانی گروہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود مغربی طاقتوں اور لابیوں کی شہ پر ہماری پہچان خراب کر رہا ہے اور ہماری شناخت کو مجروح کر رہا ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں قادیانیوں کو اسی جرم سے روکا گیا ہے، اس لیے انصاف کی بات یہ ہے کہ امتناع قادیانیت کا صدارتی آرڈیننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور ہیومن رائٹس کے تقاضوں کی تکمیل کا آرڈیننس ہے۔

محترم بزرگو اور دوستو! میں نے آپ حضرات کا خاصا وقت لے لیا ہے، لیکن ابھی ایک اہم مسئلہ باقی ہے اور وہ ہے تحریک ختم نبوت کی موجودہ صورتحال اور وہ مسائل جن کا اس وقت ہمیں سامنا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ اصولی بات آپ کے علم میں لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے اپنی تحریکی مطالبات کی بنیاد محض جذبات پر نہیں رکھی۔ آپ ہماری تقاریر میں بہت سی جذباتی باتیں سنتے ہیں۔ ہمارے مقررین واجب القتل ہونے کی بات بھی کرتے ہیں اور مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت صدیق اکبرؓ کے مسلح جہاد و قتال کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ ہمارے جذبات یہی ہیں اور ہر مسلمان کے جذبات یہی ہونے چاہئیں لیکن ہم نے اپنے مطالبات کی بنیاد ان جذبات سے بہت پیچھے ہٹ کر ایک سادہ اور منطقی سے تقاضے پر رکھی ہے اور قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کے بعد اس کے منطقی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ ہمارا نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے یہ مطالبہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے کیا تھا اور انہوں نے اپنے بیانات اور خطوط میں اسے ناگزیر قرار دیا تھا۔ ہم نے اسے قبول کر لیا اور اسے ہی اپنی تحریک کی بنیاد بنا لیا۔ اس مطالبہ پر ۱۹۷۴ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا تھا اور اسی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد اور تحریک کے نتیجہ میں ۱۹۸۴ء میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا تھا اور اس وقت ہم قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سلسلہ میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے اسی مطالبہ کے منطقی اور بدیہی تقاضوں کو پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

حضرات محترم! ہمارے ہاں اس وقت ایک اور مسئلہ چل رہا ہے اور ہم اس کے لیے حضرت الامیر مولانا خواجہ خان محمد کی قیادت میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ مسئلہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کا ہے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ جب قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر اسلام کا نام اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے روک دیا گیا ہے۔ اور جب انتخابات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نشستیں الگ الگ کر کے جداگانہ بنیادوں پر الیکشن کا طریق کار اختیار کر لیا گیا ہے، اور جب الیکشن میں ووٹ کا استعمال شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہوتا ہے، تو ان تمام فیصلوں کا منطقی اور ناگزیر تقاضا ہے کہ قومی شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ بڑھا کر ہر شہری کی مذہبی حیثیت کو واضح کر دیا جائے تاکہ ووٹ کے استعمال، بیرون ملک سفر یا کسی بھی معاملہ میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔

جونیجو حکومت کے دور میں یہ سوال اٹھایا گیا تو کہا گیا کہ اصولاً یہ مطالبہ درست ہے لیکن عملاً سارے ملک میں جاری شدہ شناختی کارڈوں کو منسوخ کرنا اور سب کارڈ نئے سرے سے جاری کرنا مشکل ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں بھی یہ بات اٹھائی گئی اور مطالبہ سے اتفاق کرتے ہوئے عملی مجبوری ظاہر کی گئی۔ اب میاں نواز شریف صاحب کی حکومت میں یہ اعلان ہوا ہے کہ پورے ملک میں تمام شناختی کارڈوں کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے تو ہم نے ازسرنو مہم شروع کی کہ اب تو کوئی عملی رکاوٹ نہیں رہی۔ اب نئے شناختی کارڈوں میں مذہب کا خانہ بڑھا دیا جائے، تو صدر پاکستان، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے متعدد وفود ملے۔ صدر محترم نے تو دو دفعہ قومی پریس میں وعدہ کیا کہ یہ مطالبہ درست ہے اور پورا کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی وفود سے وعدے کیے۔ لیکن صدر پاکستان نے جس شناختی کارڈ کے ذریعے ملک میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کے اجرا کا افتتاح کیا اس میں مذہب کا خانہ نہیں تھا۔ ہم نے پھر احتجاج کیا، اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کی احتجاجی کانفرنس منعقد کی جس پر ہمیں بتایا گیا کہ شناختی کارڈوں کا اجرا روک دیا گیا ہے اور مذہب کے خانہ کے ساتھ نیا کارڈ تیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن صورتحال ابھی جوں کی توں ہے اور تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے آپ ہماری مشکلات کا اندازہ کریں کہ ایک سیدھی سی منطقی اور ناگزیر ضرورت کے لیے بھی ہمیں کن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے یہاں برطانیہ آنے کے بعد یہ افسوسناک بات معلوم ہوئی ہے کہ جناب وزیراعظم نے تحریک ختم نبوت کے ایک وفد سے چند روز پہلے لاہور میں یہ کہا ہے کہ میں تو یہ کام کرنا چاہتا ہوں لیکن ایک بہت بڑی لابی رکاوٹ ہے۔

میرے محترم بزرگو اور دوستو! کہنے کی باتیں بہت سی ہیں لیکن وقت کا دامن تنگ ہوتا جا رہا ہے اور میرے بعد دوسرے فاضل مقررین نے بھی آنا ہے، اس لیے آخر میں آپ حضرات سے پھر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب کے ممالک اور لابیاں ایک بات طے کر چکی ہیں کہ کسی مسلمان ملک میں اسلامی نظام کو کسی قیمت پر نافذ نہ ہونے دیا جائے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں، الجزائر اور تیونس میں بھی یہی مسئلہ ہے اور مصر اور مراکش کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ دنیا کے ہر مسلمان ملک میں مغربی میڈیا کے بوسٹر موجود ہیں جو انسانی حقوق اور بنیاد پرستی کے عنوان سے اسلامی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں اور قادیانیت جیسے گمراہ گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا ادراک حاصل کرنا، مغربی لابیوں کے طریق واردات کو سمجھنا اور اس کا توڑ پیدا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، لیکن اس جسارت پر مجھے معاف فرمائیں کہ اس سلسلہ میں پہلی ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں اور یہاں کے ذرائع تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری ذمہ داری ہے۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے دفاع میں اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور اسے پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں۔ آمین۔

2016ء سے
Flag Counter