مغرب پر کام کی ضرورت اور میرا ذوق

   
تاریخ اشاعت: 
۲۲ جون ۲۰۲۰ء

جب میں مغربی نظام و فلسفہ پر بات کرتا ہوں تو کچھ دوستوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہ نہ انگلش جانتا ہے، نہ اس نے باقاعدہ فلسفہ پڑھا ہے، اور نہ ہی مغربی فلسفیوں کا مطالعہ کیا ہے، تو پھر یہ مغربی نظام و فلسفہ پر بات کس بنیاد پر کرتا ہے؟ ان دوستوں کا یہ اشکال درست ہے کہ مذکورہ بالا تینوں موضوعات میرے علم و مطالعہ کے دائرے میں نہیں ہیں مگر اس کے باوجود مغربی فلسفہ و نظام کا بحمد اللہ تعالٰی سنجیدہ ناقد ہوں، کیونکہ اس حوالہ سے امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا پیروکار ہوں جو فرنگی حکمرانوں کے خلاف سب سے زیادہ بات کرتے تھے اور ان کی آواز اس محاذ کی عوامی سطح پر پورے برصغیر میں مؤثر ترین آواز تھی۔ ان سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ شاہ جی! آپ نے انگریزی پڑھی ہے؟ فرمایا کہ میں نے انگریزی تو نہیں پڑھی البتہ انگریزوں کو خوب پڑھا ہے۔ میری صورتحال بھی کچھ اسی طرح کی ہے کہ میں اپنے ذوق و طبع کے اعتبار سے سماجیات اور تاریخ کا طالب علم ہوں اور کم و بیش ہر بات کو اسی دائرے میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں، جسے شاید آج کی اصطلاح میں ’’ڈائریکٹ میتھڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔

میں نے مغربی فلسفیوں کو نہیں پڑھا مگر یہ جانتا ہوں کہ مغرب پر صدیوں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی مشترکہ حکمرانی رہی ہے جسے تاریک دور کہا جاتا ہے، یہ تینوں طبقے ایک دوسرے کے جبر و ظلم کو جواز اور سند فراہم کرتے تھے اور عام آدمی اس تکون کے سامنے اسی طرح بے بس ہوتا تھا جیسے کسی باڑے میں بندھے ہوئے جانور ہوتے ہیں۔ اس ظلم و اسبتداد کے خلاف عوامی بیداری پیدا ہوئی جس پر فلسفیوں اور دانشوروں نے اپنے دائروں میں بہت کچھ اور بہت خوب لکھا جبکہ کمیونٹی لیڈروں اور عوامی کارکنوں نے اس سے مختلف انداز میں عوامی بیداری کا ماحول پیدا کر کے وہ احتجاجی لہر بپا کی جو ’’انقلاب فرانس‘‘ تک جا پہنچی، تب یورپی سوسائٹی نے تاریک صدیوں کا جال توڑ کر روشن خیالی اور بزعم خود عدل و مساوات کے دور کا آغاز کیا تھا، اور اسی کے نتیجے میں سوسائٹی پر بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے تسلط کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

فلسفہ کا کتابی طالب علم ہونے کی بجائے تاریخ اور سماج کے براہ راست مطالعہ کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ ایک تو ذوق اور طبع کے لحاظ سے اور دوسرا اس سے سماجی حقائق کو قریب سے دیکھنے کا مزاج بن گیا۔ چنانچہ بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں کہ میں نے تاریخی و سماجی حقائق کو کتابوں میں پڑھنے کی بجائے برسر زمین دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کو ترجیح دی جس کی چند مثالیں عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

  • مسیحیت کی پرانی روایتوں میں پادری صاحب کے سامنے اعتراف جرم کر کے ان سے گناہ کی معافی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ امریکہ کے شہر بالٹیمور کے ایک قدیمی چرچ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ان سرگرمیوں اہم مرکز رہا ہے، میں اپنے میزبانوں سے اصرار کر کے اس چرچ میں گیا اور وہ کیبن دیکھے جن میں صرف دو آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور گناہ گار شخص پادری صاحب کے سامنے بیٹھ کر گناہ کے اعتراف اور معافی کے سرٹیفکیٹ کے مرحلہ سے گزرتا ہے۔
  • امریکہ کی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم سے مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کے لیے برابر کے شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اس تحریک کے ایک جلوس کو پارک میں گھیر کر ان پر خونخوار کتے چھوڑ دیے گئے تھے جنہوں نے بہت سے سیاہ فاموں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا تھا، میں نے اپنے میزبان افتخار رانا سے تقاضہ کر کے وہ پارک دیکھا اور اس میں وہ مجسمے بھی دیکھے جو ان کتوں اور ان کا شکار ہونے والے انسانوں کی یادگار کے طور پر رکھے گئے تھے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سیاہ فاموں کے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں ان پر خونخوار کتے چھوڑنے کی بات کی تو اس پارک کا سارا منظر ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے گھوم گیا اور میں نے دوستوں سے کہا کہ یہ ان کی پرانی روایت ہے۔
  • اٹلانٹا میں مارٹن لوتھر کنگ کی یاد میں بنایا گیا میوزیم بھی دیکھا اور وہاں رکھی ہوئی یادگار چیزوں کی مدد سے سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد کو سمجھنے کی کوشش کی، جبکہ اس میوزیم کے گیٹ کے سامنے جنوبی ایشیا کی تحریک آزادی کے راہنما گاندھی کا مجسمہ دیکھ کر مجھے تعجب سا ہوا جو اس کے ساتھ لکھی ہوئی تحریر جان کر دور ہو گیا کہ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا ہے کہ میں نے عدم تشدد پر مبنی پر امن تحریک آزادی کا سبق گاندھی جی سے سیکھا ہے۔ اور پھر میری یہ فرمائش سن کر میرے میزبان افتخار رانا متعجب ہوئے کہ اٹلانٹا کا وہ پارک دیکھنا چاہتا ہوں جہاں امریکہ کی شمال اور جنوب کی طویل خانہ جنگی کے بعد جنوب کے کمانڈر جنرل لی نے شمال کے کمانڈر جارج واشنگٹن کے سامنے ہتھیار ڈال کر اس خانہ جنگی کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔ میزبان نے کہا کہ انہیں ’’لی اسٹریٹ‘‘ کا تو علم ہے مگر اس پارک کے بارے میں نہیں جانتے، چنانچہ ہم تلاش کر کے اس پارک میں گئے اور اس تاریخی جگہ کو دیکھا۔
  • جنوبی افریقہ کے کسی سفر میں ایک جگہ سے گزرتے ہوئے دوستوں نے بتایا کہ ہم نیلسن منڈیلا کے گھر کے قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس وقت زندہ تھے اور آخری ایام میں بستر علالت پر تھے، میرا دل بہت مچلا کہ انہیں، یا کم از کم ان کے گھر کو دیکھنے کی کوئی صورت نکل آئے مگر سفر کے شیڈول اور پروگرام کی ترتیب میں گنجائش نہ پا کر دل مسوس کر رہ گیا۔
  • امریکہ کی سابق وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے والد نے سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق دلوانے کے لیے طویل عدالتی جنگ لڑی تھی اور بالآخر سپریم کورٹ نے ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے سیاہ فاموں کے لیے ووٹ کے حق کا فیصلہ دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سیاہ فاموں میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کا اعزاز امریکی تاریخ میں انہوں نے حاصل کیا تھا، یہ فیملی برمنگھم (الاباما) میں رہتی ہے، وہاں ایک بار گیا تو میزبانوں سے کہا درخواست کی کہ یار کونڈولیزا رائس کا گھر تو دکھا دو، وہ اس وقت وزیرخارجہ تھیں اور پوری دنیا ان کی جولانگاہ تھی، اس لیے صرف ان کا گھر ہی باہر سے دیکھ سکا، اگر ان سے ملاقات کی کوئی صورت بن سکتی تو اس سے بھی گریز نہ کرتا۔

یہ صرف چند مشاہدات کا ذکر کر سکا ہوں ورنہ ذہن پر زور دوں تو بہت سے دیگر مشاہدات و واقعات کا تذکرہ بھی ہو سکتا ہے مگر کالم شاید اس کا متحمل نہ ہو۔ البتہ یہ اطمینان ہے کہ اس قسم کی کم و بیش سب یادداشتیں اپنے سفر ناموں میں کہیں نہ کہیں ضرور ذکر کر چکا ہوں۔ یہ میرے ذوق کی بات ہے جس کا ذکر کر کے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے صاف طور پر اعتراف ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا، فلسفہ اور فلاسفہ میری تعلیم و مطالعہ کے دائرے میں نہیں رہے، مگر میں بحمد اللہ تعالٰی تاریخ اور سماجیات کا طالب علم ضرور ہوں اور ’’ڈائریکٹ میتھڈ‘‘ کے طور پر انسانی سماج کے تغیرات و انقلابات کو ان کے سماجی پس منظر اور نتائج کی عینک سے دیکھتا ہوں، اور مجھے اسی سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے جب میں نوجوان اہل علم کو مغرب پر کام کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور خاص طور پر مغربی تہذیب و نظام کے ساتھ اسلام اور مسلم امہ کی تاریخی کشمکش کو بحث و تحقیق کا موضوع بنانے کی بات کرتا ہوں تو وہ محض رسمی اور بلاوجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور امت مسلمہ کے ارباب علم و دانش کی ذمہ داری بھی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter