قرآن و سنت کی روشنی میں انسانی حقوق کا تصور

   
تاریخ : 
۲۰۰۵ء (غالباً)

لندن میں سالانہ حاضری کے دوران ایک دو بار شمالی لندن کی مرکزی جامع مسجد کے نماز جمعہ کے اجتماع میں شرکت ہو جاتی ہے۔ یہ مسجد فنس بری پارک ٹیوب اسٹیشن کے ساتھ ہے اور اس میں چناری ضلع مظفر آباد (آزاد کشمیر) سے تعلق رکھنے والے ہمارے پرانے دوست مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری خطیب و امام ہیں۔ قاری صاحب کافی عرصہ کراچی اور کالا گوجراں جہلم میں رہے ہیں، جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم حضرات میں سے تھے اور کم و بیش گیارہ سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ لندن میں میرا زیادہ وقت انہی کے ہاں گزرتا ہے اور ان کی مہمان نوازی سے فیضیاب ہوتا ہوں۔ ۲ نومبر کو بھی ان کے پاس تھا اور جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی اور جگہ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ آج جمعہ پر آپ یہاں بیان کریں، چنانچہ ان کی فرمائش پر کچھ معروضات پیش کیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سورۃ الذاریات کی چند آیات میں نے تلاوت کی ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے نیک بندوں اور متقین کے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور ان میں ایک بات یہ بھی ذکر کی ہے کہ ’’ان کے اموال میں ضرورت مندوں کے حقوق ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی وہ اپنے اموال میں سے معاشرہ کے ضرورت مند افراد پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ یہ ان حقوق میں سے ایک ہے جو اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں انسانوں کے باہمی حقوق کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

انسانی حقوق کا آج بھی بہت شہرہ ہے اور مختلف حوالوں سے ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ حقوق قرآن کریم نے بھی بیان کیے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سینکڑوں احادیث میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے، اور سچی بات یہ ہے کہ باہمی حقوق کی جس قدر تفصیل اور وضاحت قرآن کریم اور سنت نبویؐ میں ہے دنیا کے کسی اور نظام اور فلسفے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ البتہ دو باتوں کا فرق ہے:

  1. ایک یہ کہ قرآن کریم میں حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کا ذکر بھی ہے کہ ہر انسان پر دوسرے انسانوں کے بھی حقوق ہیں۔ ماں باپ کا حق ہے، بیوی کا حق ہے، خاوند کا حق ہے، بچوں کا حق ہے، رشتہ داروں کا حق ہے، پڑوسیوں کا حق ہے، اور سوسائٹی کے نادار لوگوں کا حق ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے انسان پر اس کے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے حقوق ہیں۔ ان سب حقوق کو اپنی اپنی جگہ صحیح طور پر ادا کر کے ہی انسان اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتا ہے۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے آج کے فلسفہ میں ہر شخص کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے یہ حقوق ہیں جو اسے دوسروں سے ملنے چاہئیں اور جنہیں وہ حاصل کر سکتا ہے۔ جبکہ قرآن و سنت میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر انسان کے ذمہ دوسروں کے یہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی اس کے ذمہ ضروری ہے۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ ایک میں حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسرے میں حقوق ادا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اب فیصلہ آپ خود کر لیں کہ ان میں سے کونسا فلسفہ باہمی محبت و اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے اور کس فلسفہ کے نتیجہ میں جھگڑے اور فسادات پیدا ہوتے ہیں۔

قرآن و سنت میں ان حقوق کی بہت تفصیل ہے مگر ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہوں گا:

  • بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، جو اس پر نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی دوسرے کے ظلم کے لیے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان بھائی کی کوئی مشکل دور کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل دور کر دیں گے۔ اور جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی کے عیب پر پردہ ڈالتا ہے، اللہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالیں گے۔

    اس حدیث میں جناب نبی اکرمؐ نے اللہ تعالٰی کے قانون اور ضابطے کا ذکر کیا ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ جو طرزعمل اختیار کرتا ہے، قیامت کے روز اللہ تعالٰی اس کے ساتھ وہی رویہ اختیار فرمائیں گے۔ اور یہ بات ہمارے ہاں بھی اس طرح ہے کہ ہماری اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ کوئی شخص اچھا سلوک کرتا ہے تو ہمارے دل میں فطری طور پر اس کے لیے اچھے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص ہمارے کسی تعلق دار سے نامناسب سلوک کرتا ہے تو اس کے لیے ہمارے دلوں میں بھی اس طرح کے جذبات ابھرتے ہیں۔ مخلوق اللہ تعالٰی کا کنبہ ہے، اس لیے اللہ تعالٰی کی مخلوق کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا جائے گا فطری طور پر اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی اسی قسم کے سلوک کی امید رکھنی چاہیے۔

  • ایک اور حدیث میں ہے، جو حدیث قدسی ہے، مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالٰی قیامت کے روز اپنے ایک بندے سے فرمائیں گے کہ اے آدم کے بیٹے! میں فلاں وقت بیمار تھا، تو نے عیادت نہیں کی۔ وہ حیران ہو کر دریافت کرے گا کہ آپ تو رب العالمین ہیں، میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا جس کا تجھے علم تھا اور تو نے اس کی بیمار پرسی نہیں کی۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا۔ پھر اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ اے آدم کے بیٹے! میں نے فلاں وقت تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ وہ پھر حیرانی سے پوچھے گا کہ یا اللہ! آپ تو رب العالمین ہیں، آپ کیسے بھوکے تھے اور میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور اس نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب و اجر میری طرف سے تجھے ملتا۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے مجھے پانی نہیں دیا تھا۔ وہ حیرت سے سوال کرے گا کہ یا اللہ! آپ تو رب العالمین ہیں آپ کیسے پیاسے تھے اور میں آپ کو کیسے پانی پلاتا؟ اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ میرا فلاں بندہ پیاسا تھا جس کا تجھے علم تھا اور اس نے تجھ سے پانی مانگا تھا، تو نے اسے پانی نہیں پلایا تھا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا اجر و ثواب تجھے میری طرف سے ملتا۔

    اس حدیث قدسی پر غور فرمائیے کہ اللہ تعالٰی انسان کی بھوک کو اپنی بھوک، اس کی پیاس کو اپنی پیاس، اور اس کی بیماری کو اپنی بیماری فرما رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ رب العزت ان سب کمزوریوں سے پاک ہیں، وہ بے نیاز ہیں اور کسی قسم کی ضرورت اور کمزوری ان کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ فرما رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے بندوں کی ضروریات کا لحاظ ہے، اور دوسرے بندوں کو وہ انہیں پورا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ انہیں اپنے بندوں کی عزت نفس کا بھی پاس ہے کہ دینے والے سے فرما رہے ہیں کہ تو اس کو کچھ نہیں دے رہا مجھے دے رہا ہے اور اس کا اجر و ثواب تجھے مجھ سے ملے گا۔ حتٰی کہ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا کہ اگر کسی نے دوسرے پر خرچ کر کے اور اس کی ضرورت پوری کر کے بعد میں اسے جتلا دیا یا کسی اور کے سامنے اس کا تذکرہ کر دیا تو اس کا ثواب باطل ہو جائے گا اور نیکی برباد ہو جائے گی۔

ان احادیث مبارکہ میں جن باتوں کا تذکرہ ہے ان میں سے دو باتوں کا آج کے عالمی حالات کے تناظر میں بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا:

  1. ایک یہ کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو اس پر ظلم کرنے دیتا ہے۔ اس حوالہ سے آج کی صورتحال میں دیکھیں کہ افغانستان، فلسطین، کشمیر، چیچنیا اور دوسرے مقامات میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں؟ اور ہم ان مسلمان بھائیوں کو دوسرے کے مظالم سے بچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے اور اس کا تعلق ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری دینی ذمہ داری سے ہے۔ اس لیے ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے ہم جو کچھ کر سکتے ہوں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
  2. دوسری بات یہ کہ حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالٰی قیامت کے روز ایک شخص کی بھوک، پیاس اور بیماری کے بارے میں جو سوال کریں گے کہ فلاں شخص بھوکا تھا، پیاسا تھا، بیمار تھا، تم نے اس کی خبر نہیں لی، اس کو کھانا نہیں دیا، اسے پانی نہیں پلایا، اس کی بیمار پرسی نہیں کی، گویا تم نے اس کی حق تلفی کر کے میری حق تلفی کی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کی بھوک، پیاس اور بیماری کے حوالہ سے باز پرس ہو گی تو کیا کسی جگہ پوری کی پوری مسلمان یا انسانی آبادی کی بھوک و پیاس اور فاقہ و بیماری کے بارے میں ہم سے کوئی سوال نہیں ہو گا؟ عراق میں جو کچھ ہوا ہے اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب ہمارے سامنے ہے اور ہم ان کی بھوک، فاقہ، بیماری اور کسمپرسی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن عملاً ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس پر ہم سب کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور قیامت کے روز اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں پیشی کا تصور سامنے رکھتے ہوئے اس حوالہ سے اپنے کردار کا تعین کرنا چاہیے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
   
2016ء سے
Flag Counter