مانع حمل تدابیر اور اسلام

   
مقام / زیر اہتمام: 
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
تاریخ بیان: 
۲۰۱۰ء

(نماز فجر کے بعد درس حدیث۔)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ شادی، نکاح کی بات ہو رہی ہے۔ اور اس بات کا ذکر ہو رہا تھا کہ مانع حمل تدابیر اختیار کرنا، اس کے بارے میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔ میاں بیوی کے، مرد و عورت کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور بچے کی پیدائش سے بسا اوقات مرد و عورت بچتے ہیں کہ اپنا تقاضا تو پورا کریں لیکن بچہ نہ پیدا ہو، حمل نہ ہو۔ ہر زمانے میں یہ خواہش رہی ہے۔ اب تو یہ ایک مہم کی صورت میں ہے۔ آج کل تو یہ ایک عالمی مہم کی صورت میں ہے کہ بچے کم سے کم پیدا کرو۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی انفرادی طور پر یہ عمل ہوتا تھا۔ اب مہم کی صورت میں ہے، حکومتی پالیسیوں کی شکل میں ہے۔ اس زمانے میں فردًا ہوتا تھا کہ مرد و عورت اپنا تقاضا اور خواہش تو پوری کریں لیکن حمل نہ ٹھہرے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو رسول اللہ نے یہ جواب دیا کہ نہ کرو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا،۔ (یعنی) اس کا فائدہ کوئی نہیں ہے، اصل میں جناب نبی کریمؐ نے یہ بتایا کہ جس انسان نے دنیا میں آنا ہے اس نے آنا ہے۔ اللہ تعالٰی نے جو فہرست بنا رکھی ہے کہ میں نے اتنے بندے بھیجنے ہیں، اس نے بھیجنے ہیں۔ تمہاری تدبیروں سے اللہ کی فہرست میں کمی نہیں آئے گی۔

اصل بات یہ ہے کہ چند پہلو ہیں اس کے:

  • ایک تو عقیدے کا پہلو ہے۔ آج کل ملک میں بھی، دنیا میں بھی یہ خاندانی منصوبہ بندی، مانع حمل ادویات، آج کل دوائیاں ہیں، ٹیکے ہیں، اور چیزیں ہیں۔ اس زمانے میں دوائیاں ٹیکے نہیں ہوتے تھے ذاتی تدابیر ہوتی تھیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کا فائدہ ہے یا نہیں ہے۔ ہمیں جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ فائدہ کوئی نہیں ہے۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ فقہاءؒ اجازت دیتے ہیں کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوں تو کوئی مانع حمل تجویز اختیار کر سکتے ہیں۔ شرعاً رکاوٹ بھی نہیں ہے۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ ایک ہے شخصی طور پر کسی بات کی اجازت، اور ایک ہے اس کو حکومتی اور اجتماعی پالیسی بنانا، اس کے نقصانات ہیں۔ یہ جو تیسرا پہلو ہے اس کے نقصانات ہیں کہ زنا عام ہوتا ہے، رکاوٹ ختم ہوتی ہے، بے حیائی پھیلتی ہے، جس طریقے سے کنڈوم وغیرہ اور یہ چیزیں تقسیم ہوتی ہیں اور ترغیب دی جاتی ہے۔ اس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور زنا کو فروغ ہوتا ہے اور زنا کے راستے میں جو رکاوٹ ہے وہ ختم ہوتی ہے۔ اس لیے علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ نفس جواز کی بات نہیں، نفس جواز تو ہے۔ لیکن ایک اجازت کی شکل میں کہ میاں بیوی اگر متفق ہیں تو۔ دو صورتوں میں (۱) میاں بیوی متفق ہیں (۲) یا ڈاکٹر کی رائے ہے کہ یہ عورت متحمل نہیں ہے، ڈاکٹر دیکھ لیتے ہیں کہ یہ عورت حمل کی متحمل نہیں ہے۔ لیکن عموماً اس کو مہم کی شکل دینے میں اور قومی اور اجتماعی پالیسی بنانے میں نقصانات زیادہ ہیں۔

    میں ایک دن لندن میں ٹیوب (انڈر گراؤنڈ ریلوے) میں جا رہا تھا کہ میں نے ایک اشتہار دیکھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یار یہ اشتہار تو سمجھاؤ کیا ہے، کیونکہ میں انگریزی نہیں پڑھ سکتا۔ اس نے بتایا کہ اشتہار یہ ہے کہ لڑکی جو ایک چھوٹی بچی ہے، سکول جا رہی ہے اور بستہ اس کے ہاتھ میں ہے، اور ماں اس سے پوچھ رہی ہے کہ بستے میں کنڈوم رکھ لیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟ یہ ترغیب ہے ۔۔۔۔۔ لیکن ماں اپنی بچی سے پوچھ رہی ہے کہ وہاں تمہیں یہ معاملہ تو پیش آئے گا ہی، تم نے احتیاطی تدبیر کی ہوئی ہے؟ یہ بات درست نہیں ہے۔

  • اور پھر اس کی بنیاد جس بات پر ہے، کہتے ہیں آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہو رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی کہتے ہیں کہ میں دنیا میں رزق پورے اندازے سے اتارتا ہوں، جتنے بندے پیدا کیے ہیں اس کے مطابق اتارتا ہوں، وسائل کم نہیں ہوتے ’’قدر فیھا اقواتھا‘‘۔ بات وہاں نہیں ہے، بات تقسیم کی ہے، تقسیم غلط ہے۔ ہمارا نظم یہ ہے کہ ایک طرف گندم لاکھوں ٹن سمندر میں پھینکی جاتی ہے، ایک طرف کاشتکاروں کو گندم پیدا کرنے سے روکا جاتا ہے، کہ مارکیٹ کا بیلنس نہ بگڑے، ریٹ خراب نہ ہو، اپنے مفادات کے لیے۔ اور دوسری طرف لوگ مرتے ہیں۔ یعنی تمہارے کھاتے میں جو کام ڈالا ہوا ہے وہ تم خراب کرتے ہو۔

خیر، میں نے عرض کیا مسئلہ یہ ہے کہ نفسِ جواز تو ہے کہ میاں بیوی اگر متفق ہوں تو کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اگر مشورہ دے تب بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کو عمومی مہم بنانا، اس کے نقصانات جو ہیں اس میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، ان خرابیوں کی وجہ سے علماء اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہاں واقعہ یہ ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں ایک شخص نے سوال کیا جناب نبی کریمؐ سے کہ میں اپنا حق استعما ل کرتا ہوں لیکن میں عزل کرتا ہوں۔ اس زمانے میں مانع حمل تدبیر یہ تھی۔ کہا کہ میں اپنا حق استعمال کرتا ہوں اور عزل کرتا ہوں۔ جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ’’ان ذٰلک لم یمنع شیئًا ارادہ اللہ‘‘ اللہ نے جس بات کا ارادہ کر لیا ہے تمہاری یہ تدبیر اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ چند دن گزرے تو وہی شخص آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! وہ جو میں نے کہا تھا وہ تو حمل ہو گیا ہے، میری ساری تدبیر کے باوجود وہ حاملہ ہو گئی ہے۔ تو جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’انا عبد اللہ ورسولہ‘‘ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول بھی ہوں۔

جناب نبی کریمؐ نے منع تو نہیں فرمایا لیکن پسند بھی نہیں فرمایا۔ حرام بھی قرار نہیں دیا لیکن پسند بھی نہیں فرمایا۔ اس لیے فقہاءؒ یہ فرماتے ہیں کہ اس کا انحصار حالات پر ہے، جواز کی صورت ہو تو ٹھیک ہے، لیکن خطرے کی صورت میں پھر گنجائش نہیں ہے۔ اللھم صل علٰی محمد۔

Flag Counter