سیرۃ النبیؐ اور پڑوسیوں کے حقوق

   
تاریخ: 
فروری ۲۰۱۸ء

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے جو حقوق بیان فرمائے وہ اس طرح ہیں کہ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوا جائے، ان کی بیمار پرسی کی جائے، حال احوال کی خبر رکھی جائے، ان کو نفع پہنچایا جائے، گھر میں کوئی چیز زیادہ پک گئی ہے یا زیادہ پکا لی جائے تو پڑوسیوں کو بھی اس میں شریک کیا جائے وغیرہ۔ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’لیس المؤمن الذی یبیت شبعان وجارہ جائع فی جنبہ وھو یعلم‘‘ وہ آدمی مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھر کر سویا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سویا ہے اور اس کے علم میں ہے کہ پڑوسی کو رات کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ مومن نہیں ہے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کافر ہو گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ مومنوں والا کام نہیں ہے، وہ کامل مومن نہیں ہے جو ایسا کرے۔

ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا پڑوس کی حد کیا ہے؟ فرمایا چالیس گھر، چاروں اطراف میں دس دس گھر، یہ پڑوس کا دائرہ ہے۔ پھر پوچھا اتنے پڑوسیوں کو کون کھانا تقسیم کرے گا، سب سے پہلا حق کس کا ہے؟ فرمایا، جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہے اس کا حق زیادہ ہے۔ پڑوس کی ایک اور حد بھی بیان کی گئی ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مسجد کے پڑوسی کی نماز بلاعذر مسجد کے سوا نہیں ہوتی۔ حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا، مسجد کے پڑوس کی حد کیا ہے؟ فرمایا، جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہو وہ مسجد کا پڑوس ہے۔

پڑوس کا ایک حق تو یہ ہے کہ ان کو اپنی خوشی غمی میں شریک کریں، ان کی خوشی غمی میں شریک ہوں، ان کو جتنا نفع پہنچا سکتے ہیں پہنچائیں۔ اور ایک حق یہ ہے کہ پڑوسیوں کو اپنی شرارتوں سے محفوظ رکھیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’لیس المؤمن من لایأمن جارہ بوائقہ‘‘ وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں، اذیتوں، تکلیفوں سے محفوظ نہیں ہے۔ پڑوسی کو کسی بھی ذریعے سے تکلیف پہنچانا منع ہے، اس کا راستہ روکنا بھی اس میں شامل ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے شکایت کی میرا پڑوسی مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔ آپؐ نے اس کو ایک حیلہ بتایا، فرمایا، گھر کا سامان باہر گلی میں رکھ دو اور یہ ظاہر کرو کہ میں محلہ چھوڑ کر جا رہا ہوں، کوئی پوچھے تو بتاؤ کہ پڑوسی نہیں رہنے دیتا، تنگ کرتا ہے۔ اس نے ایسے ہی کیا، جب تین چار آدمیوں کو اس نے بتایا کہ پڑوسی تنگ کرتا ہے اس لیے میں جا رہا ہوں تو پڑوسی اس کے پاس آیا اور کہا یہیں رہو، میں تمہیں تنگ نہیں کروں گا۔ پڑوس کے متعلق یہاں تک فرمایا کہ دیوار میں میخ بھی مت ٹھوکو، اس سے پڑوسی کو تکلیف ہو گی۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم گھر میں بچوں کے لیے کوئی پھل لائے ہو تو کھا کر چھلکے دروازے سے باہر مت پھینکو کہ پڑوسی کے بچے دیکھیں گے تو گھر جا کر ضد کریں گے کہ ہم نے بھی کھانے ہیں۔ اگر ان کی حیثیت نہیں ہے تو وہ پریشان ہوں گے اور پریشانی کا سبب تم بنے ہو۔ اب یا تو وہ بچوں کو ڈانٹ دیں گے یا قرضہ لیں گے، اس سے تمہارے پڑوسیوں کو تکلیف ہو گی۔ اگر تم ان کو دے نہیں سکتے تو ان کے سامنے اپنے بچوں کو نہ کھلاؤ۔ اتنی تکلیف دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ یہ پڑوسی کا حق بیان ہوا ہے کہ اگر اس کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم اس کو تکلیف سے محفوظ رکھو، کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے پڑوسی کو تکلیف ہوتی ہو۔

ایک حدیث میں حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’ما زال جبرئیل یوصینی بالجار‘‘ جبریلؑ مسلسل وحی لے کر آتے رہے، اتنی بار پڑوسی کے بارے میں مجھے تلقین کی ’’حتّٰی ظننت انہ سیورثہ‘‘ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں یہ حکم لے کر نہ آ جائیں کہ پڑوسی وراثت میں بھی شریک ہوتا ہے۔

جناب نبی کریمؐ کا اپنا معمول کیسا تھا؟ آپؐ پڑوسیوں کا حال احوال پوچھتے، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوتے تھے، یہ دیکھے بغیر کہ مسلمان ہے یا نہیں۔ مسلمان یا کافر ہونا الگ مسئلہ ہے اور پڑوسی ہونا الگ مسئلہ ہے۔ آپؐ کے پڑوس میں ایک یہودی کا گھر تھا اس گھر کا ایک نوجوان لڑکا حضورؐ کی خدمت میں آتا جاتا تھا اور آپؐ سے محبت کرتا تھا۔ ایک بار وہ بیمار ہوا تو حضورؐ اس کی خبر لینے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کا آخری وقت تھا، آپؐ نے یہ محسوس کر لیا کہ اب اس کے آخری لمحات ہیں۔ کسی کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہی ہو سکتی ہے کہ اس کی آخرت میں نجات ہو جائے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا، کلمہ پڑھ لو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا کہ باپ کی اجازت ہے یا نہیں، باپ کا کیا ردعمل ہے؟ اس کے باپ کو علم تھا کہ بچے کو آپؐ سے محبت ہے، اس نے کہا ’’اطع ابا القاسم‘‘ ابو القاسم جیسے کہتے ہیں کر لو۔ بچے نے کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی فوت ہو گیا۔ یہ آپؐ کا پڑوس کے ساتھ رویہ تھا۔

ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ مسلمان کافر کے معاملات الگ ہیں جبکہ انسانی ہمدردی، انسان کی عزت نفس اور انسان کے حقوق کا مستقل دائرہ ہے، اس کا نبی کریمؐ نے ہمیں غیرمسلموں کے معاشرے میں رہ کر درس دیا اور عملًا کر کے دکھلایا ہے ۔ایک دفعہ آپؐ تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ بھی بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ پاس سے گزرا۔ آپؐ احتراماً کھڑے ہو گئے کہ آپؐ کا حکم بھی یہ ہے کہ جب جنازہ گزر رہا ہو تو احترام میں کھڑے ہو جایا کرو۔ جب جنازہ گزر گیا تو صحابہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا ،آپ نے فرمایا ’’الیست نفسا؟‘‘ کیا وہ انسان نہیں تھا؟ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ پڑوسی کوئی بھی ہو، مسلمان ہو یا کافر، بلا امتیاز تمام پڑوسیوں کے حقوق آپؐ نے بیان کیے کہ ان کی خوشی غمی میں شریک ہو، ان کو فائدہ پہنچاؤ، ان کو اپنے شر سے بچاؤ۔ انسان کسی کو تنگ کر سکتا ہو اور تنگ نہ کرے تو حضورؐ نے اسے بھی صدقہ فرمایا ہے۔ ایک بار آپؐ نے صدقہ کی تلقین کی، ایک آدمی نے کہا اگر پاس کچھ نہ ہو تو کیا کریں۔ کچھ کما کر صدقہ کر دو۔ یہ بھی نہ کر سکیں تو؟ فرمایا، اس کو کوئی فائدہ پہنچاؤ۔ یہ بھی نہ کر سکیں تو؟ فرمایا، مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ یہ بھی نہ کر سکیں تو؟ فرمایا، اس کو اپنے شر سے بچاؤ، یہ بھی صدقہ ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں باہمی معاشرت میں ایک دوسرے کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter