۲۱ ستمبر ۲۰۲۰ء

آج کے عالمی تناظر میں امن عالم کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہمیں کیا راہنمائی ملتی ہے اور آج کی دنیا کو امن سے روشناس کرنے کے لیے ہم آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ سے کیا استفادہ کر سکتے ہیں؟

آج دنیا میں ہر طرف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ترقی کے لیے امن ضروری ہے، خوشحالی کے لیے امن ضروری ہے، ملکی استحکام کے لیے امن ضروری ہے ، قومی وقار کے لیے امن ضروری ہے، اور امن کے بغیر ان میں سے کوئی مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ ساری باتیں درست ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ امن کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے، نہ استحکام حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی قومی وقار قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کاموں کے لیے تو امن ضروری ہے مگر امن کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟ میں اصحاب فکر و دانش کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ امن کیسے قائم ہو سکتا ہے اور امن کے لیے کیا ضروری ہے؟

میں یہ عرض کرتا ہوں کہ امن کے لیے انصاف ضروری ہے اس لیے کہ انصاف کے بغیر کسی بھی سطح پر امن کا قیام نہیں ہو سکتا، انصاف ہوگا تو امن ہوگا اور اگر انصاف نہیں ہوگا تو امن کسی قیمت پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کسی شہر کی بات ہو یا ملک و قوم کا معاملہ ہو، اقوام عالم کے باہمی روابط ہوں یا امن عالم کی بات ہو، ہر دائرہ میں اور ہر سطح پر اصول یہی ہے کہ انصاف ہوگا تو امن ہوگا ورنہ امن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔

انصاف کے تقاضوں میں سے ایک بڑا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو اور قانون کے نفاذ میں کسی فرد یا طبقے کو تحفظ اور استثنا حاصل نہ ہو اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف بطور خاص توجہ دلائی ہے۔ فاطمہ مخزومیہ کا واقعہ مشہور ہے کہ بنو مخزوم کی خاتون فاطمہ نے چوری کی، جرم ثابت ہوگیا اور آنحضرتؒ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر خاندان والوں کو تشویش ہوئی کہ اس سے پورے خاندان کی بے عزتی ہوگی، فاطمہ کا ہاتھ کٹا تو بنو مخزوم جیسے خاندان کی ناک کٹ جائے گی، اس لیے جناب نبی کریمؐ سے سفارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کا انتخاب کیا گیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’کان حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ وہ نبی اکرمؐ کے چہیتے نوجوان تھے، منہ بولے بیٹے کے بیٹے تھے، حضورؐ کی گود میں پرورش پائی تھی اور آپؐ کی خصوصی شفقتیں سمیٹنے والوں میں سے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں سفارش کی تو آپؐ نے سخت غصہ اور ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ڈانٹ دیا کہ ’’اتشفع فی حد من حدود اللہ؟‘‘ کیا اللہ تعالٰی کی حدود کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ اس موقع پر آنحضرتؐ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔

بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسامہ بن زیدؓ کو ڈانٹنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد نبویؐ میں اس مسئلہ پر عمومی خطاب بھی فرمایا اور اس خطاب میں لوگوں کو خبردار کیا کہ تم سے پہلے قومیں اس وجہ سے برباد ہوتی رہی ہیں کہ کوئی عام اور غریب شخص جرم کرتا تھا تو اس کو سزا دی جاتی تھی لیکن اگر کوئی وی آئی پی اور بڑا شخص جرم کا مرتکب ہوتا تو وہ سزا سے بچ جایا کرتا تھا۔ قانون کے نفاذ میں یہ فرق اور تفاوت قوموں کی تباہی کے اسباب میں سے ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بھی کسی قوم اور معاشرے میں قانون کے یکساں نفاذ کا ماحول نہیں رہے گا وہاں فساد پھیلے گا اور قوم تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔

2016ء سے
Flag Counter