اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نئی مہم

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۲۱ء

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ایک بار پھر قومی اور بین الاقوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور بعض عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد پاکستان سے بھی تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو معروضی حقیقت سمجھ کر تسلیم کر لے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف پیشرفت کرے۔ اس بار بعض دینی حلقوں کی طرف سے بھی یہ تقاضہ سامنے آیا ہے اور اس کے لیے جو دلائل دیئے جا رہے ہیں ان میں سے ایک دو کا سرسری جائزہ ان سطور میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہا ہیں۔

ایک صاحب کا کہنا ہے کہ فلسطین اب سے ایک سو برس پہلے خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا اس لیے جب ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے تو ہمارے تسلیم کر لینے میں کیا حرج ہے؟ یہ بات مغالطہ کے سوا کچھ نہیں، اس لیے کہ بلاشبہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صدیوں تک حصہ رہا ہے اور خلافت عثمانیہ کا دارالحکومت استنبول اور مرکز ترکی تھا، لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلافت عثمانیہ کے پورے دور میں دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین اور بیت المقدس میں آنے جانے کی سہولت کے باوجود وہاں زمین خریدنے، رہائش اختیار کرنے اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانیؒ نے اپنی مطبوعہ یادداشتوں میں لکھا ہے کہ عالمی یہودی قیادت ان سے بار بار تقاضہ کرتی رہی ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں جگہ خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت دی جائے مگر وہ اس سے انکار کرتے رہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ جانتے تھے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ رفتہ رفتہ فلسطین میں آباد ہو کر بیت المقدس پر قبضہ کی راہ ہموار کریں۔ سلطان مرحوم نے لکھا ہے کہ ان کے خلاف سازشوں اور انہیں خلافت سے معزول کر کے جلا وطن کر دینے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ یہودیوں کو اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور فلسطین پر برطانیہ کے قبضہ کے بعد یہودیوں کے دنیا بھر سے وہاں آکر آباد ہونے کی صورت پیدا ہوئی اور برطانیہ کی زیر سرپرستی انہوں نے پندرہ بیس برسوں میں وہاں اپنی آبادی اس حد تک بڑھائی کہ برطانیہ نے اقوام متحدہ میں ان کا کیس پیش کر کے اس بین الاقوامی فورم پر فلسطین کو تقسیم کر کے یہودی اکثریت کے علاقے کو اسرائیل کے نام نئی ریاست کی صورت دینے کا فیصلہ کرا لیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ خلافت عثمانیہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تاریخی حقائق سے انکار اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ زیادتی و ناانصافی کی بات ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد کا ترکی اس سے بالکل مختلف بلکہ علی الرغم چلا آرہا ہے، جسے اب دھیرے دھیرے سابقہ پوزیشن پر لے جانے کے لیے ترکی صدر حافظ طیب رجب اردگان کی مساعی لائق تحسین ہیں۔ مگر موجودہ ترکی کے کسی فیصلے کو خلافت عثمانیہ کا فیصلہ قرار دینا زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔

اسی طرح ایک محترم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں قرآن کریم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا تھا ’’أدخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللّٰہ لکم‘‘۔ مگر یہ بھی کج بحثی اور مغالطہ نوازی ہی کی افسوسناک صورت ہے۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں اس دور کا ذکر کیا ہے جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات حاصل کر کے صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تھے اور حضرت موسیٰ و ھارون علیہما السلام کی قیادت میں فلسطین اور بیت المقدس کی طرف جانے کا عزم رکھتے تھے جہاں ایک ظالم و غاصب قوم کا قبضہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اس ارض مقدسہ پر غاصب و قابض قوم کے خلاف جہاد کرو اور وہاں جا کر اپنا نظام قائم کرو۔ یہ حکم خداوندی قابض قوم کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ آباد ہو جانے کا نہیں بلکہ اس کے خلاف جہاد کر کے اس سے فلسطین کا قبضہ چھڑوانے کا تھا، جسے موجودہ صورتحال پر منطبق کر کے اس سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جواز نکالنا انتہائی درجہ کی تحریف ہے جس سے ہر مسلمان کو گریز کرنا چاہئے۔

بہرحال اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہودیوں کے ساتھ تعلقات کے شوق میں انہی کی طرح احکام خداوندی اور تاریخی حقائق کو تبدیل کر دینے کی روش اپنائی جا رہی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ایک بات اور بھی کہی گئی ہے کہ بیت المقدس عربوں کا معاملہ ہے، جب وہ اسرائیل کو موجودہ حالت میں تسلیم کر رہے ہیں ہمیں بھی تسلیم کر لینا چاہئے۔ ہمارے خیال میں یہ بھی مغربی فکر و دانش کے اس ایجنڈے کا حصہ ہے جس میں وہ اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں کا اعتراف کر کے اور مدح و تعریف کر کے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اچھا ہے مگر عربوں کے لیے تھا۔ بہت سے مغربی دانشور اسلام کو عرب تہذیب کی اعلیٰ ترین شکل اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کا نبی کہہ کر اسلام کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو اسلام کا راستہ روکنے کی منظم حکمت عملی ہے۔ اس تناظر میں بیت المقدس کو عربوں کا معاملہ قرار دے کر اسے عرب و عجم کے حوالہ سے پیش کرنا اسلام کی آفاقیت اور بیت المقدس کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے تعلق و عقیدت کی نفی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز اور ان سب کا مشترکہ مسئلہ ہے جسے عربوں کا مسئلہ کہہ کر اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter