مساجد و اوقاف کا نیا قانون اور دینی قیادتوں کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
مارچ ۲۰۲۱ء

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں نئے اوقاف ایکٹ کے نفاذ کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مشترکہ طور پر احکام شریعت اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے۔ جبکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور دیگر ذمہ دار حکومتی راہنماؤں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اعتماد میں لے کر قانون میں ترامیم کرتے ہوئے اسے دینی حلقوں کے لیے قابل قبول بنائیں گے۔ مگر عملی طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان دونوں امور کو نظرانداز کر دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ دینی مدارس کے نئے پانچ بورڈز دینی مدارس کے وفاقوں کے مقابل کھڑے کر دیے گئے ہیں بلکہ پنجاب کے مختلف شہروں میں محکمہ اوقاف مساجد اور اس کی مبینہ رجسٹریشن کے لیے متحرک ہو گیا ہے۔ چنانچہ گوجرانوالہ میں بھی محکمہ اوقاف کی طرف سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ اجلاس کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں شرکت کے لیے راقم الحروف سے بھی مسلسل رابطہ کیا گیا مگر میں اس میں شریک نہ ہو سکا، جبکہ محکمہ اوقاف کی اس قسم کی نقل و حرکت سے معاملات مزید شکوک اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں چند امور کی طرف حکومتی حلقوں اور دینی مدارس کی قیادتوں کو توجہ دلانا اس مرحلہ میں ضروری محسوس ہوتا ہے۔

  • اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت کے ساتھ ذمہ دار حکومتی شخصیات نے نئے اوقاف قانون میں تبدیلی کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قانون کو شرعی احکام اور شہری حقوق کے منافی قرار دینے کے حوالہ سے دینی حلقوں کا موقف بے وزن نہیں ہے مگر اس حوالہ سے وعدہ کے باوجود کوئی پیشرفت اب تک سامنے نہیں آئی۔
  • نیا اوقاف قانون وفاقی دارالحکومت کے لیے منظور کیا گیا ہے مگر اس کے بارے میں اوقاف کے عملہ نے پنجاب کے شہروں میں نقل و حرکت شروع کر رکھی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے، جب اس قانون کا اطلاق پنجاب پر نہیں ہوتا تو محکمہ اوقاف پنجاب کی ان سرگرمیوں کا کیا مطلب ہے؟
  • دینی مدارس کے نئے سرکاری بورڈز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کا قیام خود دینی مدارس کے مطالبہ پر عمل میں لایا گیا ہے جو قطعی طور پر خلاف واقعہ بات ہے کیونکہ دینی مدارس کے وفاقوں کا ایک عرصہ سے یہ مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ اس وقت موجود مختلف مکاتب فکر کے تعلیمی وفاقوں کو تعلیمی بورڈز کے طور پر تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا جائے مگر اسے منظور کرنے کی بجائے ان کے مقابلے میں پانچ تعلیمی بورڈز کھڑے کر دیے گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ دینی مدارس کے مطالبہ پر کیا گیا ہے جو انتہائی غیر سنجیدہ بلکہ مضحکہ خیز بات ہے۔ اس حوالہ سے دینی مدارس کے وفاقوں نے جو موقف اختیار کیا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں اور ہماری رائے میں ملک بھر کے تمام دینی مدارس کو اپنے اپنے وفاقوں کی قیادتوں کی طے کردہ پالیسی کے دائرے میں رہتے ہوئے خود کو کسی بھی قسم کے خلفشار سے بہرحال محفوظ رکھنا چاہیے جبکہ وفاقوں کی قیادتوں کو اس سلسلہ میں دوٹوک لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے۔
  • اس کے ساتھ ہی ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے نظام کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے تو ان کے وفاقوں کو ہی جدوجہد کرنی چاہیے اور تمام مدارس کو ان کی قیادت میں خود کو منظم و مربوط رکھنا چاہیے مگر نئے اوقاف ایکٹ سے صرف مدارس کا نظام ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی تمام مساجد اور عمومی اوقاف کا نظم بھی سبوتاژ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ ان دو اہم ترین دائروں کے بارے میں مؤثر آواز اٹھانے کا کوئی فورم اس وقت موجود نہیں ہے۔ اس کے لیے یا تو وفاقوں کی قیادت کو اپنی جدوجہد کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مساجد اور عمومی اوقاف کو شرعی احکام اور انسانی حقوق کے منافی اقدامات سے محفوظ رکھنے کو اپنے مقاصد میں شامل کرنا چاہیے جو ہمارے خیال میں موجودہ حالات میں سب سے بہتر صورت ہے، لیکن اگر دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت اس کے لیے تیار نہیں ہے تو عمومی اوقاف اور مساجد کے تحفظ کے لیے کوئی مستقل فورم قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جس کی طرف دینی راہنماؤں اور وکلاء کے ساتھ ساتھ وقف کنندگان اور مساجد کے منتظمین کو لازماً توجہ دینا ہو گی۔

مختلف مکاتب فکر اور دینی جماعتوں نے اس صورتحال پر تشویش و اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں سرکردہ شخصیات کے ساتھ غیر رسمی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ خدا کرے کہ وفاقوں کی قیادتیں اس ذمہ داری کو بروقت محسوس کر لیں یا ان کے اعتماد کے ساتھ کوئی اور مؤثر صورت سامنے آجائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter