اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری

   
تاریخ اشاعت: 
جون ۲۰۰۴ء

اقوام متحدہ کا ’’انسانی حقوق کا چارٹر‘‘ الشریعہ کے زیر نظر شمارے (جون ۲۰۰۴ء) میں شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ اردو ترجمہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے اور یہ چارٹر کا سرکاری ترجمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اس چارٹر کو آج کی دنیا میں بین الاقوامی دستور کا درجہ حاصل ہے اور کم وبیش تمام ممالک نے اس پر دستخط کر کے اس کی پابندی کا عہد کر رکھا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر دستخط کرنے والے تمام ممالک نے یہ پابندی قبول کی ہوئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں دستور وقانون کے نفاذ اور ملکی نظام کو چلاتے وقت اس معاہدہ کا لحاظ رکھیں گے اور اپنے باشندوں کو وہ تمام حقوق دیں گے جن کا اس چارٹر میں ذکر کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کا کمیشن اور دیگر بہت سے بین الاقوامی ادارے اس چارٹر کے حوالے سے دنیا بھر کی صورت حال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور ہر سال مختلف رپورٹیں منظر عام پر آتی ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک میں ان حقوق کی کس حد تک خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر بیشتر ممالک اور عالمی ادارے متعلقہ ملکوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کی ترجیحات قائم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔ مسلم ممالک اور پاکستان کے بارے میں بھی یہ رپورٹیں ہر سال جاری ہوتی ہیں اور ان میں نہ صرف واقعات کے حوالے سے اس چارٹر کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی کی نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ ملک میں نافذ ایسے قوانین کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو رپورٹ جاری کرنے والے اداروں کے خیال میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی تصور کیے جاتے ہیں۔

اسی چارٹر کے حوالے سے متعدد اسلامی احکام و قوانین پر مسلسل تنقید ہوتی رہتی ہے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ اسلامی قوانین واحکام اقوام متحدہ کے منشور کے منافی ہیں اور بین الاقوامی معاہدہ کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں اس لیے ان احکام وقوانین کو نافذ نہیں ہونا چاہیے اور اگر کسی ملک میں یہ اسلامی احکام وقوانین نافذ ہیں تو انھیں انسانی حقوق کے مذکورہ بالا چارٹر کی روشنی میں ختم یا تبدیل کر دینا چاہیے۔ اسی بنیاد پر اسلامی نظام اور شرعی قوانین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آج کے عالمی حالات سے ہم آہنگ نہیں ہیں، دور جدید کے تقاضے پورے نہیں کرتے اور مستقبل کی گلوبل اور عالمی سوسائٹی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ اعتراضات صرف غیر مسلم اداروں اور لابیوں کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ متعدد مسلم ادارے اور دانش ور بھی بین الاقوامی معاہدہ کی پابندی اور عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگی کے نام پر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ہزاروں این جی اوز اس وقت اس ایجنڈے پر عالم اسلام کے مختلف ممالک میں مصروف عمل ہیں اور مسلمان نوجوانوں اور عورتوں کو ان حقوق کے عنوان سے اسلامی شریعت اور احکام وقوانین کے خلاف ورغلانے کے لیے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔

ہم نے اس سلسلے میں متعدد علمی ودینی مراکز کو توجہ دلائی ہے اور ایک عرصہ سے اس ضمن میں آواز بلند کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا اس طور پر تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کون کون سے اسلامی احکام وقوانین اس کی کون کون سی دفعات کی زد میں آتے ہیں اور شریعت اسلامیہ کا اس چارٹر کے ساتھ کہاں کہاں ٹکراؤ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مابہ النزاع امور کی نشان دہی ہوگی تو اسلامی احکام وقوانین پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا جا سکے گا اور ان کا جواب بھی دیا جا سکے گا، مگر ہمیں افسوس ہے کہ مسلسل چیخ پکار کے باوجود ہمارے بڑے علمی ودینی مراکز اس طرف متوجہ نہیں ہو رہے بلکہ بعض اہم علمی اداروں نے ہماری درخواست کے جواب میں لکھا ہے کہ انھیں اس کام کی کوئی ضرورت اور افادیت محسوس نہیں ہوتی اس لیے وہ اس سلسلے میں کسی پیش رفت سے قاصر ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے ملک کے تمام علمی ودینی مراکز سے عمومی اتمام حجت کے طور پر ہم یہ گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کا، جو اس وقت بین الاقوامی دستور کے طور پر دنیا بھر میں نافذ ہے اور بین الاقوامی معاہدہ کی حیثیت سے اس کی پابندی تمام ممالک پر لازم ہے، جائزہ لیں اور اس کا گہری سنجیدگی اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر کے اس سلسلے میں اپنی دینی وملی ذمہ داری سے سبک دوش ہوں۔

ہمارے نزدیک اس کے لیے تین مراحل میں کام کرنے کی ضرورت ہے:

  1. پہلے مرحلہ میں اس چارٹر کا دفعہ وار تفصیلی مطالعہ کر کے ان اسلامی احکام وقوانین کی نشان دہی کی جائے جو اس منشور کی زد میں آتے ہیں اور جن پر اس حوالے سے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔
  2. دوسرے مرحلے میں تقابلی مطالعہ کے ساتھ اسلامی احکام وقوانین کی صحت وبرتری کی وضاحت کی جائے اور نہ صرف عقلی ونقلی بلکہ معروضی دلائل کے ساتھ اسلامی احکام وقوانین کی افادیت اور ضرورت کو ثابت کیا جائے۔
  3. تیسرے مرحلے میں اسلامی دستور کے لیے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ ۳۱ علماے کرام کے مرتب کردہ ۲۲ دستوری نکات کی طرز پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق کا ایسا جامع چارٹر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جسے اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے اور جسے ۲۲ دستوری نکات کی طرح تمام مکاتب فکر کے اکابر علماے کرام کی تصدیق حاصل ہو۔ اس پر بحث کی تمہید اور گفتگو کے آغاز کے طور پر ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے ان چند اسلامی احکام وقوانین کی نشان دہی کر رہے ہیں جن پر اس منشور کی بنیاد پر اعتراضات سامنے آ رہے ہیں اور جن پر اس وقت عالمی سطح پر گفتگو اور بحث ومباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔

عورتوں کے امتیازی قوانین

اس منشور کی تمہید میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا بطور عقیدہ ذکر کیا گیا ہے اور اسی حوالے سے دنیا بھر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر شعبہ میں برابری اور مساوات قائم کی جائے اور کوئی ایسا قانو ن نافذ نہ کیا جائے جو عورتوں کے حوالے سے امتیازی حیثیت رکھتا ہو۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جو اسلامی احکام امتیازی قوانین قرار پاتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

  • اسلام میں حکمرانی کا حق صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے۔
  • پبلک مقامات پر عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت ہے۔
  • دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
  • وراثت میں مردوں اور عورتوں کے حصوں میں فرق ہے۔
  • عورتوں کے لیے طلاق کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔

غلامی کا مسئلہ

انسانی حقوق کے مذکورہ چارٹر کی دفعہ ۴ میں کہا گیا ہے کہ:

’’کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا، غلامی اور بردہ فروشی چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو، ممنوع قرار دی جائے گی۔‘‘

اس دفعہ کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب مسلم حکومتیں بین الاقوامی معاہدے کی رو سے غلامی کو ختم کرنے کا عہد کر چکی ہیں تو پھر اسلامی ممالک میں قرآن کریم، احادیث نبوی اور فقہ اسلامی سے غلامی کے احکام کو خارج کیوں نہیں کیا جا رہا اور دینی مدارس میں ان مسائل واحکام کی مسلسل تعلیم کیوں دی جا رہی ہے؟

شرعی حدود کا مسئلہ

دفعہ ۵ میں کہا گیا ہے کہ:

’’کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ سلوک، انسانیت سوز، ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘

اس دفعہ کی رو سے کسی بھی سزا کا جسمانی اذیت اور تذلیل سے خالی ہونا ضروری ہے جبکہ ہاتھ کاٹنا، سنگسار کرنا، کوڑے مارنا اور سرعام سزا دینا وغیرہ جسمانی اذیت اور تذلیل پر مشتمل سزائیں ہیں۔ اسی بنا پر ان سزاؤں کو وحشیانہ کہا جاتا ہے اور انھیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔

خاندانی قوانین

دفعہ ۱۶ میں کہا گیا ہے کہ:

’’بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل، قومیت یا مذہب کی بنا پر لگائی جائے، شادی بیاہ کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے، مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔‘‘

اس دفعہ کی رو سے مندرجہ ذیل احکام انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار پاتے ہیں:

  • کم سنی کے نکاح کا جواز
  • غیر مسلموں کے ساتھ شادی نکاح کی ممانعت
  • کفو اور ولایت کے تمام احکام
  • عورت کے لیے طلاق کا حق تسلیم نہ کرنا۔ اور
  • خاندانی ماحول میں مرد کا حاکم ہونا۔

آزادی مذہب

دفعہ ۱۸ اور دفعہ ۱۹ میں رائے کی آزادی، مذہب کی آزادی، مذہب تبدیل کرنے کا حق، اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا حق اور اس کے لیے دعوت وتبلیغ کا حق ہر شخص کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی رو سے ارتداد کی شرعی سزا، توہین مذہب اور توہین رسالت کی سزا، غیر مسلموں کا مسلم معاشرہ میں اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور امتناع قادیانیت آرڈی ننس وغیرہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے عالمی حلقوں اور لابیوں کی تنقید کا مسلسل نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

یہ چند امور بطور نمونہ عرض کیے گئے ہیں تاکہ اس انداز سے انسانی حقوق کے چارٹر کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ ضروری نہیں کہ اس چارٹر کی ہر بات کی مخالفت کی جائے۔ اس میں بہت سی باتیں درست ہیں اور ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے لیکن جو امور متنازعہ ہیں اور جن کی بنا پر بہت سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت کی جا رہی ہے بلکہ مسلم ممالک اور حکومتوں پر ان کے خاتمہ کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ان کی نشان دہی اور ان کے بارے میں مسلمانوں کا علمی موقف سامنے لانا بہرحال ہماری دینی وملی ذمہ داری ہے۔ امید ہے کہ تمام علمی ودینی مراکز اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور اسلام کی نمائندگی وترجمانی کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کی علمی وفکری راہ نمائی کی ذمہ داری سے بھی سبک دوش ہوں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter