ملکی و قومی مسائل ۔ ملی مجلس شرعی کا اجلاس

   
تاریخ اشاعت: 
۱۷ جون ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

۱۵ تاریخ کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا ایک اہم اجلاس مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مولانا مفتی محمد خان قادری، علامہ احمد علی قصوری، مولانا عبد المالک خان، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا سید عبد الوحید، حافظ عاکف سعید، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا سید قطب، مولانا قاری احمد وقاص، اور راقم الحروف نے شرکت کی۔

وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام و قوانین کے خلاف کیس کی از سر نو سماعت شروع ہونے کے بعد عدالت کی طرف سے ملک بھر کے علمی و دینی حلقوں کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا گیا ہے، ملی مجلس شرعی نے مختلف مکاتب فکر کی طرف سے اس کا متفقہ جواب بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی کئی ماہ تک کام کرتی رہی ہے اور اس نے متفقہ جواب تیار کر لیا ہے۔ کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین نے اس کی رپورٹ پیش کی جس پر اجلاس میں اس متفقہ جواب کی منظوری دیتے ہوئے اسے وفاقی شرعی عدالت کو باضابطہ طور پر بھجوانے اور شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اجلاس میں راقم الحروف نے تحریک انسداد سود پاکستان کے کنوینر کی حیثیت سے ملک کے مختلف شہروں میں اس سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات کی رپورٹ پیش کی اور طے پایا کہ رمضان المبارک کے بعد عوامی و دینی حلقوں میں سود کے بارے میں بیداری اور آگہی کو فروغ دینے کے لیے تحریک انسداد سود پاکستان کی سرگرمیوں کو تیز کیا جائے گا۔
اجلاس میں ملک کی عمومی صورت حال اور مختلف عوامی مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا اور سرکردہ علماء کرام نے اس سلسلہ میں اپنی تجاویز پیش کیں۔

مولانا مفتی محمد خان قادری نے کہا کہ اس وقت ہمارے ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور مہنگائی کا ہے اور غریب آدمی اس چکی میں بری طرح پستا چلا جا رہا ہے۔ مگر دینی حلقوں اور علماء کرام کی اس طرف پوری طرح توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ معاشرے کے غریب اور مستحق لوگوں کا خیال رکھنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے علماء کرام، دینی جماعتوں، مدارس اور مساجد کو اپنے پروگرام میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ہر مسجد میں ایک ایسی کمیٹی ہونی چاہیے جو اردگرد کے نادار اور غریب لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور ان کو اجتماعی طور پر پورا کرنے کا اہتمام کرے۔

مولانا حافظ فضل الرحیم نے اس طرف توجہ دلائی کہ میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کی طرف سے فحاشی اور عریانی کے فروغ کا دائرہ جس طرح وسیع ہوتا جا رہا ہے، اس سے ہماری دینی اور اخلاقی قدریں تباہ ہو رہی ہیں، فحاشی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے اور ثواب و گناہ کا فرق مٹنے لگا ہے۔ اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو نئی نسل کے ایمان اور اخلاق کی حفاظت مشکل ہو جائے گی۔

مولانا حافظ عاکف سعید نے کہا کہ ہمارے تمام مسائل کی اصل جڑ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک ہم ملک میں اقامت دین اور دینی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ سودی نظام کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔ جب تک اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہمارے مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور ایک ایک مسئلہ کو لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔

علامہ احمد علی قصوری نے اس بات پر زور دیا کہ دینی حلقوں نے جب بھی کسی مشترکہ قومی اور دینی مسئلہ پر اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور متفق ہو کر تحریک چلائی ہے انہیں اس میں ہمیشہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر بھی اسی اتحاد اور عزم کا اظہار کیا جائے جس کا مظاہرہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر کیا گیا تھا۔

مولانا سید عبد الوحید نے کہا کہ ہمیں عوام میں یہ شعور بھی پیدا کرنا چاہیے کہ امارت اور تعیش کے بے جا مظاہرے اور معیار زندگی میں بے تحاشا فرق کو ختم کیا جائے۔ اس لیے کہ اس سے غریب عوام میں مایوسی پھیلتی ہے اور معیار زندگی کی دوڑ میں بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔

مولانا عبد المالک خان نے کہا کہ قومی اور عوامی مسائل کے لیے دینی حلقے اور علماء کرام اپنی اپنی جگہ تو کام کر رہے ہیں لیکن ان میں اجتماعیت اور مشاورت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کام اجتماعی طور پر سر انجام دینے سے اس میں قوت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ برکت بھی ہوتی ہے۔

اجلاس میں ان امور کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ان مسائل کی طرف دینی اور عوامی حلقوں کو توجہ دلانے کے علاوہ ان کے بارے میں منظم جدوجہد کے لیے ایک رپورٹ مرتب کی جائے گی اور رمضان المبارک کے بعد ملی مجلس شرعی کے اجلاس میں اس کا جائزہ لے کر اس مہم کو آگے بڑھانے کا طریق کار طے کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter