اہم قومی مسائل پر ملی مجلسِ شرعی کا موقف

   
تاریخ : 
۲۰ جنوری ۲۰۲۲ء

۱۳ جنوری ۲۰۲۲ء کو لاہور پریس کلب میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے صدر مولانا زاہد الراشدی نے مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا حافظ محمد عمران طحاوی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملی مجلس شرعی پاکستان تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کا ایک مشترکہ علمی و فکری فورم ہے جو گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے قومی و دینی مسائل میں سرگرم عمل ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ، ملک میں دستور کے مطابق شرعی قوانین کا نفاذ، مسلم تہذیب و روایات کی پاسداری، قومی خودمختاری اور تعلیمی نظام و نصاب کی پہرے داری اس کے بنیادی اہداف ہیں۔

مجلس کے پہلے صدر ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ، دوسرے صدر مولانا مفتی محمد خان قادری مرحوم و مغفور تھے اور ان کی وفات کے بعد سے یہ ذمہ داری میرے سپرد ہے، جبکہ سیکرٹری جنرل شروع سے پروفیسر ڈاکٹر محمد امین چلے آ رہے ہیں۔ ہماری مرکزی ٹیم میں مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا ڈاکٹر حسن مدنی، قاری زوار بہادر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، علامہ آغا سید جواد نقوی، حاجی عبد اللطیف چیمہ اور مولانا حافظ نعمان حامد شامل ہیں۔

ہمارا طریق کار یہ ہے کہ قومی و دینی دائروں میں پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں، ان کے لیے مشترکہ موقف سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں، اور متعلقہ حلقوں کو توجہ دلا کر عملی جدوجہد کا ماحول پیدا کرنے کی محنت کرتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ کے دوران متعدد امور و مسائل پر اس دائرہ میں ملی مجلس شرعی اپنی استطاعت اور حالات و ظروف کے مطابق تگ و دو کرتی آ رہی ہے، اس لیے ملک بھر کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور اربابِ علم و دانش سے ہماری یہ گزارش ہے کہ وہ اس جدوجہد میں ہمارے ساتھ شریک ہوں۔

اس تناظر میں لاہور پریس کلب کی اس نشست میں اخبار نویس دوستوں کی وساطت سے معروضی حالات میں درپیش چند مسائل پر ملی مجلس شرعی کا موقف قوم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے:

  • سانحۂ سیالکوٹ کے حوالے سے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون ایک بار پھر زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک طرف قانون پر صحیح طور پر عمل نہ ہونے سے لاقانونیت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے اور دوسری طرف اس قانون کا فرقہ وارانہ حلقوں میں غلط استعمال اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ دونوں پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مجلس تمام علماء کرام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ عوام کو اپنے خطبات اور دروس کے ذریعے تحمل و بردباری کا درس دیں کہ کوئی بھی ذاتی عناد کی بنا پر محض الزام تراشی کرتے ہوئے بلا دلیل ہر کسی کو کافر و گستاخ کہہ کر ناحق قتل نہ کرے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سلسلہ میں ملی مجلس شرعی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد عمران طحاوی نے سیالکوٹ کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کے ساتھ میٹنگ کے حوالہ سے جو رپورٹ اور تجاویز پیش کی ہیں وہ اخبار نویس دوستوں کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
  • حکومتِ پاکستان کا افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے مسلسل گریز شدید معاشی و غذائی بحران سے دوچار افغان عوام کی مدد میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے حکومتِ پاکستان اور دیگر حکومتوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت کو فی الفور تسلیم کر کے افغان عوام کی غیر مشروط امداد کی راہ ہموار کی جائے اور تمام متعلقہ معاملات معاشی حصار کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ اگر موجودہ صورتِ حال مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئی ہے تو باقی مسائل بھی مذاکرات کے ذریعے ہی طے پانے چاہئیں۔
  • ملک میں کچھ لبرل عناصر کے ذریعے قومی نصابِ تعلیم سے تیزی کے ساتھ اسلامی روایات و تعلیمات نکال کر سیکولر نصاب بنایا جا رہا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے بارے میں ایک رپورٹ ملی مجلس شرعی نے جاری کی ہے۔ جس کی بنیاد پر ہم حکومت سے تعلیمی پالیسی پر فوری نظرثانی کے مطالبے کے ساتھ تمام محب وطن سیاسی و دینی حلقوں اور جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دستورِ پاکستان کے مطابق ملک کے تعلیمی ماحول کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
  • یہ بات ملک اور بیرون ملک کے تمام سیکولر حلقوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء کرام، دینی حلقے اور عوام پاکستان کو اس کی تہذیبی شناخت اور نظریاتی اہداف سے الگ کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  • مدینہ مسجد کراچی کے حوالہ سے ہم کراچی کے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ مسجد کو شہید کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے ورنہ اس سے نقصِ امن کا خطرہ پیش آئے گا۔ نیز اس سلسلہ سلسلہ میں علمی و دینی قیادت کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
  • سانحۂ مری ایک قومی المیہ ہے جو ہماری معاشرتی اور انتظامی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ہم ان کے خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحہ اور المیہ کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کی جائے اور آئندہ ایسے المناک واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter