فوجداری قانون میں ترامیم اور عدلیہ کا کردار

   
تاریخ : 
فروری ۲۰۲۲ء

ملک کے فوجداری قوانین میں نئی اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور گزشتہ روز اسلام آباد میں فوجداری قانون اور نظام انصاف کے حوالہ سے ایک تقریب سے خطاب ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور عدالتی نظام انصاف فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہے، اس لیے یہ اصلاحات لائی جا رہی ہیں اور ان پر عملدرآمد کرانے کے لیے عدلیہ کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

یہ اصلاحات کیا ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے، مقاصد کیا ہیں، اور متوقع نتائج و ثمرات کیا ہوں گے؟ ان سب پہلوؤں پر سنجیدہ گفتگو کی ضرورت ہے، مگر یہ اس کے بارے میں تفصیلات سامنے آنے پر ہی ہو سکے گا بلکہ ملک کے قانونی، دینی اور علمی حلقوں سے ہماری گزارش ہو گی کہ وہ اس معاملہ کو روٹین ورک کے طور پر نہیں بلکہ اس کی اہمیت اور نتائج کی روشنی میں موضوع بحث بنائیں اور اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر اپنی آرا کا اظہار کریں۔ مگر سرِدست اصولی حوالہ سے ہم کچھ گزارشات بطور تمہید عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اس امر سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور یہ درست ہے کہ موجودہ نظامِ عدل قانونی، سماجی اور تہذیبی انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ ہمارے ہاں یہ روایت سی بن گئی ہے کہ وقتی طور پر کچھ ترامیم و اصلاحات یا لیپاپوتی کے ذریعے مسئلہ کو ’’کیموفلاج‘‘ کر دیا جاتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی مسئلہ از سر نو سامنے آجاتا ہے اور ہم پھر سے ترامیم و اصلاحات کا کوئی نیا فارمولا طے کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم کولہو کے بیل کی طرح گزشتہ پون صدی سے ایک ہی دائرے میں چکر کاٹتے جا رہے ہیں۔

جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کی صورت میں ہم نے قوم کو اس کی تہذیبی روایات و اقدار کے تحفظ اور اس کے عقیدہ کے مطابق قرآن و سنت کے احکام کی عملداری کا مژد سنایا تھا اور دستور میں اس کی واضح گارنٹی دی تھی جو اب بھی دستور کا حصہ ہے، لیکن قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستوری تقاضوں کی تکمیل کے لیے نیا انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ فراہم کرنے کی بجائے اس سب کچھ کو اسی عدالتی و انتظامی سسٹم کے حوالے کر دیا گیا جو نو آبادیاتی دور سے ہمارے سارے معاملات کو کنٹرول کر رہا ہے، اور اس سسٹم کے کم و بیش تمام افراد مجموعی طور پر نوآبادیاتی دور کے ماحول اور طریق کار کو نہ صرف پوری طرح باقی رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کے تحفظ کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نیا نافذ ہونے والا کوئی بھی قانون ''فائیل ورک'' اور معاشرتی خرابیوں کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دے رہا۔

مثال کے طور پر صرف ایک بات کو دیکھ لیا جائے کہ دستور نے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کو عدلیہ اور انتظامیہ کی ذمہ داری قرار دے رکھا ہے، مگر عدلیہ اور انتظامیہ کے لیے ججوں اور افسروں کی تعلیم و تربیت کے نظام میں قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم شامل نہیں ہے۔ یعنی ایک افسر یا جج کی یہ ذمہ داری تو ہے کہ وہ قرآن و سنت کے احکام کی پاسداری کرے مگر جس تعلیمی نظام و نصاب سے گزر کر وہ اس منصب تک پہنچا ہے اس میں قرآن و سنت بطور مضمون شامل نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کسی افسر یا جج نے اگر اپنے طور پر قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی پاسداری کا ارادہ بھی کر لیا ہے تو اسے ذاتی معلومات، سنی سنائی باتوں، یا محض مطالعہ کی بنیاد پر ایسا کرنا ہو گا۔ اور ایسا عملاً ہو رہا ہے جو ہمارے خیال میں خود اس جج و افسر کے ساتھ بھی نا انصافی اور زیادتی ہے کہ اسے ایسے نظام یا قوانین کی عملداری کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا اس کے پاس علم نہیں ہے اور اسے اس سے واقف کرانے کا کوئی سسٹم بھی موجود نہیں ہے۔

اس لیے ہمارے خیال میں ملک میں سماجی انصاف یا کسی بھی شعبہ میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے اصل مسئلہ قانون نہیں بلکہ قانون پر عملدرآمد کرانے والے افسران اور انتظامی و عدالتی ڈھانچے کے افراد کا اس قانون کے ساتھ ساتھ اس کے پس منظر اور مقاصد و نتائج سے باخبر ہونا ہے، جس کے بغیر نہ وہ اس قانون کا صحیح طور پر نفاذ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس قانون کو معاشرے میں انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس لیے اصل بات نوآبادیاتی نظام اور اس کے انتظامی و عدالتی ڈھانچے سے نجات حاصل کرنے کی ہے جو دستور کی بالادستی اور دستوری تقاضوں کے مطابق انتظامی و عدالتی ڈھانچے کی فراہمی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور جس کے لیے ہمارے مقتدر حلقے ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں، اور نہ ہی معروضی حالات میں مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور عدالتی نظام سماجی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پا رہا اور پھر چند ترامیم و اصلاحات کا اعلان کر کے ان کی عملداری کی ذمہ داری اسی انتظامی و عدالتی نظام کے سپرد کر دینا کم از کم ہماری سمجھ میں نہیں آرہا اور میر تقی میر مرحوم کے بقول یہ سارا عمل ؎

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوتے جس کے سبب
اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

کا مصداق نظر آرہا ہے۔ اس لیے مقتدر حلقوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ترامیم و اصلاحات کا نیا ڈول ڈالتے رہنے کی بجائے ملک کے انتظامی و عدالتی نظام کو نوآبادیاتی مزاج و کردار کے ماحول سے باہر لانے کی کوشش کریں، اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے ؎

بدلنا ہے تو مے بدلو نظام مے کش بدلو
وگرنہ چند پیمانے بدل جانے سے کیا ہو گا؟
   
2016ء سے
Flag Counter