پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کی صورتحال

   
تاریخ: 
۲۵ ستمبر ۱۹۹۴ء

(تحریکِ نفاذِ اسلام گلاسگو کے زیر اہتمام ایک روزہ نظامِ شریعت کانفرنس سے خطاب)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل جو پہلے ہی بہت سست رفتاری کے ساتھ چل رہا تھا، اب تعطل کا شکار ہے، بلکہ کسی مزید پیشرفت کی بجائے پہلے سے کیے گئے اقدامات کو بھی ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے، جس کی ذمہ داری سب سے زیادہ دینی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو اپنے خلفشار اور شخصیات کے ٹکراؤ کے باعث اسلام دشمن لابیوں کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہی ہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت جو نظام ہمیں ورثے میں ملا تھا وہ قطعی طور پر ناکام ہو گیا ہے اور ہمارے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے سنجیدگی کے ساتھ محنت کی جائے۔ نظام کی تبدیلی کی بات ملک کے تمام سیاسی حلقے کر رہے ہیں اور اس پر تمام حلقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ناکام ہو گیا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لانے کی ضرورت ہے، لیکن نئے نظام کے بارے میں بڑی سیاسی جماعتوں کا ذہن صاف نہیں ہے اور وہ اسلام کو بطور نظام قبول کرنے کی بجائے اس سلسلہ میں راہنمائی کے لیے مغرب کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ حالانکہ صرف اور صرف اسلام ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف ہم مسلمانوں کے بلکہ پورے انسانی معاشرہ کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے سوا کسی اور نظام کا تجربہ مزید وقت ضائع کرنے اور قوم کو اور زیادہ پریشانیوں سے دوچار کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرے گا۔

ہم مسلمان کی حیثیت سے قرآن و سنت کے تمام احکام قبول کرنے کے پابند ہیں، اور ہمیں یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں چاہیں قرآن و سنت کے احکام کو اختیار کر لیں اور جس شعبے میں نہ چاہیں انہیں ترک کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں خدائی احکام کو تقسیم کرنے والی قوموں کے لیے دنیا کی زندگی میں سخت ذلت اور رسوائی کی وعید سنائی ہے جس کا عملی مظاہرہ ہم اپنی قومی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر ہم نے بحیثیت قوم ایک عہد کر رکھا ہے کہ پاکستان کے نام پر الگ ملک ملنے کی صورت میں خدا تعالٰی اور اس کے آخری رسول کے احکام کی عملداری قائم کریں گے، لیکن پچاس برس سے ہم اس قومی عہد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ قومی عہد کی خلاف ورزی کرنے والی قوموں پر اللہ تعالٰی دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے۔

مسلم ممالک میں اسلامائزیشن کی تحریکیں قیادت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور دنیا بھر کی اسلام دشمن لابیاں پاکستان سے خوفزدہ ہیں کہ یہی ایک ملک ہے جو دنیا میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا اور اسلامی نظام کے دوبارہ نفاذ کی قیادت کر سکتا ہے، لیکن پاکستان کی دینی جماعتیں باہمی خلفشار اور گروہی بالادستی کی ترجیحات میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔

پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مسئلہ اب پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کی جنگ اب اسلام آباد میں نہیں بلکہ جنیوا اور نیویارک میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کی قیادت واشنگٹن اور لندن کر رہے ہیں۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر بین الاقوامی ادارے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے خلاف فریق بن چکے ہیں، اور وہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کو بطور ہتھیار استعمال کر کے نفاذِ اسلام کا راستہ روک دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی دینی جماعتیں صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے ہوش مندی کے ساتھ نفاذِ اسلام کی جنگ لڑیں۔

مغربی ممالک میں مقیم مسلمان اور پاکستانی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسلام اور پاکستان کے خلاف مغربی لابیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب اور اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے منظم محنت کریں اور جرأت و حوصلہ کے ساتھ کام کریں، کیونکہ اگر نیویارک اور لندن میں رہنے والے یہودی صہیونیت اور اسرائیل کے لیے لابنگ کر سکتے ہیں تو مسلمانوں اور پاکستانیوں کو بھی اپنے دین اور وطن کے لیے لابنگ اور جدوجہد کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۱۹۹۴ء)
2016ء سے
Flag Counter