تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے مقاصد

   
تاریخ اشاعت: 
۴ ستمبر ۲۰۱۴ء

’’رائٹر‘‘ نے اسلام آباد کے دھرنوں کے آغاز میں ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ اس ساری مہم کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرائم منسٹر اور ڈپٹی کمشنر کے درمیان فرق کے احساس کو باقی رکھا جائے جو بعض حلقوں کے خیال میں مدّھم پڑنے لگا ہے۔ یہ مقصد پورا ہوا ہے یا نہیں اس کا اندازہ موجودہ منظر تبدیل ہونے کے بعد ہی ہوگا۔ مگر گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے قوم کے سامنے حقائق کا جو منظر نامہ پیش کیا ہے وہ نیا نہ ہونے کے باوجود نیا لگتا ہے۔ اور حیران کن نہ ہوتے ہوئے بھی تحیر کی کئی لہریں اس میں سے اٹھتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

جاوید ہاشمی نے جہاں دھرنوں کے پس پردہ عوامل کو بے نقاب کیا ہے وہاں انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ پارلیمنٹ ایک مؤقر دستوری ادارہ اور ریاست کا ستون ضرور ہے، لیکن عوام اس سے مایوس ہیں اور ان کے خیال میں پارلیمنٹ عوام کی توقعات پر اترنے میں کامیاب نہیں ہے۔ ہاشمی صاحب کے اس موقف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ عام آدمی کا تاثر یہی ہے اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر احترام اور اہمیت و تقدس کے باوجود نہ تو پارلیمنٹ دستور کے مطابق ملک میں ’’خدا کی حاکمیت اعلیٰ‘‘ کا ماحول قائم کر سکی ہے، نہ ہی ’’انسانی حقوق کی پاسداری‘‘ کو یقینی بنایا جا سکا ہے، اور نہ ہی ایک ’’اسلامی رفاہی معاشرہ‘‘ کی تشکیل کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ جبکہ یہ تین باتیں دستور پاکستان کے بنیادی اہداف اور قیام پاکستان کے اساسی مقاصد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جب تک ان امور کی طرف مؤثر اور عملی پیش رفت لوگوں کو نظر نہیں آئے گی ان کی مایوسی کو امید میں بدلنے کی کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔

مولانا فضل الرحمن کا شکوہ بھی درست ہے کہ پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلوں حتیٰ کہ ملک کی سیاسی قیادت کے اجتماعی موقف کو بھی طاقت ور اداروں کے ہاں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کا حق ہے اور جس کے بغیر ملک کے جمہوری ریاست ہونے کا تصور اور تاثر مضبوط نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے طاقت ور اداروں کی ترجیحات پر جن تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ ہمارے خیال میں پوری قوم بالخصوص دستور و قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے حلقوں کے دلوں کی آواز ہے۔ اور مولانا موصوف کو اس خطاب پر ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے جو داد ملی ہے اس سے یہ نظر آتا ہے کہ یہ بات شاید سبھی کہنا چاہ رہے تھے مگر ’’بلی کے گلے میں گھنٹی‘‘ باندھنے کا حوصلہ مولانا فضل الرحمن نے کر لیا ہے جس پر وہ بجا طور پر داد و تبریک کے مستحق ہیں۔

گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایک محفل میں اپنی داستان غم سناتے ہوئے اسی بات کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ ’’پارلیمنٹ ایک کمزور ادارہ ہے اس لیے اس کے سہارے کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔‘‘ اس لیے اگر پارلیمنٹ کو اپنی اس حیثیت کا احساس ہو رہا ہے تو یقیناً یہ ایک خوش آئند بات ہے اور ہماری دعائیں پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی منتخب جمہوری پارلیمنٹ کو اپنا صحیح مقام اور خود مختاری حاصل کرنے کی اس کوشش میں سرخرو فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

جناب اعتزاز احسن کا یہ ارشاد بھی قابل توجہ ہے کہ پارلیمنٹ کا تقدس اور اس کی خود مختاری ساری قوم کا مشترکہ مسئلہ ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ پارلیمانی نہیں ہے۔ اور اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ پارلیمنٹ کو درپیش خطرات ٹل جانے کے بعد موجودہ حکمران شاید پھر اپنی نفسیات اور ذہنیت کی اس سابقہ روش کی طرف پہلے سے زیادہ حوصلے کے ساتھ واپس لوٹ جائیں جس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بار بار کے تلخ تجربات کے باوجود اس میں کسی تبدیلی کے آثار اب تک دیکھنے میں نہیں آئے۔

بلکہ ہم تو ڈاکٹر طاہر القادری کے طرز عمل اور طریق کار سے شدید اختلاف کے باوجود ان کی اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آئین بنا تو لیا گیا مگر چار عشرے گزر جانے پر وہ عملدرآمد کی منزل سے محروم ہے اور اس پر عمل کرنے میں ابھی تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے خیال میں سارے مسائل کی جڑ یہی ہے کہ دستور کو ہم سب اپنی اپنی ضروریات کے لیے استعمال تو کر لیتے ہیں اور جہاں کسی مشکل میں پھنستے ہیں اسے سہارا اور شیلٹر بھی بنا لیتے ہیں، مگر آئین اس ملک میں جس قسم کے نظام اور طرز حکمرانی کا تقاضہ کرتا ہے اس کے لیے ہم خود کو تیار نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر (۱) اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ (۲) پارلیمنٹ کی حکمرانی (۳) انسانی حقوق کی عملداری اور (۴) فلاحی رفاہی معاشرہ کی تشکیل کو ہماری قومی پالیسیوں کی ترجیحات میں اولین پوزیشن حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا کہ ہم ان بنیادی امور کی طرف سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہوں اور وطن عزیز کو پاکستان کے قیام کے مقاصد کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی جمہوری رفاہی ریاست بنانے کے لیے خلوص کے ساتھ محنت کریں۔

باقی رہی اسلام آباد کی موجودہ صورت حال تو ہمیں اس پر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے جو ہمارے مرحوم دوست ملک محمد اکبر خان ساقی اپنی تقریروں میں اکثر سنایا کرتے تھے کہ کسی بڑے شہر کے ’’بازار حسن‘‘ میں آگ لگ گئی تو فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اور عملہ اسے بجھانے کے لیے پہنچ گیا۔ مگر واپسی میں جب بہت تاخیر ہوئی تو ہیڈ کوارٹر کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا ابھی تک آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا؟ وہاں سے جواب یہ ملا کہ آگ پر تو جلدی قابو پا لیا گیا تھا مگر اب فائر بریگیڈ کے عملہ پر قابو پانے میں مشکل پیش آرہی ہے، اس لیے کچھ وقت مزید لگ جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter